ماہنامہ منشور، ایک تحریک،ایک عہد
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
پاکستان میں نظریاتی صحافت کا سفرکبھی ہموار نہیں رہا مگر منشور پچھلی چھ دہائیوں سے شایع ہو رہا ہے۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے کہ ایک پرچہ جو نظریاتی بنیاد پر شایع ہو، وہ اتنے لمبے عرصے سے نہ صرف شایع ہورہا ہے بلکہ خوشی کی بات یہ کہ اب اس نے وقت کے بدلتے تقاضوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ بھی قائم کر لی ہے، ایسا قدم جو عہد حاضرکی ضرورت ہے۔
منشورکا تعلق ان دنوں سے ہے جب مزدور یونینز سیاسی جبر اور ریاستی خوف کے بیچ بھی سانس لینے کی کوشش کرتی تھیں۔ یہ رسالہ ایئر ویز ایمپلائز یونین کی آواز تھا اور اس کی ہر اشاعت میں پسینہ، جدوجہد اور نظریاتی یقین کی خوشبو شامل ہوتی تھی۔
وہ دور ایسا تھا جب سرخا ہونا جرم تھا اور انقلاب لفظ نہیں، الزام سمجھا جاتا تھا۔ ایسے میں منشور نے وہ سب کہا جوکہنے کی اجازت نہ تھی، وہ سب لکھا جسے لکھنے کی سزا دی جاتی تھی۔
زمانہ بدلا ، نظریے، بدلے اور دنیا نے سرمایہ داری کے جشن منانا شروع کیے، مگر منشور نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی، کبھی ماسکو کی فکر اس کے ادارتی کمرے میں گونجتی رہی کبھی بیجنگ کے نعروں نے اس میں نئی جان ڈالی۔
ایک وقت آیا جب البانیا کے انور ھدی کے نظریات نے بھی منشور کے طرز فکر کو متاثرکیا اور آج تک کر رہا ہے۔ یہ رسالہ مقبول راستوں کا مسافر کبھی نہیں رہا، اس نے ہمیشہ وہی راہ اختیارکی جوکٹھن تھی۔
آمریت نے بہت کچھ بدلا مگر منشورکو نہیں بدل سکا۔ اس کے صفحات کبھی کم ہو گئے، کبھی چھپائی میں تاخیر ہوئی،کبھی مالی بحران نے اسے دیوار سے لگایا مگر وقت کی سختیاں طفیل عباس، ذکی عباس، اظہر عباس اور ان کے ساتھیوں کی ہمت اور جذبے کوکمزور نہ کرسکیں۔
یہ رسالہ ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ سامنے آیا جو طبقاتی استحصال، سامراجی مداخلت اور ریاستی ناانصافیوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔
ذکی عباس کے انتقال کے بعد منشور نکالنے کی ذمے داری نعیمہ عباس نے اٹھالی۔ ان کی شب و روز محنت کی بدولت منشور بڑی باقاعدگی سے نکلتا رہا۔
2019 میں طفیل عباس کے انتقال کے بعد تین سال تک منشورکی اشاعت بند رہی۔ اس کے بعد کامران عباس کی کاوشوں کی بدولت منشور کی اشاعت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا۔
آج کا قاری کتاب سے زیادہ اسکرین پر جیتا ہے۔ وہ خبروں کو سوائپ کرتا ہے اور نظریات کو چند سیکنڈ میں پرکھنا چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں منشورکی ویب سائٹ کا بننا ایک خوشگوار بات ہے۔
یہ صرف ایک رسالے کا ڈیجیٹل ہونا نہیں، تاریخ کا محفوظ ہونا بھی ہے۔ وہ پرانے شمارے جن پر وقت کی گرد نے نشان چھوڑ دیے تھے اب محفوظ ہو سکیں گے۔ وہ نئی نسل جو کاغذ سے زیادہ موبائل پہ پڑھتی ہے اب منشور تک آسانی سے پہنچ سکے گی۔
اس ویب سائٹ کے پیچھے وہی لوگ ہیں جنھوں نے برسوں سے اس رسالے کو اپنے تن اور من سے سنبھالا۔ چیف ایڈیٹرکامران عباس کی نظریاتی استقامت، شوکت چوہدری کا قلم اور یامین جتوئی کی ایڈیٹوریل صلاحیتیں یہ سب مل کر منشور کو صرف زندہ نہیں رکھے ہوئے بلکہ اسے ایک نئی سمت بھی دے رہے ہیں۔
ان کے پاس بڑے اداروں جیسے وسائل نہیں مگر جو چیز ان کے پاس ہے وہ بہت سے بڑے اداروں میں بھی نہیں ملتی، نظریے پر یقین اور اس یقین کو لفظوں میں ڈھالنے کی بے غرض خواہش۔
منشورکی ویب سائٹ اس بات کا اظہار ہے کہ سوچنے والے سوال اٹھانے والے اور مزاحمت کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ یہ رسالہ نہ کل اشتہاروں کے پیچھے بھاگا تھا نہ آج بھاگتا ہے۔ اس کا مقصد ہمیشہ وہی رہا ہے حق کہنے والوں کا ساتھ دینا اور طاقتورکے سامنے سوال رکھنا۔
جب لوگ کہتے ہیں کہ نئی نسل نظریات سے دور ہوگئی ہے، تب منشور کی ویب سائٹ یاد دلاتی ہے کہ نظریات کبھی مرا نہیں کرتے، بس راستے بدل لیتے ہیں۔
رسالہ اب کاغذ سے نکل کر ڈیجیٹل دنیا میں آ چکا ہے مگر اس کی روح وہی ہے سر اٹھا کر بات کرنے کی سچ لکھنے کی اور جدوجہد کے خواب کو زندہ رکھنے کی۔
یہی منشورکی اصل طاقت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مزاحمت اگر سچی ہو تو زمانہ خواہ کتنا بھی بدل جائے، راستہ کہیں نہ کہیں نکل ہی آتا ہے۔
یہ رسالہ صرف سیاسی مزاحمت کا نشان نہیں بلکہ فکری دیانت کا نمونہ بھی ہے۔ اس کے صفحات میں وہ تجزیاتی گہرائی ملتی ہے جس نے ایک عام مزدور کو عالمی سیاست کے دھاروں سے جوڑا، اسے بتایا کہ اس کی محرومیاں مقامی نہیں بلکہ عالمی نظام کا حصہ ہیں۔
منشور نے اپنی فکری سمت کبھی کھونے نہیں دی۔ جب بہت سے لوگ سوویت یونین کے ٹوٹنے کو نظریے کی شکست سمجھنے لگے تھے، منشور نے اس شکست کو زیادہ گہرائی سے دیکھا، اس کی نظر ہمیشہ اس بنیادی سوال پر رہی کہ طاقت کون رکھتا ہے ؟ کیوں رکھتا ہے اورکس قیمت پر رکھتا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے کا فیصلہ منشورکی تاریخ میں ایک اور سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف نئے دورکا تقاضا نہیں بلکہ ذہنی وسعت کی دلیل ہے۔ ویب سائٹ کا بننا محض ایک تکنیکی کام نہیں، یہ اس بات کا اظہار ہے کہ منشور اب صرف کراچی یا پاکستان تک محدود نہیں رہا۔
اب اس کی رسائی سرحدوں سے آزاد ہوگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھا ہوا ایک قاری محض ایک کلک سے اس فکری روایت کا حصہ بن سکتا ہے جس نے برسوں تک ریاستی مخالفت کے باوجود اپنی راہ نہیں چھوڑی۔
آج جب سماج تیزی سے دو انتہاؤں میں بٹتا جا رہا ہے جہاں ایک طرف اندھی تقلید ہے اور دوسری طرف مکمل بے نیازی ایسے میں منشورکا وجود ایک توازن کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ رسالہ قاری کو نہ اندھیر نگری میں دھکیلتا ہے نہ اسے مایوسی کے اندھے کنویں میں چھوڑتا ہے۔
یہ ایک روشن دان کھولتا ہے، ایک چھوٹی سی کھڑکی جس سے قاری باہر جھانک کر دیکھ سکے کہ دنیا صرف وہ نہیں جو اسے دکھائی جاتی ہے بلکہ وہ بھی ہے جو چھپائی جا رہی ہے۔
منشورکی یہی خوبی اسے آج بھی معتبر بناتی ہے کہ وہ قاری کو سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے پر اُبھارتا ہے اور شاید یہی وہ عمل ہے جو کسی بھی سماج کو زندہ رکھتا ہے۔
میں بطور سرپرست اعلیٰ اس سفرکا حصہ ہوں اور آج بھی میں اس خواب پر یقین رکھتی ہوں کہ ایک اور دنیا ممکن ہے۔ وہ دنیا جہاں ظلم کو تقدیر نہ سمجھا جائے جہاں مزدورکی آواز دبائی نہ جائے۔ جہاں قلم کو خاموش کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ویب سائٹ رکھتا ہے یہ رسالہ ہے اور
پڑھیں:
پی ٹی آئی دہشتگردی کیخلاف جنگ کی کھلی مخالفت کرتی ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کھلی مخالفت کرتی ہے، پی ٹی آئی کے لوگ طالبان کو بھتہ دیتے ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ فوج پر تنقید ہم نے بھی کی لیکن کبھی سرخ لکیر عبور نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہے، بیرسٹر گوہر کو کوئی لفٹ نہیں کراتا، ان کی پارٹی کے ورکرز ان کے خلاف بیان دیتے ہیں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ تحریک انصاف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کھلی مخالفت کرتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کیا بات کریں گے جب ان کی اپنی پارٹی مخالفانہ بیانات دے رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی بہن نے بھارتی میڈیا سے جوبات چیت کی وہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی ہمیشہ سیاستدانوں سے بات کرنے سے انکار کرتے رہے، پی ٹی آئی کےجس بھی شخص نے پاکستان مخالف بات کی ہے، اس کی پارٹی نے ایک بار بھی مذمت نہیں کی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ نوازشریف نے ماضی میں جو بھارتی میڈیا کو انٹرویوز دیے، اس میں کبھی پاکستان کے وجود اور سالمیت کے خلاف بات نہیں کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لیڈر کو پھانسی دی گئی، اس کے باوجود انہوں نے 9 مئی جیسا واقعہ نہیں کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا پیپلز پارٹی نے تو کبھی بھارت کو آواز نہیں دی۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کو قید کیا گیا ان کو 3 مرتبہ ہٹایا گیا لیکن کبھی ریڈلائن کراس نہیں کی۔