Express News:
2025-12-06@22:09:35 GMT

بہترین تخلیق

اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT

’’ اسے دیکھو، وہ جو لال لباس میں ہے-‘‘ ہلکی سی آواز میں کہا گیا کہ کوئی سن نہ لے مگر ارد گرد بھی کانوں والے بیٹھے تھے جن کی سماعتیں اچھی تھیں۔ ’’ قد دیکھو، کیسا بوٹا سا ہے اور جوتوں کی ایڑی دیکھو، ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی وہ پانچ فٹ کی نہیں لگتی‘‘۔

’’ ہاں ، ٹھیک ہی کہتی ہیں ‘‘۔ ساتھ والی کی آواز آئی، ’’ میںنے تو اسے بیٹھے ہوئے ہی دیکھا تھا، اس لیے قد پر غور نہیں کیا‘‘۔

’’ اور کون سی ہے؟‘‘ پہلی والی نے سوال کیا۔

’’ ویسے تو ساری ہی ہیں جو بھی آپ کو پسند آ جائے، میںاس کا شجرہ نکال لوں گی‘‘ ۔ دوسری آواز میں اعتماد تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے پرس سے کچھ نکالا اور اسے عینک لگا کر غور سے دیکھا، ’’ اب آ رہی ہے اگلی‘‘ جو نام پکارا گیا تھا، اس نام کی لڑکی نے اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا، نام پکارا گیا تھا اور یقینا وہ نام اس کی فہرست میں تھا۔

’’ نہیں بھئی، اس کا رنگ دیکھو، چہرہ تو گلابی کر رکھا ہے مگر ہاتھ اور پیر اس کے اصل رنگ کی چغلی کھا رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے نخوت سے کہا، ’’ یہ تو بالکل بھی نہیں‘‘۔ انھوں نے اس ذہین اور فطین لڑکی کو یکسر مسترد کر دیاتھا۔

تھوڑی دیر گزری، چند اور نام پکارے گئے اور وہ لڑکیاں ایک ایک کر کے آتیں اور اسٹیج پر ایک طرف سے چلتی ہوئی، درمیان میں رکتیں اور پھر دوسری طرف سے نیچے اتر جاتیں۔

’’اب آرہی ہے!‘‘ ایک نام پکارا گیا تو دونوں خواتین تیار ہو کر بیٹھ گئیں، عینکیں ماتھوں سے اتر کر آنکھوں پر ٹک گئیں۔

’’یہ پیاری ہے، قد بھی اچھا ہے‘‘ ان خاتون نے تعریف کی تو دوسری خاتون تھوڑی مطمئن ہو گئی ’’ لیکن… ‘‘ ان خاتون کے لیکن کہنے پر وہ چونک گئیں اور سوالیہ نظر سے اسے دیکھا ’’ ذرا سی فربہ لگ رہی ہے مگر باقی سب ٹھیک ہو تو بچیاں وزن کم کر ہی لیتی ہیں‘‘ انھوں نے کہا تومیں نے بھی محسوس کیا کہ اس خاتون نے اس وقت سے لے کر اب تک صرف یہی ایک مثبت بات کی تھی ’’کس کی بیٹی ہے؟‘‘ اگلا سوال۔

ساتھ والی خاتون نے جواب دیا تو وہ مایوس ہو گئیں ’’ نہیں بچی کا کسی اچھے گھر سے ہونا ، میرا مطلب ہے کہ کسی اچھے خاندان سے ہونا اور باپ کا بھی کسی اہم عہدے پر ہونا زیادہ بہتر ہو گا‘‘

’’چلیں ابھی ایک بہت بڑے پولیس کے افسر کی بیٹی آگے آئے گی، وہ بھی بہت اچھی ہے، اسے دیکھ لیں ‘‘ دوسری خاتون نے ان کے سوال کا جواب دیا ’’ آرہی ہے! ‘‘ اپنے ہاتھ میں پکڑی لسٹ میں سے پکارے جانے والے ایک نام پر ان خاتون نے انھیں تیار رہنے کا حکم دیا اور وہ تیار ہوگئیں ، آنے والی لڑکی کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے، لڑکی ایک طرف سے اسٹیج پر آئی اور درمیان میں رکی، وہاں سے اس نے مہمان خصوصی سے اپنی سند وصول کی اور دوسری طرف سے نیچے اتر گئی۔

اب تک آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ کوئی منظم رشتہ پریڈ تھی جس میں لڑکیاں بھیڑ بکریوں کی طرح اسٹیج پر آ کر اپنی نمائش کرتی اور کیٹ واک کر کے نیچے اتر جاتی ہیں مگر اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ یہ ایک میڈیکل کالج کی کانووکیشن کی تقریب تھی اور اس میں وہ لڑکیاں تھیں جو اس وقت اپنی ڈاکٹری کا سرٹیفیکٹ وصول کر رہی تھیں۔

چار سال انھوں نے انتھک محنت کی تھی اور اس وقت وہ فخر سے اپنی اسناد اور حسن کارکردگی کے سرٹیفیکٹ بھی وصول کر رہی تھیں لیکن اس ہال میں نہ صر ف ہمارے سامنے کی نشست پر بلکہ کئی اور نشستوں پر بھی جنھیں ہم نہیں جانتے۔ 

اسی نوعیت کی خواتین بیٹھ کر اپنے بیٹوں کے لیے لڑکیوں کو جانچ اور تول رہی تھیں اور ان کی قابلیت سے بڑھ کر کیا اہم تھا، ان کے قد، ان کے جسموں کی ساخت، ان کی جلد کا رنگ، ان کی چال، ان کے بال، ان کی آنکھیں، ان کے باپوں کے عہدے اور ان کے خاندانوں کا قد۔

یہ ایک کہانی یا قصہ نہیں ہے، یقین کریں کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اب رشتے کروانے والی عورتیں، وہ عام ’’وچولنیں‘‘ نہیں ہیں اور نہ ہی لڑکوں کی مائیں وہ ہیں کہ جو لڑکی کے گھر پر جائیں اور چائے کی ٹرالی لاتی ہوئی لڑکی کو چند قدموں میں جانچ لیں اور رشتہ طے ہو جائے۔

اب لڑکیاں بھی رشتے کے لیے آنے والی خواتین کے سامنے ٹرالی گھسیٹ کر لانے کی پریڈ نہیں کرنا چاہتیں۔ اب آپ کی بیٹی کسی کالج میں پڑھتی ہے تو آپ کے علم میں آئے بغیر، ہر روز کالج کے گیٹ پر کوئی نہ کوئی ماں انھیں دیکھ کر رد کر رہی ہو گی، جسے خود پر یہ مان ہو گا کہ وہ ایک بیٹے کی ماں ہے۔

نہ اس کی تعلیم ہو گی نہ تربیت اور نہ کوئی گن مگر وہ بیٹا تو ہے نا اور اس کی ماں کو یہی اعزاز یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جہاں چاہے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں سے چن چن کر بھیڑوں اور بکریوں کو دیکھے اور ان میں نقائص بتا بتا کر انھیں رد کرتی رہے۔

قرآن کریم ، سورہء التین کی آیت نمبر چار میں اللہ تعالی خود فرماتے ہیں ۔

’’لقد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم، بے شک ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت پر بنایا ہے ‘‘

ہم اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز بناتے ہیں، کوئی کپڑا سی لیں، کوئی سویٹر بن لیں، کہانی لکھ لیں، اپنے لان میں اچھی طرح پھول لگا لیں، کوئی اچھا کھانا پکا لیں یا ہمارا بچہ اچھا کام کر کے تو ہم کتنے خوش ہوتے ہیں۔ 

خود اپنی کی تخلیق پر کتنے خوش ہوتے ہیں اور دل ہی دل میں اسے سراہتے ہیں، دوسروں کو دکھاتے ہیں تا کہ وہ بھی تعریف کریں، توہم کون ہیں اور ہماری کیا جرات کہ ہم اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تخلیقات پر یوں اعتراضات لگائیں اور ان کی شکل اور صورت پر نکتہ چینی کریں ۔

ان ماؤں سے کوئی پوچھے کہ کیا وہ گھر سے نکلتے وقت اپنے گھر کو، اپنے شوہر کو، اپنے بیٹے کو، اپنی بیٹیوں کو اور سب سے پہلے خود کو اچھی طرح دیکھ کر نکلتی ہیں؟ کیا ان کے بیٹے میں یا بیٹیوں میں کوئی کمی کجی نہیں ہے؟

کیا وہ دوسروں کی بیٹیوں میں سے کیڑے نکالتے وقت اپنی بیٹیوں کو دھیان میں رکھتی ہیں؟ کیا ان کا بیٹااس قابل ہے کہ اچھے خاندانوں کی خوش شکل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹیوں کا شوہر بننے اور انھیں عزت دینے کا اہل ہو؟ کیا وہ خود ایسی بے عیب ہیں یا ہمیشہ سے تھیں کہ انھیں کسی نے مسترد نہیں کیا ہو گا۔

سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ان کی بیٹیاں یا خود وہ اس جگہ پر ہوں جس جگہ پر دوسروں کی بیٹیاں اور وہ بیٹھ کر ان پر ریمارکس پاس کر رہی ہیں اور انھیں عیب نکال نکال کر رد کر رہی ہیں تو انھیں کیسا لگے گا، اچھا لگے گا؟ کیا وہ کسی ایسی عورت کا سر نہیں پھاڑ دیں گی جو یوں پبلک مقام پر کھڑی ہو کر ان کی بیٹیوں کے تعلیمی اداروں کے گیٹ پر باہر چھٹی کے وقت کھڑی ہوکر لوگوں کی بیٹیوں کو رشتہ کرنے کی نیت سے دیکھ رہی ہوں گی؟

کسی جگہ اس نکتے پر بات ہوئی تو یقین کریں، ایک خاتون کہنے لگیں کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ لوگوں کے گھروں میں جائیں،ان کے ہاں چائے پئیں، خاطر مدارات کروائیں اور پھر خاموشی اختیار کرلیں یا دیر کے بعد جواب دے دیں کہ ہمیں ان کی بیٹی پسند نہیں آئی۔

ہر کسی کی اپنی رائے ہے مگر میری ذاتی رائے میں یہ ایک انتہائی نامعقول طریقہ ہے۔ اس میں اکثر خواتین پہلے خود لڑکیوں کو پسند کر لیتی ہیں اور پھر اپنے ’’ ہیرے جیسے بیٹے‘‘ کے ساتھ دوبارہ انھی تعلیمی اداروں کے گیٹ پر کھڑے ہو کر لڑکیاں پسند کرواتیں ہیں۔

یہ کسی خیالی دنیا کی بات نہیں ہے، آپ رشتے کروانے والے دفاترمیں جا کر بھی پوچھ گچھ کر لیں کہ اب یہی طریقہ مروج ہے۔ چلیں اگرسب لوگ اس پر متفق ہیں تو ان کی مرضی مگرمجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ جس طرح بھی بچیاں دیکھیں مگر خدارا یوں ان کے جسمانی اور ظاہری عیوب کو لے کر رشتے مسترد نہ کریں۔

آپ کو کیا علم کہ آپ جس عیب کو بنیاد بنا کر رشتہ مسترد کر رہی ہیں جو کہ عیب کہلا بھی نہ سکے، (اللہ تعالی نے اسے بنایا ہی ایسا ہے) کل کلاں کو اس سے بڑا عیب آپ کی کسی بیٹی میں نکل آئے، جس حسن کی تلاش میں آپ ساری دنیا کی خاک چھانتی ہیں ، وہ حسن ایسا پائیدار نہیں ہوتا اور نہ ہی لڑکے صرف حسن پر مطمئن ہوتے ہیں۔

انھیں تو جب بھی اور جہاں مزید حسن نظر آئے گا، وہیں جا گریں گے۔ اپنے بیٹوں کی تربیت اچھی کریں اور ان میں باطن کی وہ آنکھ بیدار کریں جو کہ ظاہری حسن سے ہٹ کر دیکھتی ہے، انھیں ظاہری شکل و صورت سے محبت کرنے والا نہیں بلکہ اچھی سیرت اور عادات کا متلاشی بنائیں اور انھیں یہ سکھائیں کہ اس کا جوڑا اللہ نے بنا رکھا ہے، اس کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سے اور وہ اسے مل کر رہے گا۔ اپنے ساتھی کی عزت کریں اور قدر کریں، اس کی کمیوں کجیوں کو نظر انداز کریں اور دیکھیں کہ وہ جواب میں آپ کی کیسے عزت کرے گی۔

لڑکوں کی بات ہو تو کہتے ہیں ، مرد کی شکل کا کیا ہوتا ہے، اس کا عہدہ اور مرتبہ اہم ہوتا ہے ۔ لڑکوں کی ماؤں یا لڑکوں کی طرح، لڑکیاں لڑکوں کو ان کی شکل، تعلیم، تربیت اور عادات کے باعث مسترد کرنا شروع کردیں تو مجھے غالب گما ن ہے کہ لڑکے بھی شاید کنوارے ہی رہ جائیں یا لڑکیوں کی طرح شادی کے انتظار میں بوڑھے ہوجائیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انھوں نے خاتون نے لڑکوں کی ہیں اور کی بیٹی سے دیکھ کیا وہ رہی ہے اور وہ کر رہی اور اس ہی ہیں اور ان

پڑھیں:

صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔ یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
           
”نائن ایلیون“ کے بعد امریکہ کے سر پر انتقام کا بھوت سوار تھا۔ وہ جلدازجلد افغانستان کو ”تورا بورا“ بنانا چاہتا تھا۔ اپنی آتشِ انتقام کو سرد کرنے کے لیے اسے کسی کی ”لاجسٹک سپورٹ“ کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے ایک دھمکی آمیز فون نے اس کا کام آسان کر دیا۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے ابرو کے ایک اشارے پر اسے پلیٹ میں رکھ کر وہ کچھ دے دیا جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا اور جو اس کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔  اس حوالے سے  افتخار عارف کا ایک معروف شعر(ان سے معذرت کے ساتھ) کچھ ترمیم کے ساتھ، اس شکل میں وارد ہوا:
امریکہ کی چوکھٹ پہ ہم آشفتہ سروں نے
سجدے کیے کچھ ایسےجو واجب بھی نہیں تھے
امریکہ کے سامنے اس درجہ تک جبہ سرائی کے جواز میں کہا گیا کہ اگر ہم اس کام میں پہل نہ کرتے تو ہمارا رقیب ہندوستان مفادات کی اس دوڈ میں ہم پر سبقت لے گیا ہوتا۔ گویا ہمیں کسی کی محبت اور کسی کی مخالفت میں یہ سب کچھ انجام دینا پڑا۔ (آج ہم اپنے دامن میں اپنی اس پالیسی کی وجہ سے جس قسم کے ”فوائد“ سمیٹے ہوئے ہیں، وہ ”پہلے آؤ، پہلے پاؤ“ کے اصول پر ہمارے اسی عمل کا نتیجہ ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جلد بازی میں ”دانے“ کو دیکھا لیکن ”دام“ کو نہ دیکھا۔ یوں ہم تب سے اب تک، امریکہ بہادر کے بچھائے ہوئے اس جال میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔

کامیابی اس میں نہیں کہ امریکہ ہم پر کتنا مہربان ہے بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ ہم امریکہ کے سایے سے کس حد تک دور ہیں۔ ہم نے امریکہ کے راستے میں اپنے دیدہ و دل بچھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن حد یہ ہے کہ کوئی امریکی صدر ہماری سرزمین ہر اپنا قدم رنجہ فرمانا اپنی شان اقدس کے خلاف سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم اپنے اس ”صنم“ کو راضی کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ رہے۔
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہء رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اس کے مقابلے میں جب ہم صدر پوٹن کے حالیہ دورہء ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر غور کرنا چاہیئے۔ ہمارے بعض تجزیہ نگار اس بات پر خوش ہیں کہ ”مودی نے امریکہ و یورپ کو جس طرح جھنڈی دکھا کر پوٹن کا استقبال کیا ہے، اس سے اس نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔“ حالانکہ مودی نے اپنے پاؤں زخمی کرکے بھی جس روش کو اختیار کیا ہے اسے سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امریکہ کی مخالف سمت میں اس کے اس سفر سے اسرائیل سے اس کی دوری پیدا ہو گی لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھنے سے چین سے اس کے اختلافات کم ہوں گے۔

پاکستان کے پاس اتنی مہارت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس نئی عالمی بساط پر اپنے بہتر کارڈ کھیل سکتا ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ آج کی صورت حال کے مطابق امریکہ سے کم از کم اتنی دوری اختیار کرے جو روس، چین اور ایران کے بننے والے علاقائی محور میں اپنی کوئی خاص پہچان بنائے۔ (ناممکن نہیں کہ مستقبل قریب میں ہندوستان اور افغانستان بھی اس محور کا حصہ بن جائیں۔ جس میں شمولیت کے لیے سب سے بڑی شرط امریکہ سے دوری ہو)۔

مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔  یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔

روس نے پہلے ہی اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطے کے مسائل کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں بلا مبالغہ تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہی نظر آئے گا۔ ہم جو اب تک امریکہ کے پیدا کیے ہوئے مسائلِ کہن کے بھنور سے نہیں نکل پائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آنے والے وقتوں میں اس سے کہیں بڑے گرداب میں پھنس کر رہ جائیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

متعلقہ مضامین

  • عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، سلمان اکرم راجہ
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان
  • بڑھتا ہوا ظلم اور خاموش تماشائی عالمی طاقتیں
  • ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ کرپشن
  • پی ٹی آئی نے موقع گنوا دیا، اب بات چیت کی گنجائش نہیں، عطا تارڑ
  • ریاست نے جواب دے دیا، اب کوئی بھی چیز انچ برابر بھی برداشت نہیں کی جائے گی: فیصل واوڈا
  • ابراہیم کی موت
  • ایک کہانی جس کا انجام توقع کے برعکس نکلا