صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔ یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
”نائن ایلیون“ کے بعد امریکہ کے سر پر انتقام کا بھوت سوار تھا۔ وہ جلدازجلد افغانستان کو ”تورا بورا“ بنانا چاہتا تھا۔ اپنی آتشِ انتقام کو سرد کرنے کے لیے اسے کسی کی ”لاجسٹک سپورٹ“ کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے ایک دھمکی آمیز فون نے اس کا کام آسان کر دیا۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے ابرو کے ایک اشارے پر اسے پلیٹ میں رکھ کر وہ کچھ دے دیا جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا اور جو اس کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔ اس حوالے سے افتخار عارف کا ایک معروف شعر(ان سے معذرت کے ساتھ) کچھ ترمیم کے ساتھ، اس شکل میں وارد ہوا:
امریکہ کی چوکھٹ پہ ہم آشفتہ سروں نے
سجدے کیے کچھ ایسےجو واجب بھی نہیں تھے
امریکہ کے سامنے اس درجہ تک جبہ سرائی کے جواز میں کہا گیا کہ اگر ہم اس کام میں پہل نہ کرتے تو ہمارا رقیب ہندوستان مفادات کی اس دوڈ میں ہم پر سبقت لے گیا ہوتا۔ گویا ہمیں کسی کی محبت اور کسی کی مخالفت میں یہ سب کچھ انجام دینا پڑا۔ (آج ہم اپنے دامن میں اپنی اس پالیسی کی وجہ سے جس قسم کے ”فوائد“ سمیٹے ہوئے ہیں، وہ ”پہلے آؤ، پہلے پاؤ“ کے اصول پر ہمارے اسی عمل کا نتیجہ ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جلد بازی میں ”دانے“ کو دیکھا لیکن ”دام“ کو نہ دیکھا۔ یوں ہم تب سے اب تک، امریکہ بہادر کے بچھائے ہوئے اس جال میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔
کامیابی اس میں نہیں کہ امریکہ ہم پر کتنا مہربان ہے بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ ہم امریکہ کے سایے سے کس حد تک دور ہیں۔ ہم نے امریکہ کے راستے میں اپنے دیدہ و دل بچھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن حد یہ ہے کہ کوئی امریکی صدر ہماری سرزمین ہر اپنا قدم رنجہ فرمانا اپنی شان اقدس کے خلاف سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم اپنے اس ”صنم“ کو راضی کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ رہے۔
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہء رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اس کے مقابلے میں جب ہم صدر پوٹن کے حالیہ دورہء ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر غور کرنا چاہیئے۔ ہمارے بعض تجزیہ نگار اس بات پر خوش ہیں کہ ”مودی نے امریکہ و یورپ کو جس طرح جھنڈی دکھا کر پوٹن کا استقبال کیا ہے، اس سے اس نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔“ حالانکہ مودی نے اپنے پاؤں زخمی کرکے بھی جس روش کو اختیار کیا ہے اسے سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امریکہ کی مخالف سمت میں اس کے اس سفر سے اسرائیل سے اس کی دوری پیدا ہو گی لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھنے سے چین سے اس کے اختلافات کم ہوں گے۔
پاکستان کے پاس اتنی مہارت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس نئی عالمی بساط پر اپنے بہتر کارڈ کھیل سکتا ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ آج کی صورت حال کے مطابق امریکہ سے کم از کم اتنی دوری اختیار کرے جو روس، چین اور ایران کے بننے والے علاقائی محور میں اپنی کوئی خاص پہچان بنائے۔ (ناممکن نہیں کہ مستقبل قریب میں ہندوستان اور افغانستان بھی اس محور کا حصہ بن جائیں۔ جس میں شمولیت کے لیے سب سے بڑی شرط امریکہ سے دوری ہو)۔
مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔ یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔
روس نے پہلے ہی اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطے کے مسائل کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں بلا مبالغہ تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہی نظر آئے گا۔ ہم جو اب تک امریکہ کے پیدا کیے ہوئے مسائلِ کہن کے بھنور سے نہیں نکل پائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آنے والے وقتوں میں اس سے کہیں بڑے گرداب میں پھنس کر رہ جائیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ کے کی کوشش کے لیے
پڑھیں:
خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا
اونچ نیچ
آفتا ب احمد خانزادہ
”
ژاں پال سارتر کا ایک فلسفیانہ ناول ہے، جو 1938 میں شائع ہوا(La Nausee اصل عنوان ) "Nausea” تھا۔ یہ
سارتر کے پہلے ناول کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ وجودیت کا ایک بنیادی متن ہے۔ کہانی بوویل نامی ایک افسانوی قصبے میں ترتیب
دی گئی ہے، جو اس سے ملتی جلتی ہے۔ فرانسیسی بندرگاہی شہر لی ہاورے۔ یہ بیانیہ ایک فرانسیسی مصنف انٹوئن روکینٹن کی پیروی کرتا
ہے جو ایک گہرے وجودی بحران کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اجنبیت اور مضحکہ خیزی کے جذبات سے دوچار ہوتا ہے، روکینٹن
خود وجود کی نوعیت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ وہ متلی کے اپنے احساسات کو بیان کرتا ہے، جو زندگی کی بے معنی اور من مانی نوعیت کے
بارے میں اس کے شعور کی علامت ہے۔ یہ احساس اپنے آس پاس کی دنیا کے ساتھ اس کے مقابلوں سے پیدا ہوتا ہے، جس سے
وہ حقیقت کے جوہر اور اس کے اندر اس کی جگہ پر سوال اٹھاتا ہے۔
سارتر نے Roquentinکے تجربات کو آزادی، ذمہ داری،اور بظاہر لاتعلق کائنات میں معنی کی تلاش جیسے موضوعات کو
تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ناول میں اس خیال کو شامل کیا گیا ہے کہ افراد کو اپنی اقدار اور زندگی کا مقصد خود بنانا چاہیے، کیونکہ روایتی ڈھانچے اور عقائد تسلی بخش جوابات فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔سو لہویں اور ستر ہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں پر الحاد اور بغا وت کے الزام لگا کر انہیں زندہ جلاد یا جاتا تھا اور کبھی انہیں جیل کے
تنگ و تاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے
بجھانے کی کو شش ناکام رہی ،برونو کوروم میں زندہ جلادیاگیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا۔ اگر علم و دانش کے یہ علم بردار کلیسا کی تلواروں سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا ۔یورپ کا احتسا ب عالموں کو زندہ
جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غور و فکر کو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غور کیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزائوں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا۔ اس عہد میں انسانی ذہن کو قید کر نے کی کو شش میں انسانی
جسم کو زندہ جلایاگیا جسم جل گیا لیکن ذہن زندہ رہا جرم وسزا کے اس دور کے بعد خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹا یاجاسکتا ۔
خیالات کو قید نہیں کیاجاسکتا خیال آزاد ہے فوج کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے
نہیں رو کا جاسکتا۔ وحشت اور بربریت سے تہذیب و تمد ن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہواانسان کو یہ سفر طے کر نے
میں صدیا ں لگیں قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کر دی کہ انسان عظیم ہے
اور عوام سپر یم ہیں دنیاکی تاریخ میں خدا کے بعد کر شمے عوام نے ہی کرکے دکھائے ہیں یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے آمروں ، بادشاہوں کے تاج و تخت اچھا ل کر پھینک دئیے جنہوں نے اپنے خالی ہاتھوں سے بڑے بڑے ٹینک الٹ کر رکھ دئیے بڑے بڑے ظالم ، جابر بادشاہ اور آمران ہی عوام کے ڈر و خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔
دنیا بھر کے عوام نے خو شحالی اور ترقی کی منزلیں ، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں پاکستان کا قیام ایک عوامی جدو جہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکر ی جدو جہدکااوریہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعد ہ ان کے آبائو اجداد سے کیا گیا تھا ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہر شہر ی بلاکسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے جہاں آزادانہ اور منصفا نہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو با اختیار ہوتی ہے پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے پارلیمنٹ کی منظورکر دہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے، قائداعظم نے نئی دہلی میں رائٹر کے نمائندے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہو گی ”۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین سازاسمبلی کے صدر کی حیثیت سے کئے گئے اپنے تاریخی خطاب میں انہوں نے انسانوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخا طب کیا۔ روسو کہتا ہے ”میں کیسا آدمی ہوں ، اس کا فیصلہ کو ئی شخص یا چند اشخاص نہیں کرسکتے ۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنے کا حق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں ”۔ تو جناب ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پر کیسے چھوڑ ے جاسکتے ہیں ۔شخص یا چند اشخاص غلط ہو سکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کر تے ۔ ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند کوئی بھی نہیں ہوسکتا ۔ ریاست ایک منفر د کلیت ہوتی ہے آپ اس میں جانبدار ی تلاش نہیں کرسکتے ، کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتاہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمائند گی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے ۔
آئین میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورت حال کی نمود ہے۔ ہیگل کہتا ہے ”ہرآئین اپنے دور کا غماز ہوتاہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔ وہ کہتا ہے
” اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین ، اس کی انتظامیہ شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصو صیات اس کے پہا ڑ ، آ ب و ہوا ، ملک ، شہریوں کی جائیداد ، تاریخ ، ریاست ، اسلاف کے کار نا مے ، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہر ی اس کا نما ئند ہ ہے اوراس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے ” ۔ آخری اورقطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا ” نہ ” کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیار کا سنگ بنیاد ہے۔ سارتر کہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ”نہ ” کہے ۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنا ن ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا رو ک ٹوک انتخاب کر سکتا ہے۔ جے جی فریزر کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتاہے ” کسی قوم یا فرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کر دے یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کر دار مستحکم ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کر دیتا ہے تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اور صداقت کی بر کات میسر آسکیں ۔ یہ ہی انسان کی عظمت ہے ۔ سقرا ط، برو نو ، وکلف، شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائدے کے حصو ل کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد و اصول کی پاسبانی کرتے ہوئے مو ت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا ”ہم محا فظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کو شش کررہے ہیں ”۔ سقراط نے بھا گنے سے انکار کر دیا اور کہا ”میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیاد ہ عزیز رکھ سکتاہے ۔ سقراط ، برونو،و کلف نے ” نہ ” کہا اور اپنی جان دے دی ۔اور صرف ”نہ” کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زند ہ ہیں ۔ لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے ۔ عوام طاقت کا اصل سر چشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کر نے کا محو ر شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں پاکستان کے عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کو ششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ عقل اور شعور کے مالک ہیں۔ مثالی معا شر ہ قائم کرنے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پریقین ہے کیونکہ ان پر حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ صرف مثالی معا شرہ قائم کرنے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے ۔
٭٭٭