اگر ہم متاثر کُن نہ ہوتے تو ہمیں اتنا نشانہ نہ بنایا جاتا، سربراہ حزب الله لبنان
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
اپنے ایک خطاب میں شیخ نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ لبنان کے خارجہ تعلقات، دفاعی اسٹریٹجی اور صلاحیتوں کی مضبوطی سے امریکہ و اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم" نے کہا کہ اگر ہم متاثر کن نہ ہوتے تو ہمیں چاروں طرف سے نشانہ نہ بنایا جاتا۔ تاہم جلد ہی یہ تمام حملے ناکام ہوں گے اور ہمارا عزم مزید پختہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بعض جماعتیں، مقاومت کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ ہم حب الوطنی، عزت و آزادی پر مبنی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں حالانکہ استعمار ایسا نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ حزب الله نے ثابت کیا کہ وہ ملی سطح پر قطب کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو دوسروں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاکہ سب لوگ وسیع مقاومت کا حصہ بن سکیں۔ انہوں نے پاپ لئیو کے دورہ لبنان پر حزب الله کے ردعمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر نے اصل موضوع پر توجہ دینے کی بجائے حزب الله کے موقف پر تنقید شروع کر دی۔ حزب الله کا تجربہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ گروہ نہ تو تنہائی کا شکار ہوا اور نہ ہی اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرتا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ تعاون کیا اور اپنا ماضی کا تجربہ پیش کیا۔ لبنان کے اندر سیاسی اختلافات فطری ہیں، لیکن یہ سیاسی اختلافات آئین اور قانون کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ ہم سب کے ساتھ ملک کی بحالی اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے تعاون کریں گے۔ ہمارا عمل اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس امر کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں نہ تو کسی گواہی کی ضرورت ہے اور نہ ہی وضاحت دینے کی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اب بھی اسرائیلی خواہشات کی تکمیل کے لئے بولتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صیہونی جرائم کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وہ اسرائیلی مطالبات کی بات کرتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ میرے بھائی کیا تم اسرائیل کے وکیل ہو؟۔ کہ جو اسرائیل کی وکالت کرتے ہو، یا اس سے پیسے لیتے ہو۔ انہوں اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ اسرائیلی جارحیت کا مقصد حزب الله کو غیر مسلح کرنا نہیں، بلکہ بتدریج اپنے قبضے کو وسیع کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکہ اور اسرائیل کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ ہتھیاروں کا موضوع، خارجہ تعلقات، دفاعی اسٹریٹجی اور صلاحیتوں کی مضبوطی سے امریکہ و اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ موضوع بھی روشن ہے کہ امریکہ و صیہونی رژیم صرف ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنا اور اپنی سرزمین کا دفاع جاری رکھیں گے، نہ ہتھیار ڈالیں اور نہ ہی پیچھے ہٹیں گے۔ ہم اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کے لئے
پڑھیں:
لبنان اور اسرائیل کے مابین پہلی بار سویلین سطح پر بات چیت؛ خطے میں نئی سفارتی ہلچل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لبنان اور اسرائیل کے درمیان سویلین سطح پر کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد پہلی بار آمنے سامنے بیٹھ کر براہِ راست بات چیت ہوئی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اس ملاقات کو تاریخی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں پر جاری مظالم اور اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں یہ پیش رفت مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق یہ ملاقات اقوامِ متحدہ کی امن فورس کے مرکزی دفتر ناقورہ میں ہوئی، جہاں 2024 میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ صرف فوجی افسران تک محدود تھا، تاہم اس بار پہلی مرتبہ سویلین نمائندوں کو شامل کرنا اس بات کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ فریقین اندرونی سطح پر کسی نئے سفارتی راستے پر غور کر رہے ہیں، جس سے مستقبل میں کشیدگی کم کرنے یا کسی نئے فریم ورک تک پہنچنے کی کوششیں جنم لے سکتی ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی ترجمان شوش بدرسیان کے مطابق اس ملاقات کو ’’لبنان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور معاشی تعاون کی راہ ہموار کرنے کی ابتدائی کوشش‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دے رہا ہے، تاہم خطے کے حالات، خاص طور پر غزہ اور فلسطین پر جاری اسرائیلی حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اس تمام بیانیے پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک اسرائیل ایسے رابطوں کو اپنے بین الاقوامی تاثر کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اس کی پالیسیوں میں کوئی نرمی نظر نہیں آتی۔
امریکی سفارتخانے نے بھی اس ملاقات میں اپنی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ واشنگٹن طویل عرصے سے لبنان پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ حالیہ پیش رفت میں امریکا کے کردار پر بھی سوالات موجود ہیں کیونکہ خطے میں اس کے اسٹریٹجک مفادات اکثر حقیقت پسندانہ امن کے برعکس ہوتے ہیں۔
اُدھر لبنان کے صدر جوزف عون کے دفتر کے مطابق لبنان کی جانب سے سابق سفیر سیمون کرم نے مذاکرات میں نمائندگی کی جب کہ اسرائیل نے بھی اپنی جانب سے ایک غیر فوجی رکن کو شامل کیا۔ لبنان نے مستقبل کے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔