Islam Times:
2025-12-05@16:44:08 GMT

چونکا دینے والا انکشافات

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

چونکا دینے والا انکشافات

اسلام ٹائمز: گذشتہ چند دہائیوں کے برعکس، جب مزاحمتی مجاہدین کی آزادی کی پکار کو خوفناک صہیونی جیلوں میں دبا دیا گیا، آج ہم دنیا بھر خاص طور پر مغربی دنیا میں تل ابیب کے جبر کے خلاف ایک بین الاقوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی وجہ نوجوان نسل میں فکری بیداری کی لہر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مارچ کیے، بائیکاٹ کی اپیل کی اور صہیونی سفارت خانوں کے سامنے ریلیاں نکالیں۔ ان کارکنوں کا بنیادی مطالبہ من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا خاتمہ اور زیر حراست افراد کو انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ اس رجحان کے مطابق، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطینی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں منظم تشدد، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور دوران حراست شہادتوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صیہونی حکام کے خلاف آزادانہ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریر: علی احمدی

گذشتہ دو برس کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے حراستی مراکز کی بند دیواروں کے پیچھے ایک روایت تشکیل پا چکی ہے جسے اقوام متحدہ نے "منظم تشدد کی باقاعدہ پالیسی" کا نام دیا ہے۔ ایک ایسا نام جس نے نہ صرف رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ایک بار پھر صہیونی جرائم کے مختلف پہلووں کو انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکہ داروں کے سامنے سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹارچر کی روک تھام کمیٹی کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینیوں پر جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ محض اتفاقی خلاف ورزیاں نہیں ہیں بلکہ شدید مار پیٹ اور کتوں سے حملے لے کر بجلی کے جھٹکوں، مصنوعی ڈبونے اور جنسی تشدد تک بار بار کی جانے والی اذیتوں کا ایک سلسلہ ہے جسے کمیٹی کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے حقوق سے انکار کے ایک گہرے اور پریشان کن نمونے کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
 
چونکا دینے والے واقعات
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، دس آزاد ماہرین کی ایک کمیٹی نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس "جنگجووں کے قانون" کے وسیع استعمال کے بارے میں خبردار کیا ہے جس کے تحت ہزاروں فلسطینیوں کو طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ستمبر کے آخر تک 3 ہزار 474 فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام یا فرد جرم کے اور محض سیکورٹی مفروضوں کی بنیاد پر پولیس کی حراست میں رکھا گیا تھا۔ یہ مبہم قانونی ڈھانچہ معمول کا ایسا حصہ بن چکا ہے جس نے عملی طور پر نامحدود حد تک حراستوں کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی دو سالہ رپورٹ میں بڑی تعداد میں ایسے بچوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جنہیں صیہونی سیکورٹی فورسز نے بغیر کسی الزام کے گرفتار کر رکھا ہے۔
 
اس رپورٹ میں یہ حقیقت بھی فاش کی گئی ہے کہ جن بچوں کو حراست میں رکھا گیا ہے انہیں نہ صرف اہلخانہ سے رابطے پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ انہیں قید تنہائی میں بھی رکھا جاتا ہے اور بین الاقوامی معیار کے تحت تعلیم کے حق سے بھی محروم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل بچوں کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے اپنے ملکی قوانین میں ترمیم کرے۔ تشدد کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کی یہ کمیٹی، جو تشدد کی روک تھام کے لیے 1984ء کے کنونشن پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرتی ہے، نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں غاصب صیہونی رژیم کی روزمرہ کی سرگرمیاں اجتماعی طور پر تشدد کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ محض قانونی وارننگ ہی نہیں بلکہ اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ اب دنیا غاصب صیہونی رژیم کے غیر انسانی رویوں کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔
 
قید میں شہادت
غزہ جنگ بندی پر عملدرآمد کے دوسرے مرحلے میں تعطل پیدا ہو جانے کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے ایک اور چونکا دینے والی حقیقت کا انکشاف کیا ہے: 75 فلسطینی شہریوں کی صیہونی جیلوں میں دوران حراست شہادت۔ یہ تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جبکہ اب تک کسی اسرائیلی عہدیدار کو ان اموات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان شہادتوں کے بارے میں خاموشی اور بے عملی نے اسرائیلی جیلوں میں نگرانی کے عمل، جیل حکام کی جوابدہی اور شفافیت پر بھاری سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی کابینہ نے تشدد کے استعمال کی مسلسل تردید کی ہے اور وزارت خارجہ، وزارت انصاف اور جیل انتظامیہ کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے اجلاسوں میں دعوی کیا ہے کہ جیلوں کے حالات مناسب ہیں اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے، لیکن یہ دعوے خاندانوں، قیدیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے پیش کردہ شواہد کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
 
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ تفتیش کے عمل کے بارے میں شکایات سننے کے ذمہ دار محتسب نے بڑی تعداد میں شکایات موصول ہونے کے باوجود گذشتہ دو برس کے دوران کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی۔ سرکاری دعووں اور زمینی حقائق کے درمیان یہ واضح تضاد اسرائیل کے احتسابی نظام میں گہرے خلاء کو اجاگر کرتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اسی عرصے کے دوران تشدد یا ناروا سلوک کے لیے اسرائیلی فورسز کے خلاف صرف ایک سزا درج کی ہے۔ ایک فوجی کو گزشتہ فروری میں غزہ کے قیدیوں کو اپنے مکوں، لاٹھیوں اور رائفل کے بٹوں سے بار بار مارنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، کمیٹی اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس کی سات ماہ قید کی سزا جرم کی شدت کی عکاسی نہیں کرتی اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسے معاملات میں بھی جہاں خلاف ورزیاں ثابت ہوں، سزائیں کافی حد تک مناسب نہیں ہیں۔
 
عالمی بیداری 
گذشتہ چند دہائیوں کے برعکس، جب مزاحمتی مجاہدین کی آزادی کی پکار کو خوفناک صہیونی جیلوں میں دبا دیا گیا، آج ہم دنیا بھر خاص طور پر مغربی دنیا میں تل ابیب کے جبر کے خلاف ایک بین الاقوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی وجہ نوجوان نسل میں فکری بیداری کی لہر ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مارچ کیے، بائیکاٹ کی اپیل کی اور صہیونی سفارت خانوں کے سامنے ریلیاں نکالیں۔ ان کارکنوں کا بنیادی مطالبہ من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا خاتمہ اور زیر حراست افراد کو انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ اس رجحان کے مطابق، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلسطینی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنے بیانات میں منظم تشدد، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور دوران حراست شہادتوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صیہونی حکام کے خلاف آزادانہ تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سول سوسائٹی کی تنظیموں نے غاصب صیہونی رژیم انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جیلوں میں کے مطابق کے خلاف کیا ہے ہے اور دیا ہے کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

اسرائیل کا ڈرائونا خواب کیا ہے؟

اسلام ٹائمز: اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آبادکاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب سو فیصد حقیقی اور نظریاتی بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہوسکتی ہے۔ یہی وہ ڈرائونا خواب ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

غاصب صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل جو 1948ء میں فلسطین پر قائم کی گئی تھی، ہمیشہ سے ایک ڈرائونے خواب کا سامنا کر رہی ہے۔ اس خواب کی مختلف وجوہات ہیں، جن کو متعدد صیہونی تجزیہ نگاروں اور محققین نے بھی بیان کیا ہے۔ ان تمام وجوہات کی طرف جانے سے قبل یہ بات بھی اہم ہے کہ کیونکہ اسرائیل ایک ایسے ناجائز طریقہ سے قائم کیا گیا کہ جس میں دوسروں کے وطن پر قبضہ کیا گیا اور اپنے وطن کا اعلان کرکے مقامی لوگوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کیا گیا، تاہم یہ ایک ایسا بنیادی خطرہ بن گیا کہ جو ہمیشہ اسرائیل کو یاد دلواتا ہے کہ تمھاری بنیاد ہی غلط ہے اور غلط بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت کبھی نہ کبھی تو گرتی ہی ہے۔ لہذا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا سب سے بھیانک اور ڈرائونا خواب یہی ہے کہ کبھی نہ کبھی اسرائیل کو ختم ہونا ہوگا۔

یہی ڈرائونا خواب حالیہ دنوں میں زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے، کیونکہ سات اکتوبر کے بعد اس وقت ہر صیہونی آبادکار اور خاص طور پر غاصب صیہونی حکومت کا وزیراعظم نیتن یاہو بھی اس کرب میں مبتلا ہے اور اسرائیل کبھی بھی بے چینی سے نجات نہیں پاسکے گا۔ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں کو ہمیشہ ایک مستقل اور وجودی نوعیت کی گھبراہٹ لاحق رہتی ہے، یعنی یہ کہ کیا وہ (اسرائیل) یا اس کے عہدیدار باقی رہیں گے۔؟ یا پھر یہ کہ اسرائیل ختم ہو جائے گا۔؟ کیا سو سال بعد، بیس سال بعد، یا حتیٰ کہ پانچ سال بعد بھی وہ موجود ہوگا یا نہیں۔؟ یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے، جو اندر ہی اندر نیتن یاہو کو بھی کھائے جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ترقی یافتہ ہے۔ کس چیز میں ترقی یافتہ ہے۔؟ اس کے تمام ہتھیار امریکی اور مغربی ممالک سے آئے ہیں۔ حقیقت میں اسرائیل تو صرف ایک بہت بڑی چھاؤنی نما مرکز یا خطّے میں مغرب کا تیار شدہ فوجی اڈہ ہے۔ اسی وجہ سے وہاں حقیقی ترقی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ حقیقی ترقی تو یہ ہے کہ شہری کو یہ احساس ہو کہ وہ ایسے علاقے میں زندگی گزار رہا ہے، جہاں اسے قبول کیا گیا ہے اور اسے خوش آمدید کہا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو ہر صیہونی آبادکار رات کو اس خوف سے سوتا نہیں ہے کہ کب اسرائیل ختم ہو جائے۔ یعنی صیہونی آباد کار ایک ڈرائونے خواب کے ساتھ سوتے ہیں اور ان کی زندگیاں بے چین ہوچکی ہیں۔

غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود 1948ء میں عمل میں آیا، مگر ابتدا سے ہی یہ غاصب ریاست ایک ایسے ماحول میں وجود میں آئی، جسے خود اسرائیلی ماہرین مسلسل عدمِ تحفظ کی فضا کہتے ہیں۔ یہ احساس صرف بیرونی خطرات تک محدود نہیں بلکہ داخلی سیاست، demography، مذہبی اختلافات، عالمی سفارتی تنہائی، اور تاریخی محرکات بھی شامل ہیں۔ نتیجتاً اسرائیل کے اندر یہ خدشہ وقتاً فوقتاً ابھرتا جا رہا ہے کہ صیہونیوں کے لئے بنائی گئی یہ غاصب ریاست کسی بھی وقت شدید بحران یا انہدام کی طرف جا سکتی ہے۔ صیہونیوں کے لئے یہ ڈرائونا خواب متعدد وجوہات کی بنا پر ہے، جن میں سے اکثر و بیشتر صیہونی رہنمائوں نے خود تشکیل دی ہیں۔

مثال کے طور پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ابتدائی لیڈروں نے ریاستی بقا کے لیے مسلسل خطرے کا بیانیہ تشکیل دیا، جسے فوج، میڈیا اور تعلیمی نظام نے تقویت دی۔ اب یہی خود کا بیانیہ حقیقت کی صورت دھار چکا ہے۔ غاصب صیہونیوں سمیت عہدیداروں اور صیہونی رہنمائوں کے ڈرائونے خواب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل ایک انتہائی محدود رقبے پر قائم ہے، جہاں وسیع آبادی اور کم strategic depth کے باعث کسی بڑی جنگ میں پورا ملک محاذ بن جاتا ہے۔ اسی لیے اسرائیلی ماہرین اسے پتلے گلے والی بوتل قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ جنگ میں بھی دیکھی گئی ہے۔

اسی طرح غاصب صیہونی حکومت چونکہ ایک قابض اور ناجائز ریاست ہے، تاہم اس کے پڑوس کے ممالک بھی اس کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ امن کے معاہدے کیے گئے ہیں، لیکن فلسطینی تنازعہ حل نہ ہونا، لبنان اور شام کے محاذ اور ایران کے ساتھ کشیدگی سمیت عرب عوام کی شدید مخالفت جیسے عوامل اسرائیل میں یہ خوف بڑھاتے ہیں کہ اگر حالات بگڑ گئے تو بقا مشکل ہوسکتی ہے۔ لہذا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ تقویت اختیار کر رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو پیش آنے والے طوفان اقصیٰ کے واقعے نے اسرائیلی سوچ کو بنیادی طور پر ہلا دیا ہے۔ طوفان اقصیٰ نے اسرائیل کے سکیورٹی بھرم کو خاک میں ملا دیا۔

اسرائیل کو یقین تھا کہ دفاعی نظام، خفیہ ایجنسیاں اور سپر پاور اتحاد اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں، لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ اسرائیل مکڑ کے جالے سے زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔ لہذا 7 اکتوبر نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور مکمل طور پر توڑکر رکھ دیا۔ عالمی سطح پر تنہائی نے بھی اسرائیل کو ایک ڈرائونے خواب میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب اسرائیل کو کبھی نہ کبھی ختم ہونا پڑ سکتا ہے۔ یورپ میں بڑے پیمانے پر احتجاج، امریکہ کی نئی نوجوان نسل کی اسرائیل مخالف رائے، اقوامِ متحدہ میں تنقید، عالمی عدالتوں کے مقدمات، یہ سب اسرائیل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔ معاشی خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مسلسل جنگوں، ہجرت، سرمایہ کاری کی کمی اور معاشرتی دباؤ نے اسرائیلی معیشت کو کمزور کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں صیہونی آبادکاروں کا قبرص اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کر جانا، اس ڈرائونے خواب کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ صیہونی غاصب ریاست کو ایک نہ ایک دن نابود ہونا ہے۔ دنیا یک قطبی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔اسرائیل کے لئے یہ ایک اور ڈرائونا خواب ہے۔ امریکہ کی کمزور ہوتی طاقت اور چین، روس، ایران، سمیت دیگر ممالک کے نئے کردار اسرائیل کے لیے نئے چیلنجز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت جو غزہ، لبنان، شام، عراق اور یمن میں موجود ہے، اس مزاحمت کے اتحاد نے بھی اسرائیل کے لیے وجودی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آبادکاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب سو فیصد حقیقی اور نظریاتی بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہوسکتی ہے۔ یہی وہ ڈرائونا خواب ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ویشنو دیوی یونیورسٹی میں مسلم طلباء کو داخلہ دینے کے خلاف جموں میں ہندوؤں کا احتجاج
  • چونکا دینے والے انکشافات
  • وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کو عمل شروع ہو گیا
  • 5 سالہ قید کے دوران کیا کچھ برداشت کیا؟ سنجے دت کے چونکا دینے والے انکشافات
  • کراچی: مدرسے میں کمسن طالب علم پر تشدد کرنے والا استاد گرفتار
  • پشاور ہائیکورٹ: پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو آزاد قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست خارج
  • اسرائیل کا ڈرائونا خواب کیا ہے؟
  • 27ویں ترمیم: حق میں ووٹ دینے پر سیف اللہ ابڑو کو شوکاز جاری
  • ٹیکساس: بم بنانے اور خودکش حملے کی دھمکی دینے والا افغان نژاد شخص