اسرائیل کا ڈرائونا خواب کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آبادکاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب سو فیصد حقیقی اور نظریاتی بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہوسکتی ہے۔ یہی وہ ڈرائونا خواب ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غاصب صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل جو 1948ء میں فلسطین پر قائم کی گئی تھی، ہمیشہ سے ایک ڈرائونے خواب کا سامنا کر رہی ہے۔ اس خواب کی مختلف وجوہات ہیں، جن کو متعدد صیہونی تجزیہ نگاروں اور محققین نے بھی بیان کیا ہے۔ ان تمام وجوہات کی طرف جانے سے قبل یہ بات بھی اہم ہے کہ کیونکہ اسرائیل ایک ایسے ناجائز طریقہ سے قائم کیا گیا کہ جس میں دوسروں کے وطن پر قبضہ کیا گیا اور اپنے وطن کا اعلان کرکے مقامی لوگوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کیا گیا، تاہم یہ ایک ایسا بنیادی خطرہ بن گیا کہ جو ہمیشہ اسرائیل کو یاد دلواتا ہے کہ تمھاری بنیاد ہی غلط ہے اور غلط بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت کبھی نہ کبھی تو گرتی ہی ہے۔ لہذا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا سب سے بھیانک اور ڈرائونا خواب یہی ہے کہ کبھی نہ کبھی اسرائیل کو ختم ہونا ہوگا۔
یہی ڈرائونا خواب حالیہ دنوں میں زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے، کیونکہ سات اکتوبر کے بعد اس وقت ہر صیہونی آبادکار اور خاص طور پر غاصب صیہونی حکومت کا وزیراعظم نیتن یاہو بھی اس کرب میں مبتلا ہے اور اسرائیل کبھی بھی بے چینی سے نجات نہیں پاسکے گا۔ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں کو ہمیشہ ایک مستقل اور وجودی نوعیت کی گھبراہٹ لاحق رہتی ہے، یعنی یہ کہ کیا وہ (اسرائیل) یا اس کے عہدیدار باقی رہیں گے۔؟ یا پھر یہ کہ اسرائیل ختم ہو جائے گا۔؟ کیا سو سال بعد، بیس سال بعد، یا حتیٰ کہ پانچ سال بعد بھی وہ موجود ہوگا یا نہیں۔؟ یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے، جو اندر ہی اندر نیتن یاہو کو بھی کھائے جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ترقی یافتہ ہے۔ کس چیز میں ترقی یافتہ ہے۔؟ اس کے تمام ہتھیار امریکی اور مغربی ممالک سے آئے ہیں۔ حقیقت میں اسرائیل تو صرف ایک بہت بڑی چھاؤنی نما مرکز یا خطّے میں مغرب کا تیار شدہ فوجی اڈہ ہے۔ اسی وجہ سے وہاں حقیقی ترقی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ حقیقی ترقی تو یہ ہے کہ شہری کو یہ احساس ہو کہ وہ ایسے علاقے میں زندگی گزار رہا ہے، جہاں اسے قبول کیا گیا ہے اور اسے خوش آمدید کہا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو ہر صیہونی آبادکار رات کو اس خوف سے سوتا نہیں ہے کہ کب اسرائیل ختم ہو جائے۔ یعنی صیہونی آباد کار ایک ڈرائونے خواب کے ساتھ سوتے ہیں اور ان کی زندگیاں بے چین ہوچکی ہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود 1948ء میں عمل میں آیا، مگر ابتدا سے ہی یہ غاصب ریاست ایک ایسے ماحول میں وجود میں آئی، جسے خود اسرائیلی ماہرین مسلسل عدمِ تحفظ کی فضا کہتے ہیں۔ یہ احساس صرف بیرونی خطرات تک محدود نہیں بلکہ داخلی سیاست، demography، مذہبی اختلافات، عالمی سفارتی تنہائی، اور تاریخی محرکات بھی شامل ہیں۔ نتیجتاً اسرائیل کے اندر یہ خدشہ وقتاً فوقتاً ابھرتا جا رہا ہے کہ صیہونیوں کے لئے بنائی گئی یہ غاصب ریاست کسی بھی وقت شدید بحران یا انہدام کی طرف جا سکتی ہے۔ صیہونیوں کے لئے یہ ڈرائونا خواب متعدد وجوہات کی بنا پر ہے، جن میں سے اکثر و بیشتر صیہونی رہنمائوں نے خود تشکیل دی ہیں۔
مثال کے طور پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ابتدائی لیڈروں نے ریاستی بقا کے لیے مسلسل خطرے کا بیانیہ تشکیل دیا، جسے فوج، میڈیا اور تعلیمی نظام نے تقویت دی۔ اب یہی خود کا بیانیہ حقیقت کی صورت دھار چکا ہے۔ غاصب صیہونیوں سمیت عہدیداروں اور صیہونی رہنمائوں کے ڈرائونے خواب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل ایک انتہائی محدود رقبے پر قائم ہے، جہاں وسیع آبادی اور کم strategic depth کے باعث کسی بڑی جنگ میں پورا ملک محاذ بن جاتا ہے۔ اسی لیے اسرائیلی ماہرین اسے پتلے گلے والی بوتل قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ جنگ میں بھی دیکھی گئی ہے۔
اسی طرح غاصب صیہونی حکومت چونکہ ایک قابض اور ناجائز ریاست ہے، تاہم اس کے پڑوس کے ممالک بھی اس کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ امن کے معاہدے کیے گئے ہیں، لیکن فلسطینی تنازعہ حل نہ ہونا، لبنان اور شام کے محاذ اور ایران کے ساتھ کشیدگی سمیت عرب عوام کی شدید مخالفت جیسے عوامل اسرائیل میں یہ خوف بڑھاتے ہیں کہ اگر حالات بگڑ گئے تو بقا مشکل ہوسکتی ہے۔ لہذا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ تقویت اختیار کر رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو پیش آنے والے طوفان اقصیٰ کے واقعے نے اسرائیلی سوچ کو بنیادی طور پر ہلا دیا ہے۔ طوفان اقصیٰ نے اسرائیل کے سکیورٹی بھرم کو خاک میں ملا دیا۔
اسرائیل کو یقین تھا کہ دفاعی نظام، خفیہ ایجنسیاں اور سپر پاور اتحاد اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں، لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ اسرائیل مکڑ کے جالے سے زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔ لہذا 7 اکتوبر نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور مکمل طور پر توڑکر رکھ دیا۔ عالمی سطح پر تنہائی نے بھی اسرائیل کو ایک ڈرائونے خواب میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب اسرائیل کو کبھی نہ کبھی ختم ہونا پڑ سکتا ہے۔ یورپ میں بڑے پیمانے پر احتجاج، امریکہ کی نئی نوجوان نسل کی اسرائیل مخالف رائے، اقوامِ متحدہ میں تنقید، عالمی عدالتوں کے مقدمات، یہ سب اسرائیل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔ معاشی خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مسلسل جنگوں، ہجرت، سرمایہ کاری کی کمی اور معاشرتی دباؤ نے اسرائیلی معیشت کو کمزور کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں صیہونی آبادکاروں کا قبرص اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کر جانا، اس ڈرائونے خواب کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ صیہونی غاصب ریاست کو ایک نہ ایک دن نابود ہونا ہے۔ دنیا یک قطبی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔اسرائیل کے لئے یہ ایک اور ڈرائونا خواب ہے۔ امریکہ کی کمزور ہوتی طاقت اور چین، روس، ایران، سمیت دیگر ممالک کے نئے کردار اسرائیل کے لیے نئے چیلنجز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت جو غزہ، لبنان، شام، عراق اور یمن میں موجود ہے، اس مزاحمت کے اتحاد نے بھی اسرائیل کے لیے وجودی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آبادکاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب سو فیصد حقیقی اور نظریاتی بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہوسکتی ہے۔ یہی وہ ڈرائونا خواب ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی ریاست کا ڈرائونا خواب ریاست اسرائیل ہے کہ اسرائیل ڈرائونے خواب نے اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کے صیہونی ا خواب ہے کے ساتھ کیا گیا کہ اگر بھی اس رہا ہے کی طرف ہے اور کے لیے اور اس
پڑھیں:
مغربی کنارے میں سفاکیت کا منظر
اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی رژیم کی مغربی کنارے کے شمالی حصوں پر جارحیت کے دوران شدید بے رحمانہ مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دو فلسطینی شہری المنتصر بااللہ عبداللہ اور یوسف اساسہ ایک عمارت کے باہر کھڑے تھے۔ جب صیہونی فوجیوں ان کے قریب آئے تو انہوں نے ہینڈز اپ کے طور پر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے لیکن صیہونی فوجیوں نے انتہائی قریب سے انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر ڈالا۔ یہ افسوسناک واقعہ جمعرات کے روز پیش آیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا ہے اور پوری دنیا نے اسے دیکھا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ صیہونی فوج کے اعلی سطحی کمانڈرز نے تحقیق کا وعدہ دے کر سب کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے۔ تحریر: علی احمدی
جنین میں دنیا والوں نے جو منظر دیکھا وہ محض ایک افسوسناک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایسی کھڑکی ہے جو گذشتہ کئی عشروں سے فلسطینیوں کی زندگی میں زہر گھولنے والی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ دو نہتے مردوں نے ہاتھ اوپر اٹھا رکھے ہیں اور اپنی طرف سے کوئی خطرہ نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے قمیصیں بھی اتار رکھا ہیں لیکن غاصب صیہونی فوجی انہیں میڈیا کے کیمروں کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ صیہونی فوجیوں نے انہیں حکم دیا کہ وہ عمارت میں واپس چلے جائیں۔ وہ واپس جا رہے تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی اور اتنے قریب سے انہیں گولی ماری گئی کہ فائرنگ کرنے والوں کی نیت کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اس ویڈیو کلپ نے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے جبکہ خود صیہونی رژیم کے اندر مختلف قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی حلقوں نے اس سفاکانہ اقدام پر اپنے فوجیوں کو سراہا ہے اور ان کے اقدام کو قانونی قرار دے کر اسی سیاست کو دہرایا ہے جو گذشتہ طویل عرصے سے "قتل کے لیے فائر" کے عنوان سے فلسطینیوں کے خلاف اختیار کی جا چکی ہے۔ ردعمل میں اس حد تک یہ اختلاف نہ صرف اخلاقی فاصلوں کی گہرائی کو واضح کرتا ہے بلکہ کئی عشروں سے جاری غاصبانہ قبضے اور محاصرے کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس وقت سب کے ذہن میں یہ بنیادی سوال جنم لے چکا ہے کہ کیا ایسے ہی ایک اور سفاکانہ منظر کی تصویر کشی عالمی بے حسی کو ختم کر سکتی ہے یا دردناک مناظر کی فہرست میں محض ایک اور منظر کا اضافہ ہو جائے گا؟ جنین میں سامنے آنے والا یہ منظر سب دیکھنے والوں کے لیے ایک وارننگ ہے جو شدت پسندی معمول بن جانے اور اجتماعی ضمیر مر جانے کے خطرناک اثرات سے خبردار کر رہی ہے۔
خون کے پیاسے
غاصب صیہونی رژیم کی مغربی کنارے کے شمالی حصوں پر جارحیت کے دوران شدید بے رحمانہ مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دو فلسطینی شہری المنتصر بااللہ عبداللہ اور یوسف اساسہ ایک عمارت کے باہر کھڑے تھے۔ جب صیہونی فوجیوں ان کے قریب آئے تو انہوں نے ہینڈز اپ کے طور پر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے لیکن صیہونی فوجیوں نے انتہائی قریب سے انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر ڈالا۔ یہ افسوسناک واقعہ جمعرات کے روز پیش آیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا ہے اور پوری دنیا نے اسے دیکھا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ صیہونی فوج کے اعلی سطحی کمانڈرز نے تحقیق کا وعدہ دے کر سب کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے۔ دائیں بازو کے انتہاپسند وزیر سیکورٹی اتمار بن غفیر نے اس واقعے میں ملوث فوجیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وہی کیا ہے جو کرنا چاہیے تھا، دہشت گردوں کو مر جانا چاہیے۔
شدت پسندی کا ماڈل
جنوری 2024ء میں چھ سالہ ہند رجب کی شہادت غاصب صیہونی رژیم کی سفاکیت اور بے رحمی کی ایک اور مثال ہے۔ یہ بچی ایسی حالت میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی جب اس کے اردگرد تمام اہلخانہ کی خون بھری لاشیں پڑی تھیں جو صیہونی بمباری کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے۔ یہ بچی لرزتی ہوئی آواز میں فون پر مدد کی درخواست کر رہی تھی۔ ہند رجب اور اس کی مدد کے لیے آنے والے امدادی کارکنوں کی لاشیں بھی بعد میں سامنے آئیں۔ جنین میں حالیہ سفاکانہ واقعے سے ملتا جلتا غزہ میں ایک اور واقعہ مارچ 2024ء میں پیش آیا تھا۔ اتفاق سے وہ واقعہ بھی میڈیا کے کیمروں کی آنکھ میں محفوظ ہو گیا تھا۔ دو نہتے فلسطینی شہری صیہونی فوجیوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ غیر مسلح ہیں اور سرینڈر کر رہے ہیں لیکن سفاک صیہونی فوجیوں نے انہیں قریب سے فائرنگ کر کے شہید کر ڈالا۔
منظم نسل پرستی
جنین میں عبداللہ اور اساسہ کی شہادت مقبوضہ فلسطین کے اندر صیہونی فوج کے لیے مشکلات کا باعث نہیں بنے گی۔ غزہ کے خلاف بنجمن نیتن یاہو کی نسل پرستانہ جنگ کے دوران صیہونی فوج پر ٹارچر، زیادتی اور جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھنے کے بے تحاشہ الزامات موجود ہیں لیکن مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے ان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ کی عرب رکن عائدہ توما سلیمان نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا: "کوئی اس بات کو اہمیت نہیں دیتا اور اس کے بارے میں اظہار خیال کے لیے تیار نہیں ہے۔ دو ہفتے پہلے میں نے ٹارچر کو جرم قرار دینے کا بل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن کابینہ کے وزرا نے میرے ساتھ شدید بدتمیز کی اور کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف حکومت کے ہاتھ مت باندھو۔"
اسی طرح انسانی حقوق کی ایک تنظیم "بتسلیم" میں پبلک ریلیشنز کی منیجر شای پرنس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلیوں کی اکثریت ایسی ہے جو کئی ماہ بلکہ کئی سال تک فلسطینیوں کو قریب سے نہیں دیکھتے اور ان کے بارے میں ان کے ذہن میں صرف وہی تصویر پائی جاتی ہے جو سرکاری ذرائع ابلاغ دکھاتے ہیں جبکہ سرکاری ذرائع ابلاغ ان سے خوف اور کینہ پھیلاتے ہیں۔ یش دین ہیومن رائٹس گروپ کی رپورٹس میں بھی ایا ہے کہ 2018ء سے 2022ء کے درمیان مغربی کنارے میں غاصب صیہونی فوج کو فوجیوں کے ظالمانہ رویے کے خلاف 862 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ زمینوں پر قبضہ، مقامی افراد کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنا اور یہودی آبادکاروں کے حملوں پر مبنی واقعات بھی کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ 258 کیسز میں سے صرف 30 فیصد کی پیروی ہوئی ے اور صرف 13 کیسز میں 29 فوجیوں کے وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔