اسلام ٹائمز: علاقائی منظرنامے پر ایک اور اہم پیشرفت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایران اور پاکستان باہمی طور پر ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ سفارتی تحرکات، خصوصاً ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورۂ پاکستان، پاک ایران تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِحال میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایران اور چین کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ دفاعی اور سرحدی سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کو نئی جہت دے سکتا ہے۔ ایران، خصوصاً پاک ایران سرحد پر دہشتگرد عناصر کی سرکوبی کیلئے پاکستان کیساتھ مشترکہ اقدامات کا خواہاں ہے، جبکہ خطے میں اسلحہ کے توازن اور دفاعی تعاون کے معاملات میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی سمجھا جا رہا ہے۔ تحریر: سید انجم رضا

لبنان اور فلسطین میں گذشتہ ایک برس سے اسرائیل کی مسلسل فوجی جارحیت پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ نام نہاد امن منصوبوں، بالخصوص مخبوط الحواس امریکی صدر کے پیش کردہ فارمولوں کے باوجود، مظالم کا یہ سلسلہ نہ تھم سکا۔ گذشتہ ایک برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے ہزاروں فضائی اور زمینی خلاف ورزیاں کی گئیں، جن کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد لبنانی مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے برعکس حزب اللہ نے ایک ذمہ دار قوت کی حیثیت سے معاہدوں کی مکمل پاسداری کو ترجیح دی۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جب بھی اسرائیل کو میدانِ جنگ میں کسی سیاسی یا عسکری ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو امریکہ سفارتی محاذ پر اسے سہارا دینے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔

حالیہ جنگ بندی بھی اسی یک طرفہ رویئے کا تسلسل ہے، جس میں اسرائیل کو عملی طور پر کھلی چھوٹ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ وہ خود اس جنگ کو پھیلانے کے عزائم رکھتا ہے۔ صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ سوچ آج بھی بدستور قائم ہے اور لبنان میں کشیدگی بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا اس کی واضح حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔ غزہ میں روا رکھی گئی بربریت نے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ عرب عوام کے دلوں میں بھی اسرائیل کے خلاف شدید نفرت کو جنم دیا ہے۔ اسی پس منظر میں ابراہیم اکارڈ جیسے معاہدے عرب مسلم عوام کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں بن سکتے۔ اگرچہ سعودی عرب دو ریاستی حل کی بات کرتا ہے، تاہم موجودہ زمینی حقائق اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ خطے میں امن صرف نعروں سے نہیں، عملی انصاف سے قائم ہوگا۔

لبنان کے اندر حزب اللہ نے سیاسی میدان میں بھی اپنے قدم مضبوطی سے جما رکھے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے دوران اس کی جانب سے کوئی بھرپور جنگی کارروائی نہ کرنا، اس کے ضبط اور حکمتِ عملی کا ثبوت ہے، جس کے باعث لبنانی عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صبر، وقتی نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی بصیرت کی عکاسی کرتا ہے۔ علاقائی منظرنامے پر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایران اور پاکستان باہمی طور پر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ سفارتی تحرکات، خصوصاً ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورۂ پاکستان، پاک ایران تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایران اور چین کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ دفاعی اور سرحدی سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کو نئی جہت دے سکتا ہے۔

ایران، خصوصاً پاک ایران سرحد پر دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ اقدامات کا خواہاں ہے، جبکہ خطے میں اسلحہ کے توازن اور دفاعی تعاون کے معاملات میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی سمجھا جا رہا ہے۔ رہبرِ معظم کی جانب سے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں اور دعاؤں کا پیغام دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور اسٹرٹیجک اعتماد کی واضح علامت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت، امریکی سرپرستی، لبنانی استقامت اور ایران–پاکستان قربت ایک نئے علاقائی توازن کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران اور پاک ایران کا کردار میں بھی پر ایک کے لیے

پڑھیں:

بیس سالہ منصوبے کا انجام

اسلام ٹائمز: 12 روزہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا اسرائیل کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا تھا اور تل ابیب کو مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ بیانیہ جو خود اسرائیلیوں اور ان کے میڈیا کے ذرائع کے اعترافات پر مبنی ہے، شکست و ریخت کی اصل حد کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں اور افواہوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ کے نتیجے میں صیہونی حکومت تقریباً مفلوج ہوچکی تھی۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی

اسرائیل اور ایران کے درمیان لڑی جانے والی اپنی نوعیت کی بارہ روزہ جنگ، اگرچہ ایک محدود جنگ تھی لیکن اسرائیل ابھی تک اس جنگ میں پانے والی شکست کے زخم چاٹ رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے اپنے سرکاری اعداد و شمار اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کا ایران پر حملہ اس حکومت کی جعل سازی کی تاریخ کا بڑا شہکار تھا۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے مطابق "یہ جارحیت اسرائیل کے ایران کے خلاف 20 سالہ منصوبے کا نتیجہ تھی، جو مکمل طور پر ناکامی پر ختم ہوئی۔" مقبوضہ علاقوں میں میڈیا کی شدید سنسرشپ کی وجہ سے اس جنگ میں اسرائیلی نقصانات کے اصل اعدادوشمار کبھی بھی مکمل طور پر شائع نہیں ہوسکے ہیں، لیکن اسرائیلی حکام اور میڈیا کے اعترافات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو بہت زیادہ معاشی، فوجی اور سماجی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار بحران کی حقیقی جہتوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، البتہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب نے 12 دن کے بعد جنگ بندی پر رضامندی کیوں ظاہر کی۔

وقت گزرنے کے ساتھ صہیونی حکام اس جنگ میں اپنی ناکامی کا اعتراف خود کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم ترین بیان "میجر جنرل جیورا ایلینڈ" کی طرف سے آیا ہے، جو اسرائیلی سلامتی کونسل کے سابق چیئرمین ہیں۔ ایک سرکاری میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "اسرائیل کے بہترین مفادات جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کو قبول کرنے میں ہی تھے۔" یہ الفاظ براہ راست اسٹریٹجک اہداف کے حصول میں ناکامی کے اعتراف کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئلینڈ کے مطابق "جنگ جاری رکھنے کے اخراجات، بشمول معاشی نقصانات اور بین الاقوامی دباؤ، ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ تھے۔" اسرائیل کے سابق وزیراعظم "ایہود اولمرٹ" نے بھی 12 روزہ جنگ کے بارے میں کہا "ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ ان کے مطابق ایران کا اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" یہ کھلا اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کا 20 سالہ منصوبہ ناکام رہا ہے۔

حکومت کے سرکاری تجزیہ کاروں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم ایران کو شکست دینے میں ناکام رہے اور ہم مستقبل میں اس کی قیمت ادا کریں گے۔" چینل 12 کے رپورٹر نے اعلان کیا کہ "اسرائیل اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ایران کو شکست دینے سے قاصر رہا۔" "یدیعوت احرونوت" کے عسکری تجزیہ کار "یوسی یہوشوا" اور اسرائیل کے چینل 12 ٹیلی ویژن نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ایران نے ابھی تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار یا بھاری میزائل استعمال نہیں کیے ہیں جبکہ "معاریو اخبار" نے تسلیم کیا کہ ”ایران جنگ کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔“ اس جنگ میں مالی اور معاشی نقصانات کے حوالے بھی بعض اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اسرائیلی ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے مطابق ایران کے ساتھ جنگ ​​کے آغاز سے اب تک اسرائیل کے نقصانات کی تعداد 41,651 ہے۔ عمارتوں کو نقصان پہنچنے سے متعلق 32,975 رپورٹس ہیں۔ 4,119 کاریں تباہ ہوئیں، سامان اور جائیداد کے نقصانات کے متعلق 44,45 فائلیں جمع کرائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہزاروں تباہ شدہ عمارتیں غیر ریکارڈ شدہ ہیں۔

"Maariv" اخبار کے معاشی تجزیہ کار "شلومو مواز" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے 12 روزہ فوجی آپریشن پر تقریباً 16بلین ڈالر لاگت آئی اور اتنا ہی حکومت کی جی ڈی پی کو نقصان پہنچا۔ اقتصادی سرگرمیوں میں خلل کی وجہ سے روزانہ تقریباً 1.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جس سے ہائی ٹیک، نقل و حمل، سیاحت، ریستوراں اور مینوفیکچرنگ کے شعبے متاثر ہوئے۔ ہوائی اڈے کی بندش اور پروازوں کی منسوخی بھی معیشت پر اضافی دباؤ ڈالتی ہے۔ فوجی اور دفاعی اخراجات کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق اسرائیل کا اوسطاً فوجی خرچ جو 725 ملین ڈالر یومیہ تھا، وہ 12 دنوں میں کل 8.7 بلین ڈالر رہا۔ اس میں فضائی حملے، F-35 لڑاکا طیاروں اور مختلف گولہ بارود کا استعمال بھی شامل تھا۔ آئرن ڈوم، ایرو، اور ڈیوڈز سلنگ سمیت جدید میزائل ڈیفنس سسٹمز کو آپریٹ کرنے کی لاگت 10 ملین ڈالر سے 200 ملین ڈالر یومیہ ہے۔ ہر ایک انٹرسیپٹر میزائل کی لاگت تقریباً 5 ملین ہے اور 12 دنوں کے دوران کل دفاعی اور فوجی اخراجات کا تخمینہ 12.2 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔

ایرانی میزائل حملوں سے ہونے والے نقصانات کے تخمینے کے مطابق ان میزائل حملوں سے انفراسٹرکچر کو 3 بلین ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچا۔ کلیدی اہداف میں حیفا آئل ریفائنری، ویزمین انسٹی ٹیوٹ اور تل ابیب میں فوجی عمارتیں شامل تھیں۔ اسرائیل ٹیکس اتھارٹی نے ابتدائی نقصان کا تخمینہ 1.3 بلین ڈالر لگایا ہے، لیکن توقع ہے کہ یہ 1.5 بلین ڈالر سے زیادہ ہو جائے گا، جو پچھلے ایرانی حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان سے دوگنا ہے۔ اس جنگ میں 18,000 سے زیادہ لوگ اپنے گھر خالی کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہنگامی رہائش گاہوں کی لاگت کا تخمینہ 500 ملین ڈالر ہے۔ بنیادی ڈھانچے اور گھروں کی تعمیر نو میں بھی برسوں اور دسیوں ارب ڈالر لگیں گے۔ اس ناکام جنگ کے بعد حکومت کا بجٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 6 فیصد ہوگیا ہے اور دفاعی اخراجات بڑھ کر 20-30 بلین شیکل ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کے مرکزی بینک نے 2025ء کے لیے اپنی اقتصادی ترقی کی پیشن گوئی کو کم کرکے 3.5 فیصد کر دیا ہے اور جنگ کی لاگت کا تخمینہ جی ڈی پی کا 1 فیصد (تقریباً 5.9 بلین ڈالر) لگایا ہے۔

حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ بھی متاثر ہوئی ہے اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور فچ کی طرف سے وارننگز بھی جاری کی گئی ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ نے بھی اسرائیل کے دفاع پر تقریباً 1.2 بلین ڈالر خرچ کیے، خاص طور پر "THAAD" سسٹم کے ذریعے۔ لیکن اپنے ابتدائی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اس نے تنازعہ کو مزید پھیلانا چھوڑ دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ 12 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی من گھڑت تاریخ کی سب سے مہنگی اور ناکام کہانیوں میں سے ایک تھی۔ سرکاری اعداد و شمار اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کے اقتصادی اخراجات 12 اور 20 بلین ڈالر کے درمیان ہیں، لیکن زیادہ جامع اندازوں کے مطابق 40 بلین ڈالر بتائے جاتے ہیں۔ جنگ میں صیہونی حکومت کے اہم اخراجات کچھ اس طرح ہیں: براہ راست فوجی اخراجات: 12.2 بلین ڈالر، اقتصادی رکاوٹ اور کاروبار کی بندش کے نقصانات: 21.4 بلین ڈالر، ایرانی حملوں سے نقصان: 4.5 بلین ڈالر، انخلا اور تعمیر نو کے اخراجات: 2 بلین ڈالر۔ یہ اعداد و شمار، حتیٰ کہ حکومت کے سرکاری اعدادوشمار بھی، اسرائیل پر شدید اقتصادی، فوجی اور سماجی دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

طویل مدتی نتائج، بشمول بجٹ خسارہ، اقتصادی ترقی میں کمی، سیاحت کو پہنچنے والے نقصان، پیشہ ور افراد کی بے دخلی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی، اس کے علاوہ ہیں۔ بالآخر، 12 روزہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا اسرائیل کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا تھا اور تل ابیب کو مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ بیانیہ جو خود اسرائیلیوں اور ان کے میڈیا کے ذرائع کے اعترافات پر مبنی ہے، شکست و ریخت کی اصل حد کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں اور افواہوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ کے نتیجے میں صیہونی حکومت تقریباً مفلوج ہوچکی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • بیس سالہ منصوبے کا انجام
  • علی لاریجانی اور حکان فیدان کا علاقائی چیلنجز کو حل کرنے کیلئے باہمی تعاون پر زور
  • موضوع: کیا اسرائیل جنگ بڑھانا چاہتا ہے؟
  • فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف لندن میں مظاہرہ
  • فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف لندن میں احتجاجی مظاہرہ
  • غزہ میں شہدا کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی، جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی جارحیت جاری
  • نیا مشرق وسطیٰ اور گریٹر اسرائيل، ایک ہی سکے کے دو رخ
  • اسرائیلی جارحیت علاقائی امن و استحکام کیلئے خطرہ ہے، جولانی رژیم
  • شام کو اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کا پورا حق ہے، یمن