این ایف سی میں خیبرپختونخوا کا حصہ لینے کیلئے صوبائی حکومت اور اپوزیشن متحد ہوگئیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
پشاور:
قومی مالیاتی کمیشن کے تحت خیبرپختونخوا کا حصہ بڑھانے اور بقایاجات کے حصول کے لیے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوگئی ہیں، چار دسمبر کو ہونے والے این ایف سی کے اجلاس میں صوبہ کا موقف پیش کرنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، حکومت کا موقف ہے کہ وہ این ایف سی اجلاس میں صوبے کا حصہ 14.
خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے احمد کنڈی نے تجویز پیش کی کہ چار دسمبر قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس ہونے جارہا ہے، معمول کی کارروائی روک پر اس پر بحث کی اجازت دی جائے جس پر اجلاس میں معمول کی کارروائی روک کر این ایف سی بحث کرائی گئی۔
حکومتی ارکان عبدالکریم خان، منیر حسین لغمانی، داؤد شاہ، معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی کے تحت خیبرپختونخوا حکومت کا جو حق بنتا ہے وفاق وہ حق نہیں دے رہا، قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کی شرح بڑھ چکی ہے، پہلے یہ شرح 14.4 فیصد تھی اب یہ شرح بڑھ کر 19 فیصد تک بڑھ چکی ہے، بجلی کے خالص منافع پانی کے استعمال پر بھی ہمارا حق نہیں دیا جارہا، یہ صرف تحریک انصاف کا نہیں خیبرپختونخوا کا ایشو ہے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
حکومتی ارکان نے کہا کہ آئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد این ایف سی تشکیل دینا ہوتا ہے لیکن نئے این ایف سی کی تشکیل میں تاخیر کی جاتی رہتی ہے، قبائلی علاقوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے جب قبائلی علاقے شامل ہوئے تو ایک فیصد دہشت گردی کے خلاف شیئر دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ بھی نہیں دیا جارہا، این ایف سی کے مسئلے کو سیاسی بنادیا گیا ہے یہ آئینی مسئلہ ہے اور سیاست سے بالاتر ہوکر ہم نے صوبے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
اپوزیشن ارکان ارباب عثمان، نثار باز خان، سردار شاہجہاں، احمد کنڈی، اشبر خان جدون، آمنہ سردار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے تمام اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں تیسری حکومت ہے لیکن صوبے کے کیس کو وفاق کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، جب صوبے کے حقوق کی بات آتی ہے تو صوبائی کابینہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے، صوبائی حکومت این ایف سی کے تحت صوبے کے حق تو بات کرتی ہے لیکن پی ایف سی کے تحت اضلاع کو حق نہیں دے رہی، بلدیاتی نمائندے بے اختیار ہیں، مقامی حکومتیں صرف نام کی ہیں، نعرے لگانے سے حق نہیں ملے گا بیٹھ کر بات کرنا ہوگی وفاق کے خلاف محاز آرائی سے حقوق نہیں ملنے والے وزیراعلی اپوزیشن کو لیکر جائیں اور این ایف سی اپنا مقدمہ لڑیں۔
صوبائی وزیر مینا خان نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا نے این ایف سی کے اوپر خیبرپختونخوا کے مقدمے کو مؤثر طریقے سے پیش کیا، ہمارا این ایف سی میں حصہ 14 اعشاریہ 62 فیصد بنتا ہے، آرٹیکل 107 کے اندر واضح لکھا ہے کہ یہ 4 صوبوں میں تقسیم ہوگا، 1 فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے مختص کیا گیا تھا، آج فاٹا خیبرپختونخوا کا حصہ ہے، 90 فیصد شہادتیں خیبرپختونخوا کی عوام کے ساتھ فورسز نے دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 100 ارب روپے ضم اضلاع کے لئے سالانہ وعدہ کیا گیا تھا، 22 سے 25 سو ارب روپے قاضی فارمولے کے تحت بقایا ہے، ضم اضلاع کے اخراجات 130 ارب روپے ہے 80 ارب روپے خیبر پختونخوا حکومت ادا کر رہی ہے، این ایف سی میں حصہ اور دیگر بقایاجات آفر صوبہ کو مل جائے تو صوبہ ترقی کریگا، صوبہ کی عوام کو اس حوالے سے خوشحالی ملے گی اور صوبہ ترقی کرے گا، ہم کسی سے خیرات یا بھیک یا چوری نہیں کر رہے ہیں، یہ سب وسائل ہمارے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے، تمام تجاویز کو شامل کر کے تمام سابق وزراء کو بھی بلائیں گے اور تجاویز لیں گے۔
این ایف سی کے معاملے پر اسپیکر کی زیر صدارت اہم اجلاس
خیبرپختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز، اراکینِ اسمبلی اور محکمہ خزانہ و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران شرکاء کو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق موجودہ پیش رفت، صوبے کو درپیش مالی مشکلات اور وفاقی سطح پر وسائل کی تقسیم سے متعلق اٹھنے والے اعتراضات پر بریفنگ دی گئی۔
شرکاء نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے کے مالی حقوق، خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی و انتظامی اخراجات سے متعلق اہم معاملات مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں، جس کا براہ راست اثر صوبے کی گورننس، امن و امان اور ترقیاتی عمل پر پڑ رہا ہے۔
اسپیکر بابر سلیم سواتی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور صوبائی اسمبلی صوبے کے عوام کے مالی و آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے صوبے کے جائز مؤقف کو مضبوطی سے ہر فورم پر پیش کیا جائے گا اور کسی بھی صورت صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اجلاس کے اختتام پر اسپیکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا اپنی مشکلات اور ضروریات کے تناظر میں ایک مضبوط کیس رکھتا ہے اور صوبائی حکومت اس معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ تمام وسائل بروئے کار لا کر اپنے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا کا ایف سی کے صوبے کے حقوق صوبے کے حق اجلاس میں حوالے سے ارب روپے کیا گیا حق نہیں حقوق کے کے تحت کے لیے کا حصہ کہا کہ
پڑھیں:
کن علاقوں میں صوبائی حکومت کی حکومت نہیں رہی، پاک فوج کے ترجمان نے بتادیا
سٹی42: پاکستان کو خیبر پختونخوا میں انتہائی پیچیدہ اور سنگین صورتحال کا سامنا ہے، اس سنگین صورتحال پر آج پاک آرمی کے ترجمان نے مزید کھل کر بتایا ہے۔
پاک آرمی کے ترجمان نے تصدیق کی کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں پولیٹیکل ٹیررکرائم گٹھ جوڑ ہے، خیبر اور تیراہ میں کوئی انتظامیہ نہیں ہے۔
پاک آرمی کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ بارڈر منیجمنٹ پر سکیورٹی اداروں کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں طرف منقسم گاؤں ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے۔
طیاروں کے سافٹ ویئر میں سنگین خرابی، عالمی پروازیں معطل
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا، پاک افغان سرحدی علاقوں میں انتہائی مضبوط "پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ" موجود ہے ، خیبر اور وادی تیراہ میں کوئی انتظامیہ نہیں ہے۔
خیبر اور تیراہ بظاہر خیبر پختونخوا کی حکومت کی عملداری مین ہیں لیکن آج پاک فوج کے ترجمان نے پبلک کے سامنے یہ تصدیق کی کہ وہاں کوئی حکومت نہیں ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 25 نومبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی سینیئر صحافیوں سے ملکی سلامتی کے امور پر تفصیلاً گفتگو ہوئی۔
اقرار الحسن وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں؟ شاید میں سیکنڈ لیڈی بن جاؤں: فراح اقرار
اس گفتگو میں ترجمان پاک فوج نے کہاکہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے ، خیبر اور وادی تیراہ میں کوئی انتظامیہ نہیں، نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بارڈر منیجمنٹ پر سکیورٹی اداروں کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے، خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد 1229 کلو میٹر پر محیط ہے جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں، پاک افعان سرحد پر پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے۔
اب ہر شہری کا موبائل فون کیمرہ سیف سٹی کا کیمرہ بن سکے گا
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو، اگر 2 سے 5 کلو میٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہوں گے، پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں، ایسی صورتحال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا میں بارڈر منیجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک ملکر کرتے ہیں، اس کے برعکس، افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی کیلئے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں، اگر افغان بارڈر سے متصل علاقے دیکھیں تو مشکل مؤثر انتظامی ڈھانچہ گورننس کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے، ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے، سہولت کاری فتنہ الخوارج کرتے ہیں۔
ریمبو سے شادی نہ کروانے پر صاحبہ نے خودکشی کی دھمکی دی تھی، نشو بیگم
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا اگر سرحد پار سے دہشتگردوں کی تشکیلیں، اسمگلنگ یا تجارت ہو تو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہیں تو انہیں کس نے روکنا ہے؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
Waseem Azmet