خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگے گا کہ نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
کچھ دنوں سے خیبرپختونخوا میں گورنر کی تبدیلی کی باتیں چل رہی تھیں اور میڈیا میں 6 ممکنہ امیدواروں کے نام بھی رپورٹ کر دیے گئے پھر اس کے بعد خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کی خبریں چلنا شروع ہوئیں لیکن پشاور اور اسلام آباد کے کچھ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ ان خبروں کی حقیقت فی الحال کوئی نہیں اور یہ تاحال صرف پاکستان تحریک انصاف کو دباؤ میں لانے کا ممکنہ حربہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں احتجاج کیا تو پارٹی پر پابندی اور کے پی میں گورنر راج، فیصل واوڈا نے پی ٹی آئی کو خبردار کردیا
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی خود کو ہٹائے جانے کے حوالے سے زیر گردش خبروں کی تردید کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی انہیں قبول ہو گا۔
ان خبروں کو تقویت وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کے اس بیان سے ملی جس میں انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گورننس اور دہشتگردی کے واقعات بڑھ چکے ہیں، صوبائی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے، صوبے میں 2 ماہ کے لیے گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔
بیرسٹر عقیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی ٹیم بری طرح ناکام ہے، صوبائی حکومت وفاق سے تعاون نہیں کر رہی، جہاں جہاں صوبائی حکومت کو بتایا جاتا ہے کہ کارروائی کی ضرورت ہے تو صوبائی حکومت کسی قسم کا تعاون یا کارروائی نہیں کرتی۔
ابھی تک گورنر راج کا واضح اشارہ نہیں ہےقومی امور کے حوالے سے معتبر صحافی اور تجزیہ نگار حماد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک مجھے گورنر کی تبدیلی یا گورنر راج کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور ایسی خبریں صرف خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے پھیلائی جارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں گورنر راج کی گونج، پی ٹی آئی کو اس فیصلے سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی محمود جان بابر نے بھی اسی قسم کا اظہار کیا اور کہا کہ ابھی تک مجھے گورنر کی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو دبانے کی کوشش کررہی ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ سامنے والا دب جائے اور یہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے کوئی سنجیدہ تحریک دکھائی نہیں دیتی نہ ہی وفاقی حکومت کے ذرائع ان باتوں کو کنفرم کررہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news خیبرپختونخوا سہیل آفریدی فیصل کریم کنڈی گورنر راج وفاقی حکومت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا سہیل ا فریدی فیصل کریم کنڈی گورنر راج وفاقی حکومت خیبرپختونخوا میں گورنر میں گورنر راج صوبائی حکومت کہا کہ
پڑھیں:
اے این پی کی 28ویں ترمیم کی مشروط حمایت، خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ
اے این پی کے مرکزی ترجمان انجینئر احسان اللہ خان نے بیان میں کہا کہ پاکستان کا آئین کسی فرد واحد، ذاتی اقتدار یا ادارہ جاتی بالادستی کے حصول کا ذریعہ نہیں بن سکتا، آئینی ترامیم کا مقصد صرف عوامی مفاد، صوبائی حقوق کا تحفظ، وفاقی انصاف اور جمہوری استحکام ہونا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے 28ویں ترمیم کی مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ 27 ویں ترمیم کے دوران کے وعدوں کی پاسداری کی جائے اور خیبر پختونخوا کی تاریخی حیثیت بحال کرکے صوبے کا نام پختونخوا رکھا جائے۔ اے این پی کے مرکزی ترجمان انجینئر احسان اللہ خان نے بیان میں کہا کہ پاکستان کا آئین کسی فرد واحد، ذاتی اقتدار یا ادارہ جاتی بالادستی کے حصول کا ذریعہ نہیں بن سکتا، آئینی ترامیم کا مقصد صرف عوامی مفاد، صوبائی حقوق کا تحفظ، وفاقی انصاف اور جمہوری استحکام ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی 28ویں آئینی ترمیم کی حمایت صرف اس صورت میں کرے گی جب 27ویں آئینی ترمیم کے دوران کیے گئے وعدوں کی مکمل پاسداری یقینی بنایا جائے، 18ویں آئینی ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، صوبائی خودمختاری اور صوبائی حقوق سے متعلق تمام آئینی تحفظات بغیر کسی تبدیلی کے برقرار رکھے جائیں۔
ترجمان اے این پی نے کہا کہ اے این پی صوبائی حقوق پر کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کرے گی، 28 ویں آئینی ترمیم میں ہائیڈل پاور پیدا کرنے والے صوبوں کے لیے بجلی پر آئینی ریلیف دیا جائے، ہائیڈل پاور پیدا کرنے والے صوبوں میں بجلی کے استعمال پر کوئی وفاقی ٹیکس، سرچارج یا اضافی لاگت عائد نہ کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے صوبوں میں گھریلو صارفین کے لیے 500 یونٹس تک بجلی کی قیمت 10 روپے فی یونٹ مقرر کی جائے۔
انجینئر احسان اللہ خان نے کہا کہ 28 ویں آئینی ترمیم میں تمباکو کاشت کاروں کے تحفظ اور صوبائی محصول کے حق کو یقینی بنایا جائے، تمباکو کاشت کرنے والے کسانوں پر عائد تمام ٹیکس فوری طور پر ختم کیے جائیں، خام تمباکو کی خریداری پر صنعتوں سے وصول ہونے والا مکمل ٹیکس اس صوبے کو دیا جائے جہاں یہ تمباکو پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 28 ویں آئینی ترمیم میں مقامی حکومتوں کے مستقل قیام کو آئینی ضمانت دی جائے، آرٹیکل 140A کے مطابق ملک بھر میں ہر چار سال بعد باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی انتظامی اتھارٹی کو ان اداروں کو معطل، تحلیل یا ان کی جگہ لینے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔
ترجمان اے این پی نے مطالبہ کیا کہ 28 ویں آئینی ترمیم میں پختونخوا کی تاریخی شناخت بحال کی جائے اور اے این پی صوبے کے نام کو ’پختونخوا‘ تسلیم کرنے کے مطالبے کو دہراتی ہے۔