صوبائی حکومت ناکام ہوچکی : عطاتارڑ : خیبر پی کے میں گورنرراج پر سنجیدگی سے غور جاری : وزیر مملک قانون
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ خیبر پی کے میں گورنر راج لگانے کیلئے سنجیدہ غور کیا جا رہا ہے۔ گورنر راج شدید ضرورت کی صورت میں لگایا جاتا ہے۔ صوبے کے حالات اس کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ہم کب تک خیبر پی کے کے شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑیں گے۔ گورنر راج دو ماہ کیلئے لگایا جا سکتا ہے‘ حالات کے مطابق توسیع بھی ہو سکتی ہے۔ خیبر پی کے میں ایسا انتظامی ڈھانچہ ہو جو کچھ فائدہ تو دے۔ ماضی میں پنجاب میں بھی گورنر راج لگانے کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ دہشتگردی اور سرحدی صورتحال کو دیکھتے ہوئے گورنر راج لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔گورنر راج لگانا صدر کا کام، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ہوگا، سنجیدگی سے غور جاری، ذرائع کے مطابق پہلی کوشش ہے کہ صوبہ موجودہ گورنر خیبر پی کے فیصل کریم کنڈی کے حوالے کردیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ان کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر دیگر تین سیاست دانوں کے نام زیر غور ہیں جن میں امیر حیدر ہوتی، پرویز خٹک اور آفتاب شیرپاؤ شامل ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اگر سیاست دانوں کے ناموں پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا تو پھر سابق فوجی افسران کو بھی گورنر خیبر پی کے کی ذمہ داریاں دی جاسکتی ہیں۔ نئے گورنر کے لیے سابق فوجی افسران میں سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد ربانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) غیور محمود اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کے نام شامل ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے حوالے سے تاحال کوئی معاملہ زیرغور نہیں۔ دریں اثناء گورنر راج لگانے اور عہدے سے ہٹانے کی خبروں پر گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا ردعمل سامنے آگیا۔ فیصل کریم کنڈی نے پشاور میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کی تبدیلی کے حوالے سے مجھے کچھ علم نہیں، اگر میڈیا ہی گورنر لگائے گا تو پھر اللہ حافظ ہے۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ان کی تبدیلی کے حوالے سے پارٹی کا جو فیصلہ ہوگا وہ قبول کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر راج کی باتیں میڈیا کے ذریعے ہی سن رہا ہوں۔ صوبے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے صوبے کے حالات احتجاجوں کی اجازت نہیں دیتے۔ صوبے میں امن وامان سمیت کئی مسائل ہیں۔ آئین میں گورنر راج کی شق موجود ہے مگر میرے ساتھ کسی نے کوئی بات چیت نہیں کی۔ آج تک میں یہ کہتا ہوں کہ فی الحال گورنر راج کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مشیر اطلاعات خیبر پی کے شفیع جان نے کہا ہے کہ گورنر راج لگانا ہے تو آج ہی لگا دیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ گورنر راج جیسے ایڈونچر کی کوشش پر ردعمل انہیں پتا چل جائے گا۔ عطا تارڑ نے بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ وہ ثابت کریں کہ ہمارے رہنماؤں کا دہشت گردوں سے کوئی گٹھ جوڑ ہے۔ گورنر بدلنا ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔ علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گورنر راج کے معاملے سے عوامی نیشنل پارٹی کو باہر رکھا جائے۔ اے این پی کی بنیاد خدائی خدمتگار تحریک کے عدم تشدد اور انسانی وقار کے اصول پر قائم ہے۔ ہمارا نظریہ امن‘ برداشت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا علمبردار ہے۔ پشتون قوم نے ہمیشہ نو آبادیاتی ظلم کے مقابل باوقار اور اصولی موقف اپنایا۔
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا ملک دشمن عناصر سے گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی کمزوریاں اور کوتاہیاں دراندازی کے واقعات بڑھنے کی بڑی وجہ ہیں۔ گزشتہ 12 برسوں میں خیبر پختونخوا میں موثر پراسیکیوشن کا نظام قائم نہیں کیا جا سکا۔ صوبے میں پچھلے تین سالوں کے دوران ہزاروں مقدمات زیر التواء ہیں جبکہ چار ہزار کے قریب مقدمات میں تاحال فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو اڈیالہ جیل کے باہر نعرے لگانے تو آتے ہیں لیکن انہیں ’’پراسیکیوشن‘‘ کے سپیلنگ نہیں معلوم۔ ساڑھے بارہ سالوں میں پی ٹی آئی کی حکومت نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا سدباب نہیں کر سکی۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے باعث قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں منشیات کی سمگلنگ کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ جنوری 2025ء سے اگست 2025ء تک صوبے میں دس ہزار سے زائد ڈرگ ٹریفکنگ کے مقدمات رجسٹرڈ ہیں۔ کے پی حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ گزشتہ چند روز سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے اور افواہوں کو ہوا دینے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے جن کے پیچھے پی ٹی آئی کا ملک مخالف رویہ اور اس کی مبینہ سازشیں کار فرما ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر میڈیا نمائندگان سے ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جاری اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ دہشت گردوں کا کس طرح مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے جوان اور افسران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور افغانستان کی جانب سے ہونے والی در اندازی کو روکنے کے لئے مسلسل کارروائیاں جاری ہیں۔ اور یہ بھی بتایا کہ کس طریقے سے بارڈر کو محفوظ کیا جا رہا ہے تاہم ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور سرحدی اضلاع کی کمزوریوں کے باعث بعض مقامات پر در اندازی بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے جوان اور افسران اپنے خون سے اس گیپ کو پْر کر رہے ہیں جو صوبائی حکومت کی غفلت اور کمزوریوں کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ مضبوط پراسیکیوشن کا نظام نہ ہونا، گزشتہ برسوں میں چار ہزار سے زائد کیسز کا رجسٹرڈ ہونا اس امر کی نشاندہی ہے کہ صوبے میں سزا اور فرد جرم عائد ہونے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ پراسیکیوشن کا نظام مکمل طور پر صوبائی حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت ہی اس کو چلاتی اور مضبوط کرتی ہیں۔ وزیراعلی خیبر پی کے کو اڈیالہ کے باہر نعرے لگانے اور جوتی کا ناپ دینا، تصویر صاف کرانا تو آتا ہے مگر پراسیکیوشن کے سپیلنگ نہیں آتے۔ لیگل ریفارمز کی گئیں، نہ پراسیکیوشن نظام بہتر بنایا گیا۔ اس کی وجہ پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسس ہے۔ سیاسی لوگوں کا کریمنلز اور دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ریفارم نہیں کرنے دیتا۔ خیبر پی کے دنیا کا واحد صوبہ ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلتی ہیں۔ جہاں کی ایڈمنسٹریشن اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ گاڑی پر نان کسٹم پیڈ کی پلیٹ لگائیں۔ ساڑھے 12 سالوں میں پی ٹی آئی کی حکومت نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا سدباب نہیں کر سکی۔ اس کے پیچھے سیاست دانوں کا مجرموں، کریمنلز اور دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے چند سال پہلے بشام میں ایک حساس واقعہ پیش آیا جس میں استعمال ہونے والی گاڑی نان کسٹم پیڈ تھی۔ انہوں نے کہا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو چیک کرنا کیا فوج کا کام ہے؟ یہ صوبائی حکومت کا کام ہے۔ خیبر پی کے میں منشیات کی سمگلنگ اور تجارت صوبائی حکومت کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ ساڑھے 12 سال میں یہ کس کی ذمہ داری تھی کہ منشیات کا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے، اس کو نکیل ڈالے؟۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں منشیات کی سمگلنگ کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ یہ دہشت گردوں کو سزا نہیں دلواتے، ایکشن نہ لے سکے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسس موجود ہے۔ خیبر پختونخوا میں پہاڑ کاٹ کر پتھر اور ماربل نکالا جا رہا ہے۔ مائنز کے غیر قانونی ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ اس کا اثر ماحولیات پر بھی پڑ رہا ہے، پہاڑ خالی ہو رہے ہیں اور انہوں نے اپنے لوگوں کو ٹھیکے دیئے ہیں۔ موجودہ دور حکومت میں ایف بی آر میں ریفارمز ہوئیں۔ ورلڈ بینک کی سطح پر وفاقی حکومت کی پذیرائی ہوئی۔ ایف بی آر ٹیکس جمع کر رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اصلاحات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت پہاڑ کاٹنے، دہشت گردی، ڈرگ مافیا، ٹمبر مافیا اور ٹوبیکو مافیا کو پروموٹ کر رہی ہے۔ یہ سالانہ 2300 ارب روپے کا ٹیکس کھا جاتے ہیں، اس پر کوئی بات نہیں کرے گا۔ اسلام آبادکچہری حملے میں افغانستان پوری طرح ملوث ہے۔ افغان خودکش بمبار اور اس کے ہینڈلر کی افغانستان میں ٹریننگ ہوئی مگر صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے مذمت کا ایک بیان سامنے نہیں آیا، وہ بات کریں گے تو ہمیشہ ان کی حمایت کریں گے۔ اسلام آباد دھماکے کے فوری بعد محمود خان اچکزئی نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر بات کی جو صرف کابل، کابل اور کابل پر تھی۔ اس محبت کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک ملک کی سرزمین آپ کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، دہشت گرد وہاں سے پاکستان آ کر کارروائی کرتے ہیں اور یہ ان کے حق میں بات کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی کمزوریوں کی وجہ سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں نو مئی کو کور کمانڈر ہائوس میں موجود تھیں مگر ابھی تک ان کو کیفر کردار تک اس لئے نہیں پہنچایا گیا کہ یہ انتقامی کارروائی کا رونا نہ روئیں۔ یہ نو مئی کو وہاں موجود تھیں جو جتھوں کو لے کر وہاں گئیں اور کیمروں میں نظر آ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کو معرکہ حق کے بعد خارجہ پالیسی کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی۔ ان کے دور میں معیشت ڈوب چکی تھی، اب معیشت استحکام کی طرف جا رہی ہے جو انہیں قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اب انڈین اور افغان چینلز پر جا کر اپنے بھائی کا رونا رو رہی ہیں۔ کیا نورین خان نیازی نے انڈین چینل کو انٹرویو میں کہا کہ میں مودی کی مذمت کرتی ہوں؟۔ پاکستان میں معصوم بچوں کی شہادت اور ارتضیٰ عباس کی بات کی؟۔ مریدکے، بہاولپور میں شہید ہونے والے شہریوں، فوجیوں، جوانوں اور افسروں کی بات کی جو شہید ہوئے، یا ان کو خراج تحسین پیش کیا؟۔ یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے جو انڈین چینلز پر جا کر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں۔ انڈین چینل ان کو اپنا پلیٹ فارم اس لئے مہیا کر رہے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اس فیملی اور پارٹی کی ذہنیت پاکستان کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھارتی چینلز پر جا کر کشمیریوں کی بات کرتے ہیں نہ معرکہ حق کی، نہ اپنے شہداء کی۔ یہ وہاں صرف اور صرف ایسے قیدی کے بارے میں وکٹمائزیشن کا رونا روتے ہیں جو کرپشن کے کیس میں اندر ہے، جس پر 190 ملین پائونڈ کی کرپشن ثابت ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی خاتون رہنما افغانستان اور انڈین میڈیا کے ذریعے افواہ پھیلاتی ہیں کہ ان کے لیڈر کی جان خطرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ٹریڈ مل پر روز گھنٹوں بھاگتے ہیں، وی وی آئی پی قیدی ایک فائیو سٹار ہوٹل کی سہولت لے رہا ہے مگر انڈین اور افغان ٹی وی چینلز پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ آپریشن بنیان مرصوص میں اللہ تعالیٰ نے شاندار فتح عطا فرمائی۔ کاش نورین خان بھارتی چینلز پر اس کو سراہتیں، مودی حکومت کی مذمت کرتیں۔ کاش یہ انڈین میڈیا پر بھارت کے گرائے جانے والے سات جہازوں کا ذکر کرتیں مگر انہیں یہ توفیق نہیں ہے کیونکہ ان کے لئے پاکستان کو بدنام کرنا اہم ہے۔ پاکستان، پاکستان کی سکیورٹی یا مفاد ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہوں نے 9 مئی کو فزیکلی حملہ کیا۔ نو مئی سازش کے تانے بانے مل گئے ہیں۔ یہ فوج کو کمزور کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے تمام منصوبے ناکام ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چاہتے تھے کہ فوج اندرونی طور پر کمزور ہو اور بھارت کو تقویت ملے اور وہ حملہ کرے۔ ان کو معرکہ حق اور بنیان مرصوص کی فتح آج تک ہضم نہیں ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ معاملات کو کمزور کیا جائے۔ اسی لئے ان کے ایکس اکائونٹس ملک مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ ایکس میں ایسا فیچر آ گیا ہے کہ جو اکائونٹ جہاں سے آپریٹ ہو رہا ہو، اس کا پتہ لگ جاتا ہے۔ نام نہاد بلوچ اکائونٹس بنے ہوئے ہیں، یہ سارے اکائونٹس انڈیا اور افغانستان سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: نان کسٹم پیڈ گاڑیوں خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے انہوں نے کہا کہ فیصل کریم کنڈی کیا جا رہا ہے صوبائی حکومت کہ گورنر راج پی ٹی ا ئی کی استعمال ہو کر رہے ہیں خیبر پی کے کہا ہے کہ کے حوالے حکومت کی چینلز پر جاتا ہے نہیں کر گٹھ جوڑ نہیں ہو کی بات کے نام رہی ہے بات کی
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں گور نر راج نافذ کر نے پر غور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251201-01-20
پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور شروع کردیا گیا، گورنر راج کے لیے فیصل کریم کنڈی کو رکھنے یا ان کی جگہ نیا گورنر لانے کی تجویز زیر غور ہے، متوقع نئے گورنر کے لیے 3 سابق فوجی افسران اور 3 سیاسی شخصیات کے نام سامنے آگئے۔ تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کے معاملے پر غور کیا جارہا ہے، پہلی کوشش ہے کہ صوبہ موجودہ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے حوالے کردیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگران کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر دیگر 3 سیاستدانوں کے نام زیر غور ہیں جن میں امیر حیدر ہوتی، پرویز خٹک اور آفتاب شیرپاؤ شامل ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اگر سیاست دانوں کے ناموں پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوپاتا تو پھر سابق فوجی افسران کو بھی گورنر خیبرپختونخوا کی ذمے داریاں دی جاسکتی ہیں۔ نئے گورنر کے لیے سابق فوجی افسران میں سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد ربانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) غیور محمود اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کے نام شامل ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے حوالے سے تاحال کوئی معاملہ زیرغور نہیں۔ دریں اثنا گورنر راج لگانے اور عہدے سے ہٹانے کی خبروں پر گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا ردعمل سامنے آگیا۔ فیصل کریم کنڈی نے پشاور میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کی تبدیلی کے حوالے سے مجھے کچھ علم نہیں، اگر میڈیا ہی گورنر لگائے گا تو پھر اللہ حافظ ہے۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ان کی تبدیلی کے حوالے سے پارٹی کا جو فیصلہ ہوگا وہ قبول کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر راج کی باتیں میڈیا کے ذریعے ہی سن رہا ہوں، صوبے کی ذمے داری صوبائی حکومت کے پاس ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے صوبے کے حالات احتجاجوں کی اجازت نہیں دیتے، صوبے میں امن وامان سمیت کئی مسائل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں گورنر راج کی شق موجود ہے مگر میرے ساتھ کسی نے کوئی بات چیت نہیں کی، آج تک میں یہ کہتا ہو کہ فی الحال گورنر راج کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔