بیس سالہ منصوبے کا انجام
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: 12 روزہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا اسرائیل کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا تھا اور تل ابیب کو مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ بیانیہ جو خود اسرائیلیوں اور ان کے میڈیا کے ذرائع کے اعترافات پر مبنی ہے، شکست و ریخت کی اصل حد کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں اور افواہوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ کے نتیجے میں صیہونی حکومت تقریباً مفلوج ہوچکی تھی۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
اسرائیل اور ایران کے درمیان لڑی جانے والی اپنی نوعیت کی بارہ روزہ جنگ، اگرچہ ایک محدود جنگ تھی لیکن اسرائیل ابھی تک اس جنگ میں پانے والی شکست کے زخم چاٹ رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے اپنے سرکاری اعداد و شمار اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کا ایران پر حملہ اس حکومت کی جعل سازی کی تاریخ کا بڑا شہکار تھا۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے مطابق "یہ جارحیت اسرائیل کے ایران کے خلاف 20 سالہ منصوبے کا نتیجہ تھی، جو مکمل طور پر ناکامی پر ختم ہوئی۔" مقبوضہ علاقوں میں میڈیا کی شدید سنسرشپ کی وجہ سے اس جنگ میں اسرائیلی نقصانات کے اصل اعدادوشمار کبھی بھی مکمل طور پر شائع نہیں ہوسکے ہیں، لیکن اسرائیلی حکام اور میڈیا کے اعترافات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو بہت زیادہ معاشی، فوجی اور سماجی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار بحران کی حقیقی جہتوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، البتہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب نے 12 دن کے بعد جنگ بندی پر رضامندی کیوں ظاہر کی۔
وقت گزرنے کے ساتھ صہیونی حکام اس جنگ میں اپنی ناکامی کا اعتراف خود کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم ترین بیان "میجر جنرل جیورا ایلینڈ" کی طرف سے آیا ہے، جو اسرائیلی سلامتی کونسل کے سابق چیئرمین ہیں۔ ایک سرکاری میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "اسرائیل کے بہترین مفادات جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کو قبول کرنے میں ہی تھے۔" یہ الفاظ براہ راست اسٹریٹجک اہداف کے حصول میں ناکامی کے اعتراف کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئلینڈ کے مطابق "جنگ جاری رکھنے کے اخراجات، بشمول معاشی نقصانات اور بین الاقوامی دباؤ، ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ تھے۔" اسرائیل کے سابق وزیراعظم "ایہود اولمرٹ" نے بھی 12 روزہ جنگ کے بارے میں کہا "ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ ان کے مطابق ایران کا اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" یہ کھلا اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کا 20 سالہ منصوبہ ناکام رہا ہے۔
حکومت کے سرکاری تجزیہ کاروں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم ایران کو شکست دینے میں ناکام رہے اور ہم مستقبل میں اس کی قیمت ادا کریں گے۔" چینل 12 کے رپورٹر نے اعلان کیا کہ "اسرائیل اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ایران کو شکست دینے سے قاصر رہا۔" "یدیعوت احرونوت" کے عسکری تجزیہ کار "یوسی یہوشوا" اور اسرائیل کے چینل 12 ٹیلی ویژن نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ایران نے ابھی تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار یا بھاری میزائل استعمال نہیں کیے ہیں جبکہ "معاریو اخبار" نے تسلیم کیا کہ ”ایران جنگ کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔“ اس جنگ میں مالی اور معاشی نقصانات کے حوالے بھی بعض اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اسرائیلی ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے مطابق ایران کے ساتھ جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیل کے نقصانات کی تعداد 41,651 ہے۔ عمارتوں کو نقصان پہنچنے سے متعلق 32,975 رپورٹس ہیں۔ 4,119 کاریں تباہ ہوئیں، سامان اور جائیداد کے نقصانات کے متعلق 44,45 فائلیں جمع کرائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہزاروں تباہ شدہ عمارتیں غیر ریکارڈ شدہ ہیں۔
"Maariv" اخبار کے معاشی تجزیہ کار "شلومو مواز" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے 12 روزہ فوجی آپریشن پر تقریباً 16بلین ڈالر لاگت آئی اور اتنا ہی حکومت کی جی ڈی پی کو نقصان پہنچا۔ اقتصادی سرگرمیوں میں خلل کی وجہ سے روزانہ تقریباً 1.
ایرانی میزائل حملوں سے ہونے والے نقصانات کے تخمینے کے مطابق ان میزائل حملوں سے انفراسٹرکچر کو 3 بلین ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچا۔ کلیدی اہداف میں حیفا آئل ریفائنری، ویزمین انسٹی ٹیوٹ اور تل ابیب میں فوجی عمارتیں شامل تھیں۔ اسرائیل ٹیکس اتھارٹی نے ابتدائی نقصان کا تخمینہ 1.3 بلین ڈالر لگایا ہے، لیکن توقع ہے کہ یہ 1.5 بلین ڈالر سے زیادہ ہو جائے گا، جو پچھلے ایرانی حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان سے دوگنا ہے۔ اس جنگ میں 18,000 سے زیادہ لوگ اپنے گھر خالی کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہنگامی رہائش گاہوں کی لاگت کا تخمینہ 500 ملین ڈالر ہے۔ بنیادی ڈھانچے اور گھروں کی تعمیر نو میں بھی برسوں اور دسیوں ارب ڈالر لگیں گے۔ اس ناکام جنگ کے بعد حکومت کا بجٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 6 فیصد ہوگیا ہے اور دفاعی اخراجات بڑھ کر 20-30 بلین شیکل ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کے مرکزی بینک نے 2025ء کے لیے اپنی اقتصادی ترقی کی پیشن گوئی کو کم کرکے 3.5 فیصد کر دیا ہے اور جنگ کی لاگت کا تخمینہ جی ڈی پی کا 1 فیصد (تقریباً 5.9 بلین ڈالر) لگایا ہے۔
حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ بھی متاثر ہوئی ہے اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور فچ کی طرف سے وارننگز بھی جاری کی گئی ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ نے بھی اسرائیل کے دفاع پر تقریباً 1.2 بلین ڈالر خرچ کیے، خاص طور پر "THAAD" سسٹم کے ذریعے۔ لیکن اپنے ابتدائی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اس نے تنازعہ کو مزید پھیلانا چھوڑ دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ 12 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی من گھڑت تاریخ کی سب سے مہنگی اور ناکام کہانیوں میں سے ایک تھی۔ سرکاری اعداد و شمار اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کے اقتصادی اخراجات 12 اور 20 بلین ڈالر کے درمیان ہیں، لیکن زیادہ جامع اندازوں کے مطابق 40 بلین ڈالر بتائے جاتے ہیں۔ جنگ میں صیہونی حکومت کے اہم اخراجات کچھ اس طرح ہیں: براہ راست فوجی اخراجات: 12.2 بلین ڈالر، اقتصادی رکاوٹ اور کاروبار کی بندش کے نقصانات: 21.4 بلین ڈالر، ایرانی حملوں سے نقصان: 4.5 بلین ڈالر، انخلا اور تعمیر نو کے اخراجات: 2 بلین ڈالر۔ یہ اعداد و شمار، حتیٰ کہ حکومت کے سرکاری اعدادوشمار بھی، اسرائیل پر شدید اقتصادی، فوجی اور سماجی دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
طویل مدتی نتائج، بشمول بجٹ خسارہ، اقتصادی ترقی میں کمی، سیاحت کو پہنچنے والے نقصان، پیشہ ور افراد کی بے دخلی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی، اس کے علاوہ ہیں۔ بالآخر، 12 روزہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا اسرائیل کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا تھا اور تل ابیب کو مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ بیانیہ جو خود اسرائیلیوں اور ان کے میڈیا کے ذرائع کے اعترافات پر مبنی ہے، شکست و ریخت کی اصل حد کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں اور افواہوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ کے نتیجے میں صیہونی حکومت تقریباً مفلوج ہوچکی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی حکومت اسرائیل کے نقصانات کے براہ راست بلین ڈالر ملین ڈالر کا تخمینہ ایران کے کہ ایران ایران کا میڈیا کے حملوں سے حکومت کے کے مطابق حکومت کی تل ابیب کی لاگت کے ساتھ کرتا ہے جنگ کے کے بعد ہے اور کے لیے
پڑھیں:
افغانستان بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، فیصل کریم کنڈی
افغانستان بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، فیصل کریم کنڈی WhatsAppFacebookTwitter 0 28 November, 2025 سب نیوز
پشاور (آئی پی ایس )گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے افغان حکومت کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔خیبرپختونخوا کے علاقے ترکئی، جلبئی اور دیگر مقامات پر بجلی گرڈ اسٹیشن اور دیگر منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئیگورنر فیصل کریم کنڈی نے افغان مہاجرین کی پاکستان سے انخلا کے حوالے سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے باشندے بے شک عالمی قوانین کے مطابق ویزے پر تجارت اور سیاحت کے لیے پاکستان آ اور جا سکتے ہیں لیکن ویزے کے بغیر غیر قانونی طور پر قیام نہیں کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح پاکستانی دنیا کے ہر ملک میں ویزے پر آتے جاتے ہیں اسی طرح قانون افغان باشندوں کے لیے بھی ہے، وہ ہمارے بہن بھائی ہیں ہمیشہ پاکستان میں بطور مہاجرین قیام ان کی خوب مہمان نوازی کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج افغانستان اسرائیل اور بھارت کے ہاتھوں کھیل رہا ہے اور وہاں کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے امن کے لیے جام شہادت نوش کی۔
گورنر کے پی نے کہا کہ جب پاکستان میں امن ہو گا تو ملک میں ترقی اور خوش حالی ہوگی، خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں امن لانے کے لیے ہم پرعزم ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قیادت کی جانب سے ہری پور ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات غلط قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان پولنگ اسٹیشنوں میں ڈیوٹی کرنے والے تو صوبائی حکومت کے محکموں صحت، تعلیم اور دیگر کے ملازمین ہی تھے تو پھر الیکشن میں دھاندلی کہاں سے ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن جانا اچھی بات ہے اسی طرح پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن کا پر امن احتجاج ان کا حق ہے۔انہوں نے کہا کہ پنچاب میں بھی پی پی پی کے امیدواروں نے پریس کانفرنس اور شکوہ کرکے کہا کہ وہ دھاندلی کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے، پی پی پی ہمیشہ سے یہ کہتے ہوئے چلی آرہی ہے کہ ملک میں عام انتخابات شفاف، آزادانہ اور غیر جانب درانہ ہونے چاہئیں تاکہ عوام اپنے پسند کے نمائندے منتخب کر سکیں۔
فیصل کریم کندی نے کہا کہ اپوزیشن 27 ویں ترمیم پر جو اعتراض کررہی ہے تو آج، کل اور کسی کی حکومت آکر اس کے بعد اور ترامیم کرے گی۔گورنر نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں تو لوگ سڑکوں، روڈز اور پلوں کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ یہ صوبائی حکومت کے کام ہیں، مجھے صوابی میں کسی بھی جگہ ڈبل روڈ نظر نہیں آیا، ہم پر گیس اور بجلی مرکز کے محکمے قرار دینے والوں کی پی ٹی آئی اس صوبے پر مسلسل 13 برسوں سے حکومت کررہی ہے مگر اب تک کچھ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی وعدوں کے مطابق صوابی سمیت پورا خیبرپختونخوا سوئٹزرلینڈ بن جائے گا لیکن وہاں اب تک کھنڈرات ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے علاوہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈز سمیت جو وفاق کے ادارے ہیں مسائل حل کریں گے، اگرچہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور پی پی پی اتحادی ہے اور میں وقتا فوقتا وزیراعظم شہباز شریف کے علاوہ صوبے کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی وزرا سے ملتا رہتا ہوں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرابو ظہبی ٹی 10 میں کھیلنا خوش گوار تجربہ ہے ،امریکی کھلاڑی آرون جونز اے این پی کی 28 ویں ترمیم کی مشروط حمایت، خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ وزیراعظم نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ریٹ کم کرنے کی ہدایت جاری کردی پنجاب اسمبلی میں نومنتخب ارکان نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا وفاقی ترقیاتی ادارے میں تقرر و تبادلے،متعدد افسران کو اضافی چارج مل گئے عوام کے لیے خوشی کی خبر، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکان فافن نے 23 نومبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات مجموعی طور پر بہتر قرار دے دیئے، رپورٹ جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم