وفاقی اور صوبائی اینٹی ریپ قانون میں تضاد کس نے دیکھنا ہے؟ جسٹس عالیہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-08-16
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) اینٹی ریپ ایکٹ پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک کیلیے ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ نے اینٹی ریپ ایکٹ پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی اینٹی ریپ کے قانون میں تضاد کوکس نے دیکھنا ہے۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل پاکستان کہاں ہیں؟ جبکہ سرکاری وکیل کو ہدایت دی گئی کہ اٹارنی جنرل کاپتا کریں کہ وہ کہاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں تو اٹارنی جنرل نے اینٹی ریپ ایکٹ کی مختلف دفعات کے بارے میں عدالت کی معاونت کرنا تھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوگئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ڈویژن بینچ میں مصروفیت کی بنا پر عدالت تاخیر سے پہنچے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔ ملزم واجد علی نے ضمانت کیلیے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل اینٹی ریپ چیف جسٹس
پڑھیں:
5 ججز کی انٹرا کورٹ اپیل کی وفاقی آئینی عدالت میں سماعت آج ہوگی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(آن لائن)ججز ٹرانسفر کیس میںاسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی ٹرانسفر کیس میں انٹرا کورٹ اپیل کی وفاقی آئینی عدالت میں سماعت آج پیر 24 نومبر کو ہوگی،ججزنے اس اقدام کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا، ججزکی درخواست پر سپریم کورٹ کی جانب سے اعتراض عائدکیے جانے کاامکان ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے وفاقی آئینی عدالت میں ایک متفرق درخواست دائر کی، جس میں انہوں نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ سے آئینی عدالت منتقل کیے جانے کو چیلنج کیا ہے۔یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ثمن رفت امتیاز اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے دائر کی گئی۔یہ کیس دیگر ہائی کورٹس کے 3 ججوں کے وفاقی دارالحکومت میں تبادلے سے متعلق ہے۔جون میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے قرار دیا تھا کہ ان کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 5 ججوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔تاہم اب یہ انٹرا کورٹ اپیل وفاقی آئینی عدالت میں مقرر کی گئی ہے، جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کیا گیا تھا اور 24 نومبر کو اس کی سماعت ہونا ہے۔متفرق درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے وفاقی آئینی عدالت سے اپیل واپس سپریم کورٹ بھیجنے کی استدعا کی اور ساتھ مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ آئینی طور پر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ اپیل کو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت منتقل کیا گیا، تاہم درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ خود یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ آئین نے واضح طور پر ریاست کے 3 بنیادی ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا تعین کیا ہے اور ہر ایک کے اختیارات و حدود مقرر کیے ہیں۔ججوں کا مؤقف تھا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے، لیکن اس اختیار کو عدلیہ کے خاتمے، اس کی ازسرنو تشکیل، یا اس کی بنیادی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عدلیہ آئینی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے۔