data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251125-01-21
لاہور(نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا تبدیل ہورہی ہے امت مسلمہ کو بھی بدلتے حالات کے مطابق اپنا لائحہ عمل بناناہوگا۔ امت کا جسم زخمی اور روح گھائل ہوچکی ہے ۔ عالم اسلام کو اس وقت فلسطین ،کشمیر ،روہنگیا اور سوڈان سمیت بے شمار مسائل کا سامنا ہے ۔ان مسائل کو حل کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے ۔فلسطین ورلڈ آرڈر کی مثال بن چکا ہے ،کشمیر میں بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے اور روہنگیا مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام کیا جارہا ہے ۔مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرانا اور مسلمانوں کو ظلم وجبر سے نجات دلانے کے لئے عالم اسلام کو متحد ہونا پڑے گا۔جماعت اسلامی تمام اسلامی ممالک کے مسائل کو اجاگر کرکے ان کا حل پیش کرنے کے لئے پاکستان میں دفتر کھولنے کے لئے تیار ہے ۔پاکستان کی چھتری کے نیچے دنیا کے مسائل کے حل کے لئے کوئی لائحہ عمل دینا ہوگا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں عالمی گول میز کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔کانفرنس سے سابق وفاقی وزیر و عالمی امور کے ماہر مشاہد حسین سید ، ریورینڈ فرینک چیکین، یورپی پارلیمان کے رکن مسٹر برہان کیاترک ،فلسطین سے مسٹر سمیع الآرائیں ،یوکے سے ڈاکٹر انس التکریتی ،امریکا سے معروف کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی ، ڈاکٹر شائون کنگ ،چیئرمین نیو ویلفیئر پارٹی ترکیہ مسٹر فاتح اربکان،برازیل سے مسٹر تھیگو اویلا،،ملائیشین پارلیمان کے رکن دیتو حجاح ممتاز،یوکے سے مسٹرلیوران بوتھ سمیت معروف عالمی رہنمائوں نے خطاب کیا ۔ عالمی گول میز کانفرنس میں 40سے زاید ممالک کے مندوبین شریک ہیں۔کانفرنس میں حریت کانفرنس کے کنوئنیر غلام نبی فائی، ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے نذیر قریشی ، مزمل ایوب ٹھاکر، سابق امیر کشمیر جماعت عبدالرشید ترابی، نائب قیمہ ثمینہ سعید اور دیگر راہنما بھی شریک ہوئے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ آج جمع ہونے کا ہمارا مقصد انسانیت کو درپیش مسائل سے آگاہ کرنا ہے ۔ دنیا میں چلنے والا نظام عام انسانوں کو ریلیف دینے میں ناکام ہوگیا ہے ۔عالمی سطح پرسیاسی و معاشی حالات عام آدمی کے لئے ساز گار نہیں ہیں ۔کارپوریٹ سیکٹر صرف طاقتور کے ہاتھ میں ہے ۔سیاست پر طاقتورمافیاز کا قبضہ ہے۔عالمی سامراج دنیاکے ہرملک خاص طور پر مسلم ممالک کی سیاست کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے ۔ مسلم ممالک کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔غزہ پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے۔ہمیں دو ریاستی حل کے بجائے صرف ایک ریاست فلسطین کی بات کر نا چاہئے ،دوریاستی حل کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے ۔ہمار ا مطالبہ ہے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے مگراقوام متحدہ اور سلامتی کونسل معذور ہوچکی ہیں اورصرف طاقتوروں کے اشاروں پر چلتی ہے۔اقوام متحدہ نے آج تک کسی مسلم مسئلے کو حل نہیں کیا ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمیں اسلامی ممالک کے درمیان مسائل کے حل کیلئے ایک مکمل حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کے جھوٹے پروپیگنڈہ کو ختم کرنے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں ۔اسلام ہر صورت میں سب کو مساوی حقوق دیتا ہے۔انسانیت کا تقدس عالمی نعرہ ہونا چاہیے۔ طاقتور قانون سے بالاتر نہیں ان کا احتساب ہونا چاہیے ،ان کو کسی قسم کا استثنیٰ نہیں ملنا چاہئے۔نئی نسل کو تباہی سے بچانے کی ضرورت ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ اسلامی تحریک کی کامیابی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔اسلامی ممالک کے مسائل کے حل کے لئے مشترکہ پالیسی اپنانا ہوگی۔ بین الاقوامی امور کے ماہر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکا اور یورپ تنزلی کی طرف جارہا ہے ،جس کا ثبوت یہ ہے کہ لندن کے بعد نیویارک میں بھی مسلم میئر کامیاب ہوا۔ معاشی و سیاسی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہورہی ہے ۔ دنیا میں پاکستان ،ملائشیا ،انڈو نیشیا ،ترکیہ ،ایران سعودی عرب کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ غزہ میں اسرائلی درندگی کا حماس نے ڈٹ کر مقابلہ کیاجس کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا فلسطین کے ساتھ تعلق بہت گہرا ہے کیونکہ 1940ء میں قرار داد پاکستان کے ساتھ قرارداد فلسطین بھی منظور ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمن فلسطین اور کشمیر سمیت عالم اسلام کے مسائل کو اجاگر اور ان کے حل کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دل میں امت کا درد ہے اور اس کے لیے ہر جگہ آواز بلند کرتے ہیں ۔
لاہور(نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بین الاقوامی گول میز کانفرنس نے کہا ہے کہ فلسطین اور مسئلہ کشمیرکے باعت مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا ممکنہ ایٹمی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں، عالمی امن و سلامتی کی خاطر دونوں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے،کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے لاہور اعلامیہ میںاو آئی سی پر زورد یا گیا ہے کہ وہ سوڈان میں جاری المناک صورتحال میں مداخلت کر کے تنازعہ کا پرامن حل تلاش کرے، مسلم امہ کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے عالمی سطح پر رسائی اور فالو اپ اقدامات کو مربوط کرنے کی خاطر پاکستان میں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا یہ اقدام ایک سالانہ یا دو سالہ فورم کی شکل اختیار کرے گا، جس میں ملائیشیا کو اگلے میزبان ملک کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، جماعت اسلامی کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں ” صرف ایک عالمی آرڈر کی تلاش ”کے عنوان سے ایک بین الاقوامی گول میز کانفرنس ہوئی ، کانفرنس سے امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان ، سابق وفاقی وزیر و عالمی امور کے ماہر مشاہد حسین سید ، ریورینڈ فرینک چیکین، یورپی پارلیمان کے رکن مسٹر برہان کیاترک ،فلسطین سے مسٹر سمیع الآرائیں ،یوکے سے ڈاکٹر انس التکریتی ،امریکہ سے معروف کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی ، ڈاکٹر شائون کنگ ،چیئرمین نیو ویلفیئر پارٹی ترکیہ مسٹر فاتح اربکان،برازیل سے مسٹر تھیگو اویلا،،ملائیشین پارلیمان کے رکن دیتو حجاح ممتاز،یوکے سے مسٹرلیوران بوتھ سمیت معروف عالمی رہنمائوں نے خطاب کیا۔ عالمی گول میز کانفرنس میں 40سے زائد ممالک کے مندوبین شریک ہوئے۔کانفرنس میں ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے نذیر قریشی ، مزمل ایوب ٹھاکر، سابق امیر کشمیر جماعت عبدالرشید ترابی، نائب قیمہ ثمینہ سعید اور دیگر راہنما بھی شریک ہوئے۔کانفرنس کے بعد نونکاتی لاہور اعلامیہ جاری کیا گیا جس میںاس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی نظام، جو نوآبادیاتی پس منظر اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی طاقتوں کے توازن پر مبنی ہے، انصاف، مساوات یا پائیدارامن فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عالمی ادارے اب بھی تاریخی طاقتوں کی عدم توازن کی عکاسی کرتے ہیں، جس سے بین الاقوامی قوانین کا مخصوص استعمال، اقتصادی تفاوت میں اضافہ، اور اخلاقی، سماجی، اور ماحولیاتی عدم توازن گہرا ہوا ہے۔ انسانیت اب ایک تہذیبی موڑ پر کھڑی ہے جس کے لیے عالمی حکمرانی کی اخلاقی اور ساختی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔اسلام نسل، زبان یا رنگ سے قطع نظر انسانیت کی نجات کا وڑن پیش کرتا ہے۔ یہ ایک جامع نظام ہے جو انصاف، ہمدردی، مساوات اور ذمہ داری پر بنایا گیا ہے۔ کانفرنس نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ فلسطین ایک مقبوضہ سرزمین ہے اور فلسطینی عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے تحت مزاحمت کا حق حاصل ہے،اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 16 ٹھوس قراردادوں کے تحت بین الاقوامی قانون کی حیثیت حاصل ہے جو کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حق خودارادیت جو فلسطینیوں اور کشمیریوں کو سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل دیا گیا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اس حق سے انکار نے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کا خطہ دونوں کو ممکنہ ایٹمی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ بین الاقوامی امن اور سلامتی کی خاطر دونوں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ سوڈان میں جاری المناک صورتحال میں مداخلت کرے جس میں 150,000 سے زائد معصوم جانوں کی ہلاکت اور تباہی ہو چکی ہے اور تنازعہ کا قبل از وقت اور پرامن حل تلاش کرنا چاہیے جو ریاست کے اداروں کو محفوظ رکھے اور سوڈانی عوام کی خودمختاری کا احترام کرے۔اعلامیہ میں انصاف (عدل)، مشترکہ انسانی وقار، اخلاقی جوابدہی، اور پرامن بقائے باہمی پر قائم عالمی نظام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ قوموں کی ایک برادری کا تصور کرتا ہے جو تسلط یا مادی مسابقت سے نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری، ہمدردی، اور مساوات، پائیداری، اور انسانی یکجہتی کے لیے ایک عالمگیر وابستگی سے منسلک ہے۔ اعلامیہ میں اصلاح کے لیے 5 اہم تجاویر پیش کی گئیں ہیں جن میں بین الاقوامی اداروں کی تنظیم نو: اقوام متحدہ اور مالیاتی اداروں کو جمہوری بنانا، ویٹو کو ختم کرنا، اور مساوی نمائندگی کو یقینی بنانا۔ قدرتی وسائل پر خودمختاری: وسائل کے کنٹرول، منصفانہ تجارت، اور پائیدار انتظام کے قومی حقوق کی تصدیق۔ وسائل اور ٹیکنالوجی کی مساوی منتقلی: قرض سے نجات، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور منصفانہ فنانسنگ کے ذریعے عالمی سطح پر دوبارہ تقسیم کا آغاز۔ انحصار اور نو سامراج کا خاتمہ: کثیر القومی کارپوریشنز کو منظم کرنا، علاقائی خود انحصاری کو فروغ دینا، اور مقامی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا اور اخلاقی اور روحانی بنیادیں: عالمی نظاموں میں اخلاقی حکمرانی، احتساب، بین المذاہب تعاون، اور روحانی تجدید کو سرایت کرنا۔اعلامیہ کے آخر میں آگے کے لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور، پاکستان میں جماعت اسلامی کے صدر دفتر میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا تاکہ عالمی سطح پر رسائی اور فالو اپ اقدامات کو مربوط کیا جا سکے۔ یہ اقدام ایک سالانہ یا دو سالہ فورم کی شکل اختیار کرے گا، جس میں ملائیشیا کو اگلے میزبان ملک کے طور پر تجویز کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں تمام اقوام سے مشترکہ اخلاقی اقدار، عالمی اداروں کی اصلاح اور ایک منصفانہ اور انسانی عالمی نظام کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے پر زور دیاکیا گیا ہے۔ٹائم لائنز کے ساتھ عملی لائحہ عمل جلد ہی تمام شراکت داروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام عالمی گول میز کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کررہے ہیں

 

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عالمی گول میز کانفرنس حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے پارلیمان کے رکن بین الاقوامی عالمی سطح پر کانفرنس میں اقوام متحدہ اعلامیہ میں کی ضرورت ہے کانفرنس کے کیا گیا ہے لائحہ عمل گیا ہے گیا ہے کہ نے کہا کہ کیا جائے ممالک کے کے مسائل مسائل کو کہا گیا عالمی ا کے ساتھ کرنے کی یوکے سے کے بعد کے لیے ہے اور کے لئے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کےزیر اہتمام بین الاقوامی گول میز کانفرنس، دنیا بھر سے اہم شخصیات کی شرکت

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ عالمگیر نظام ناکام ہو چکا ہے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل طاقتور ممالک کے دباؤ کے باعث مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں اور غزہ اس ناکامی کی سب سے واضح مثال ہے جہاں طاقت اور مفاد نے انصاف کو بے معنی بنا دیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام  بین الاقوامی گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب میں سابق سینیٹر اور امورِ خارجہ کے ماہر مشاہد حسین سید سمیت  دنیا کے مختلف خطوں اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔

اپنے خطاب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد انسانیت کو درپیش مشترکہ مسائل کو اجاگر کرنا اور مسلم دنیا کے لیے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کے باوجود عام انسان تک اس کے فوائد نہیں پہنچ رہے، سیاسی و معاشی حالات کمزور طبقات کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور مسلم دنیا مختلف بحرانوں کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ، کشمیر، روہنگیا اور سوڈان جیسے مسائل عالمی اداروں کی بے بسی کو نمایاں کرتے ہیں، اس لیے مسلم ممالک کو مشترکہ مؤقف کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان میں ایک ایسا مستقل مرکز قائم کیا جائے جہاں سے مسلم دنیا کے مسائل کو عالمی فورمز تک مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکے۔

سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھارت اور اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کے خلاف تمام مسلم ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ان کاکہنا تھاکہ تمام مسلم ممالک کے درمیان گفتگووشنید، باہمی تعاون  اور ایک نظریہ کے تحت ورلڈ آرڈر کو شکست دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مغرب کی سیاسی و معاشی برتری کمزور ہو رہی ہے جبکہ ترکیہ، ایران، سعودی عرب، پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک عالمی سیاست میں نئی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں۔ 

انہوں نے پاکستان اور فلسطین کے تاریخی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 1940 کی قراردادیں فلسطین اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ کا حصہ ہیں، قائداعظم نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی اور پاکستانی پائلٹوں نے عرب اسرائیل جنگوں میں عملی حصہ لیا۔

ان کے مطابق خطے میں امن فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام اور یروشلم کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بغیر ممکن نہیں۔

کانفرنس میں مختلف ممالک اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے اظہارِ خیال کیا۔ جنوبی افریقہ سے افریقی نیشنل کانگریس اور ورلڈ کونسل آف چرچز کے رہنما ریورنڈ فرینک چیکان شریک ہوئے۔

ترکیہ سے رکنِ پارلیمنٹ برہان کایاتورک اور نیو ویلفیئر پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر فاتح اربکان نے خطاب کیا۔

برازیل سے انسانی حقوق اور ماحولیاتی کارکن تیاقو آویلا نے اپنے خیالات پیش کیے۔ فلسطین سے ڈاکٹر سامی العریان اور شیخ منیر سعید، لبنان سے شیخ عزام ایوبی اور پروفیسر رمیز الطنبور نے شرکت کی۔

ملائیشیا سے داتو حاجہ ممتاز، ڈاکٹر سید عظمٰی، بادشاہی شاہ اور نور جہاں مختلس شریک ہوئے۔

برطانیہ سے براڈکاسٹر و صحافی لارن بوتھ، ڈاکٹر انس التکرتی اور ڈاکٹر زاہد پرویز نے خطاب کیا جبکہ امریکہ سے پروفیسر جان ایسپوسیٹو، شان کنگ اور ڈاکٹر غلام نبی فائی کانفرنس کا حصہ تھے۔

بوسنیا سے جہجا ملہسیلوویا، صومالیہ سے ڈاکٹر محمد حسین عیسیٰ، مراکش سے ڈاکٹر اوس رمال، عراق سے شیخ اسماعیل النجم، شیخ اسیر اصلاحی اور مثنیٰ ایمن، فلپائن سے اسماعیل ابراہیم اور سوڈان سے امین حسن عمر شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی شعبہ امورخارجہ کے سربراہ آصف لقمان قاضی، اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ 

شرکاء نے عالمی سیاسی تبدیلیوں، انسانی حقوق کی صورتِ حال اور مسلم ممالک کے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشترکہ مؤقف اور مربوط سفارتی حکمت عملی ہی مستقبل کے عالمی بیانیے کو بدلنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کےزیر اہتمام بین الاقوامی گول میز کانفرنس، دنیا بھر سے اہم شخصیات کی شرکت
  • آج کی سیاست صرف طاقتوروں کے لیے رہ گئی ہے:حافظ نعیم الرحمٰن
  • حافظ نعیم الرحمن نے’’بدل دو نظام‘‘ تحریک کا اعلان کر دیا
  • اختلاف اور لڑائی تہذیب کیساتھ ہونی چاہیے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • ملک بھر میں ’بدل دو نظام‘ تحریک کا اعلان، حافظ نعیم الرحمان کا اجتماع عام سے اختتامی خطاب
  • امریکی غلامی سے بہت نقصان اٹھایا، کشمیر و فلسطین ہماری ریڈ لائن: حافظ نعیم
  • انتخابی شیڈول کے اعلان تک ہمارا کوئی امیدوار نہیں: حافظ نعیم
  • خاندان‘ وصیت اور وراثت میں چلنے والی پارٹیاں کبھی انقلاب نہیں لاسکتیں‘حافظ نعیم الرحمن
  • خاندانوں، وراثت اور وصیت پر چلنے والے کبھی کوئی بڑا انقلاب نہیں لاسکتے: حافظ نعیم الرحمٰن