آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت اب ہندو ریاست بن گیا ہے، جہاں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔سیکولر بھارت کو بی جے پی نے طاقت زور زبردستی بدمعاشی سے ہندوتوا نظریہ پرچار کر کے اقلیتوں کے حقوق غصب کر لیے ہیں۔پھر بھی بھارتی انتہا پسند ہندو پنڈت یہی کہتے ہیں کہ بھارت خطرے میں ہے کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے بر عکس بھارت میں ہندووں کی آبادی سب سے زیادہ ہے ۔ایک سروے کے مطابق بھارت کی مجموعی آبادی کے حوالے سے مستند اعدادوشمار کے مطابق 2011کی سرکاری مردم شماری میں ملک کی آبادی تقریباً 21ئ1 بلین ریکارڈ کی گئی، جب کہ بین الاقوامی اداروں اور اقوامِ متحدہ کے تخمینوں کے مطابق 2025 تک بھارت کی آبادی بڑھ کر تقریباً46 ئ1 بلین تک پہنچ چکی ہے ۔ اسی مردم شماری کے مطابق ہندو آبادی ملک کی کل آبادی کا 79۔8 فیصد تھی، جو تعداد میں تقریباً 966۔3 ملین بنتی ہے ، جب کہ مسلمانوں کی آبادی 14۔23 فیصد یعنی تقریباً 172۔2 ملین درج کی گئی۔ تازہ بین الاقوامی تخمینوں میں مسلمانوں کی موجودہ آبادی تقریباً 200ملین تصور کی جاتی ہے ، اور ہندو آبادی کا تناسب بدستور 80فیصد کے قریب برقرار ہے ۔ یہ تمام اعدادوشمار اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اکثریتوں میں سے ایک ہے ، جب کہ اقلیتیں مجموعی طور پر تقریباً 20فیصد کے قریب آبادی کا حصہ ہیں۔بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ میں تاج محل کی پارکنگ کے قریب ایک مسلمان بزرگ محمد رئیس کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ‘جے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنا صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہندوستان میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت، سماجی تقسیم اور ہندوتوا کے جارحانہ بیانیے کا وہ کڑوا ثبوت ہے جو گزشتہ چند برسوں میں مسلسل گہرا ہوتا جا رہا ہے ۔ اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک کمزور، حیران اور خوف میں ڈوبے بزرگ کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں ان کی شناخت، مذہب اور عقیدے کی توہین پر مجبور کیا گیا۔ اس ایک لمحے میں پورا وہ درد سمٹ آیا ہے جو آج بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے، وہ درد جسے دنیا ملاحظہ تو کرتی ہے مگر اس کے خلاف آوازیں بہت کم اٹھتی ہیں۔وائرل ویڈیو میں بارہا دیکھا گیا کہ ایک شخص بزرگ شہری محمد رئیس کو جو برسوں سے سیاحوں کو تاج محل لے جانے والے کیب ڈرائیور ہیں نعرہ لگانے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے ۔ انکار کرنے پر انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ویڈیو انسٹاگرام پر اس دعوے کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہے کہ چند دن میں رئیس کو یہ نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ یہ عمل محض ایک دوسرے انسان کی تذلیل نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور بڑھتے ہوئے انتہا پسند ذہن کی کھلی علامت ہے جو اقلیتوں کے لیے خوف کی فضا مزید گہری کرتا جا رہا ہے ۔
پولیس نے مقدمہ تو درج کرلیا، مگر کسی ملزم کی عدم گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ریاستی اداروں
کا ردعمل اب بھی کمزور ہے ۔ ہندوستان میں ایسے واقعات کوئی نئے نہیں۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ہندوتوا سے جڑے
تشدد کے کیسز میں 40فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے ، جبکہ اقلیتی گروہوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں 70فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ اعدادوشمار نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بھارتی معاشرہ شدت پسندی کے ایسے چکر میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے فوری اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے ۔ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ تعمیر کیے جانے والے مندر پر آر ایس ایس کا جھنڈا لہرانا بھی اسی بیانیے کی توسیع ہے ۔ یہ فیصلہ نہ صرف سیاسی بلکہ علامتی طور پر بھی ایک واضح پیغام رکھتا ہے کہ ہندوستان اب سیکولر جمہوری اقدار سے ہٹ کر مذہبی اکثریت کے غلبے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بابری مسجد کے انہدام سے لے کر آج تک 1992 میں شروع ہونے والی اس جارحانہ مہم نے بھارت کا سماجی نقشہ بدل دیا ہے ۔ حقوقِ اقلیت پر تحقیق کرنے والے کئی بین الاقوامی ادارے اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ گزشتہ 10برسوں میں بھارت میں مذہبی عدم برداشت کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ، یہاں تک کہ بعض عالمی انڈیکس میں بھارت کو ”ہائی رسک”کیٹیگری میں شامل کر لیا گیا ہے ۔
محمد رئیس کا واقعہ، ایک فرد پر ظلم ہونے کا مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ پورے معاشرتی نظام کی شکستگی کا ہے ۔ جب ایک پارکنگ ایریا میں کھڑے بزرگ کو زبردستی نعرہ لگوانے کی ویڈیو بنا کر یہ ثابت کیا جائے کہ اکثریت اپنی طاقت کو طاقتور تر سمجھتی ہے ، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرہ ایک ایسے خطرناک مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک کمزور شخص کے پاس صرف خوف بچ جاتا ہے ۔ بھارت کے مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے یہ واقعات صرف خبروں کا حصہ نہیں، بلکہ ان کی روزمرہ زندگی کا بڑھتا ہوا خطرہ بن چکے ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق گزشتہ 5 برس میں مسلمان شہریوں کے خلاف تشدد، ہراسانی یا جبری مذہبی نعرے لگوانے کے واقعات میں 30٪ اضافہ ہوا ہے ، جبکہ سوشل میڈیا پر ہندوتوا مہمات کا اثر نوجوان نسل کے رویوں میں بھی نمایاں طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
آگرہ کا یہ واقعہ ہندوستان کی اس سماجی و سیاسی تصویر کا ایک عکس ہے جس میں آزادی، احترام اور مذہبی رواداری کے رنگ تیزی سے پھیکے پڑ رہے ہیں۔ بھارت کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے ، مگر عملی طور پر حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں سیکولرازم کا دعویٰ اب محض سرکاری بیانیہ بن کر رہ گیا ہے ، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اقلیتوں کا اعتماد روز بروز مجروح ہو رہا ہے ۔ایسے واقعات کے نتیجے میں خطے میں موجود کروڑوں مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھر رہا ہے کہ کیا ہندوستان اب بھی گاندھی اور نہرو کا وہ ملک ہے جس کی بنیاد عدم تشدد، رواداری اور ہم آہنگی پر رکھی گئی تھی؟ یا پھر یہ ملک نظریاتی طور پر ایک نئے رخ کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں اقلیتوں کے لیے جگہ تنگ تر ہوتی جا رہی ہے ؟ اس سوال کا جواب بھارت کے سنجیدہ طبقات کو دینا ہوگا، کیونکہ اگر معاشرہ تقسیم کے اس راستے پر بڑھتا رہا تو اس کے اثرات نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ علاقائی امن پر بھی گہرے ہوں گے ۔
آگرہ کے واقعے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے حملے صرف انفرادی تشدد نہیں بلکہ باقاعدہ نظریاتی تحریک کا حصہ ہیں، جسے سیاسی سرپرستی، خاموشی، یا کمزور ردعمل مزید مضبوط بنا دیتا ہے ۔ اگر پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود ملزمان تک نہیں پہنچ پاتی، تو یہ نہ صرف نظامِ انصاف کی کمزوری ہے بلکہ متاثرہ کمیونٹی کے لیے مایوسی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ ایسے ماحول میں اقلیتوں کا سماجی اعتماد ٹوٹتا ہے ، اور عوامی سطح پر خوف اور بے بسی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے سامنے مضبوط حکمت عملی اپنائی جائے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اقلیتوں کی سکیورٹی کے حوالے سے واضح پالیسیاں مرتب کرے ، نفرت انگیز تقاریر اور مذہبی جبر پر سخت کارروائی کرے ، ایسے کیسز میں فوری گرفتاریوں کو یقینی بنائے اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والی انتہا پسند مہمات کا موثر طریقے سے سدباب کرے ۔ میڈیا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی منافرت کے بجائے حقیقت اور انصاف کی آواز بننا چاہیے ، تاکہ معاشرہ مزید تقسیم کا شکار نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والی مہمات کی فوری ضرورت ہے ، تاکہ لوگوں کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ تشدد اور نفرت کسی بھی قوم کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔محمد رئیس جیسے بزرگ شہری کی بے بسی ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اگر معاشرہ خاموش رہا تو کل یہ ظلم مزید بڑھے گا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری قوت سے نبھائیں، قانون کو بلا امتیاز نافذ کریں اور ایسے واقعات کی روک تھام کو قومی ترجیح بنائیں تاکہ ہندوستان میں رہنے والی ہر کمزور آواز محفوظ ہو سکے اور ہر شہری اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ باوقار زندگی گزار سکے ۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ہندوستان میں ایسے واقعات اقلیتوں کے کی آبادی کے مطابق کی طرف گیا ہے کے لیے ہیں کہ رہا ہے
پڑھیں:
عبدالقادر حسن کی یاد میں
آج پانچ برس بیت گئے، 30 نومبر2020 کی ایک خاموش مگر سرد شام کو میرے ابو جی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے اور یکم دسمبر کو انھیں آبائی گاؤں کھوڑہ وادی سون میں اپنے والد کے پہلو میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
مگر ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں، ان کا شمار پاکستان کے اُن کالم نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے صحافت کو محض خبر رسانی یا تبصرہ نگاری نہیں بلکہ تہذیب، زبان، تاریخ اور فکری ارتقاء کے ساتھ جوڑے رکھا۔
ان کے کالم صرف رائے نہیں ہوتے تھے بلکہ قاری کو تہذیبی شعور، سیاسی بصیرت اور لسانی حُسن کا ایک مرکب پیش کرتے تھے۔ ان کی تحریر کے اندر ایک ایسا خلوص، طنز اور فکری گہرائی تھی جو آج خال خال ہی دکھائی دیتی ہے ۔
یہ دنیا لفظوں کی دنیا ہے لیکن ہر شخص کو یہ نعمت نہیں ملی کہ وہ لفظوں سے دلوں کے در کھول سکے۔ عبدالقادر حسن وہ درویش اورقلندر صحافت تھے جنھوں نے لفظوں کو فقط قلم کی زینت نہیں بنایا بلکہ انھیں ایک تہذیب کا نمایندہ، ایک معاشرت کا نقیب اور ایک قوم کا حافظہ بنا دیا۔
وہ کالم نگار نہیں، ایک عہد تھے۔ایک ایسا عہد جس میں صحافت، ادب اور تاریخ ایک صفحے پر یکجا ہو جایا کرتے تھے۔ان کی شخصیت میں ایک عجیب طرح کا وقار اور تنہائی کا بانکپن تھا۔
وہ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان نہیں تھے، کسی مکتبِ فکر کے مبلغ نہیں تھے بلکہ وہ اپنے ضمیر، اپنی بصیرت اور اپنے تجربے کے سفیر تھے۔ ان کی تحریروں میں ایک ایسی خودداری، ایسا اعتماد اور ایسی صداقت تھی جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی۔
کالم نگاری اگر فقط خبر کی تہہ میں چھپے تجزیے کا نام ہے تو عبدالقادر حسن نے اس فن کو نثر کے ایک نئے اسلوب سے نوازا۔ ان کے جملوں میں فارسی اور اردو کے الفاظ اس طرح سے ملتے کہ جیسے کسی پرانی مسجد کی محراب میں روشنی چھن چھن کر آ رہی ہو۔
ان کے ہاںمزاح اورطنزکا رشتہ محض ہنسی کا سامان نہیں بلکہ وہ اس سے معاشرتی زوال پر ایک گہرا نوحہ تحریر کرتے تھے۔انھوں نے کبھی اپنی تحریر کو چیخنے نہیں دیا مگر اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔
ان کا قلم بہت مہذب تھالیکن اس کے وار بہت گہرے ہوتے تھے۔ وہ حکمرانوں پر تنقید کرتے تو تہذیب کی چادر اوڑھ کر اور عوام کی بات کرتے تو درد کی زبان میں۔ وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے، ان کے کالموں میں امید بھی ہوتی تھی اور خبردار کرنے والی چنگاری بھی۔
کالم لکھتے وقت وہ کبھی تیزی نہیں دکھاتے تھے، ان کی رفتار گھوڑے کی نہیں اونٹ کی تھی، متین، بامعنی، گہری اور دوررس۔ ہر کالم ایک ایسا چشمہ ہوتا جو صحافت کے پیاسے قاری کو سیراب کر دیتاتھا ۔
ان کی زبان میں شوخی تھی مگر شائستگی کا ساتھ بھی تھا۔ انھوں نے زبان کو کبھی بازاری نہیں ہونے دیا اور نہ ہی خیالات کو سطحی ہونے دیا۔شاید اس لیے ان کا ہر جملہ آج بھی ایک حوالہ ہے۔
جب سیاست دان اپنی چالاکیوں میں الجھے ہوتے تب عبدالقادر حسن کا قلم ایک ایسا آئینہ بن جاتا جس میں ہر چہرہ بے نقاب ہو جاتا۔ ان کا اندازِ بیان سادہ مگر پرتاثیر، ان کی سوچ نظریاتی مگر زمینی اور ان کی وفاداری صرف سچ اور پاکستان کے ساتھ تھی۔
ان کی زندگی کے آخری برسوں میں جب صحافت کارپوریٹ مشین بن چکی تھی، جب سچ بولنا جرم سمجھا جانے لگا، تب بھی ان کا قلم جھکا نہیں۔ انھوں نے اپنی خودداری، اپنی فکری آزادی اور اپنی صحافتی سچائی کا سودا نہیں کیا اور ان کی تحریریں اس کی گواہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کے جانے کے بعد پاکستانی صحافت کا ایک پورا باب بند ہو گیا۔عبدالقادر حسن کی کمی محسوس ہوتی ہے اور شاید ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی کیونکہ وہ صرف لکھتے نہیں تھے وہ ہمیں آئینہ دکھاتے تھے۔
اور آج جب ہم اُس آئینے سے منہ چُرا رہے ہیں تو ان کے کالموں کی بازگشت ہمیں اپنی اصل یاد دلاتی ہے۔ ان کے دیہی پس منظر، عربی و فارسی کی تعلیم اور کلاسیکی ادب سے گہری وابستگی نے ان کی نثر کو جو تہذیب، وقار اور معنویت عطا کی وہی دراصل ان کی شناخت بنی۔
تحریر کا اصل جوہر اُس وقت نکھرتا ہے جب اس کے پیچھے صرف مشق یا علم نہ ہو بلکہ ایک جیتی جاگتی زندگی، ایک خاص تہذیب، اور گہرے مشاہدے کی آنچ ہو۔ عبدالقادر حسن انھی چند گنے چنے اصحابِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے کالم نگاری کو محض تجزیے کا میدان نہیں رہنے دیا بلکہ اسے تہذیبی فہم، لسانی، جمالیات اور فکری گہرائی کا مرکب بنا دیا۔
وہ گاؤں کے باسی تھے مگر ان کی تحریر شہروں کی فصیلوں سے بلند اور تاریخ کے دریچوں سے آشنا تھی۔ان کے قلم کی بنیاد صرف اردو زبان پر نہیں تھی بلکہ انھوں نے باقاعدہ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں ایک ایسا بانکپن، ایک ایسی کلاسیکی سنجیدگی اور لسانی لطافت نظر آتی ہے جو آج کے بیشتر کالم نگاروں کی تحریر میں مفقود ہے۔ وہ فارسی کے اشعار کو فقط برائے وزن،ِ بیت استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اشعار ان کے فکر کا نچوڑ، ان کی دلیل کا حُسن اور ان کے کالم کا روحانی عکس ہوتے تھے۔
ان کی تحریر میں اگرچہ طنز کی کاٹ موجود تھی مگر اس کا آہنگ ہمیشہ شائستہ اور اس کی بنیاد ہمیشہ فکری صداقت پر ہوتی تھی۔ ان کے کالموں میں جہاں معاصر سیاست کا جائزہ ہوتا، وہیں کسی گوشہ نشین صوفی کی بات یا کسی فارسی شاعر کا مصرعہ اُس تحریر کو روحانی بُعد دے دیتا۔ مثلاً جب وہ غالب، سعدی یا حافظ کو کوٹ کرتے تو محض اس لیے نہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہو بلکہ اس لیے کہ وہ خود اُن اشعار کو جِیا کرتے تھے۔
ایک دیہاتی کا تہذیب یافتہ ہونا، صرف لباس یا زبان سے ثابت نہیں ہوتا، وہ اس کی سوچ، اس کے رویے اور اس کی تحریر میں جھلکتا ہے۔ عبدالقادر حسن اس کی بہترین مثال تھے۔ ان کے ہاں دیہات کی سادگی، زمین کی خوشبو اور روایتی علم کا وقار سب ایک ساتھ چلتے تھے۔
وہ سیاسی مسائل پر لکھتے مگر انداز بیان ایسا ہوتا جیسے کوئی بزرگ داستان گو اپنے پوتوں کو کسی پرانی جنگ کا قصہ سنا رہا ہو۔ان کی عربی و فارسی کی تعلیم نے انھیں صرف زبان نہیں دی بلکہ اُن زبانوں کی تہذیب، صبر، لطافت اور علم سے آشنا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے کالم پڑھتے ہوئے قاری کو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ صرف خبر نہیں پڑھ رہا بلکہ وہ کسی فکری مجلس میں شریک ہے۔ ان کی تحریر میں ماضی کا وقار، حال کا تجزیہ اور مستقبل کی بصیرت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عبدالقادر حسن کبھی لفاظی کے اسیر نہ ہوئے۔ انھوں نے زبان کو بوجھل نہیں ہونے دیابلکہ سادگی اور شائستگی کے ساتھ اپنی بات اس انداز میں کہی کہ نہ صرف عام قاری اُن سے وابستہ رہا بلکہ خواص بھی ان کی تحریر کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
وہ ایک ایسی دنیا کے نمایندہ تھے جو آج معدوم ہو رہی ہے جہاں علم ادب سے جُڑا ہوتا تھا اور قلم ضمیر سے۔عبدالقادر حسن چلے گئے لیکن ان کا لہجہ آج بھی اُن کے جملوں میں زندہ ہے۔ وہ لہجہ جس میں ایک دیہاتی کی معصومیت، ایک عالم کی گہرائی اور ایک صوفی کی خامشی بولتی تھی۔ ان کا فراق محض ایک صحافی کی موت نہیں بلکہ ایک تہذیب کے قافلے کا توقف ہے۔