مودی دور میں ہندوتوا نظریہ مضبوط، اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہوگئیں
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
بھارت میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک تازہ بحث نے شدت اختیار کر لی ہے، جہاں مختلف انسانی حقوق تنظیموں اور سکھ، مسلمان اور دیگر اقلیتی حلقوں کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
ناقدین کے مطابق بھارتی فوج اور ریاستی اداروں کو ہندوتوا نظریے کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے ملک کے سیکولر تشخص پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اقليتی رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ آر ایس ایس اور مودی حکومت کے گٹھ جوڑ نے ریاستی اداروں کے سیاسی استعمال کو بڑھایا ہے، جبکہ مذہبی آزادی کے ماحول پر دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے۔
ناقدین کا دعویٰ ہے کہ رام مندر کی تعمیر اور اس مقام پر فوجی نمائندوں کی موجودگی بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی سیاست کی عکاس ہے۔
اس حوالے سے متعدد مذہبی اور سماجی تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد رام مندر کا قیام بھارت میں بڑھتے ہوئے نظریاتی تنازعات کو نمایاں کرتا ہے۔
ان کے مطابق عسکری قیادت کی طرف سے مندروں کے دورے اور سرکاری سطح پر ہندوتوا نظریہ کے فروغ کے اشارے ملک میں اقلیتوں کے لیے عدم تحفظ کے احساس کو بڑھا رہے ہیں۔
انسانی حقوق ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی معاشرتی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مضبوط اقدامات ناگزیر ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت میں اسلاموفوبیا اور تاریخی اسلامی ورثے کی توہین، پاکستان کی عالمی برادری سے نوٹس لینے کی اپیل
اسلام آباد:پاکستان نے عالمی براداری سے اپیل کی ہے کہ بھارت میں بڑھتی اسلاموفوبیا اور تاریخی اسلامی ورثے کی توہین پر نوٹس لیا جائے۔
دفتر خارجہ سےجاری بیان کے مطابق پاکستان نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ تعمیر کیے گئے نام نہاد ’رام مندر‘ پر جھنڈا لہرانے کے واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، بابری مسجد صدیوں قدیم عبادت گاہ تھی لیکن 6 دسمبر 1992 کو انتہا پسند ہجوم نے منہدم کیا، جنہیں فاشسٹ نظریات نے ہوا دی۔
بعد ازاں بھارت میں عدالتی کارروائیوں کے ذریعے ملزمان کو بری کیے جانے اور انہی کھنڈرات پر مندر کی تعمیر کی اجازت نے بھارتی ریاست کے اقلیتوں سے امتیازی سلوک کو واضح کر دیا ہے۔
دفترخارجہ نے بتایا کہ یہ واقعہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے دباؤ اور مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی ورثے کو مٹانے کی منظم کوششوں کا حصہ ہے، جسے اکثریتی ہندو قوم پرست نظریے (ہندوتوا) کی پشت پناہی حاصل ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارت میں متعدد دیگر تاریخی مساجد کو بھی اسی طرح کے خدشات کا سامنا ہے، بھارتی مسلمان معاشی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں مسلسل حاشیے پر دھکیلے جا رہے ہیں۔
دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان کی عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے نوٹس لینے کی اپیل ہے کہ بھارت میں بڑھتی اسلاموفوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں پر حملوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور اسلامی ورثے کے تحفظ میں مؤثر کردار ادا کریں۔
بیان میں بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے تحت تمام مذہبی برادریوں، خصوصاً مسلمانوں کی سیکیورٹی یقینی بنائے اور ان کی عبادت گاہوں کا مکمل تحفظ کرے۔