رام مندر پر آر ایس ایس کا جھنڈا، بھارت میں اقلیتوں کے خدشات بڑھ گئے
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
بھارت میں ہندوتوا بیانیے اور اقلیتوں کے حوالے سے ایک نئی بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ایودھیا میں رام مندر پر آر ایس ایس کا جھنڈا لہرانے کی تقریب کو مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کی بڑھتی ہوئی قربت اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
تنقیدی آوازوں کے مطابق، رام مندر کی تعمیر اور بابری مسجد کی شہادت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور اسے ایک قومی جشن کا رنگ دے کر مذہبی اقلیتوں کے جذبات کو نظر انداز کیا گیا۔ ناقدین مزید الزام لگاتے ہیں کہ رام مندر کا قیام آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریاتی اثرات کے تحت ممکن ہوا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ایودھیا کا یہ موقع بھارت کی ثقافتی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اسے "نئے دور کی شروعات" قرار دیتے ہوئے کہا کہ رام مندر 140 کروڑ بھارتی شہریوں کے لیے قومی فخر کی علامت ہے۔
تاہم بھارت کے مختلف سیاسی و سماجی حلقے اس پیش رفت کو اقلیتوں میں تشویش پیدا کرنے والا عمل قرار دے رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی پولرائزیشن اور ہندوتوا سوچ اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادیوں کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقلیتوں کے آر ایس ایس کے لیے
پڑھیں:
’مردہ‘ قرار دی خاتون تدفین سے کچھ لمحے پہلے دوبارہ جی اٹھیں
تھائی لینڈ (ویب ڈیسک) مردہ قرار دی جانے والی 65 سالہ خاتون کے تدفین سے قبل دوبارہ اٹھ جانے پر لوگ ششدر رہ گئے۔خاتون کو اہلِ خانہ پہلے ہی مردہ سمجھ چکے تھے، اور انھیں دفنانے کی تیاریاں جارہ تھیں کہ چند لمحے پہلے تابوت کے اندر جاگ اُٹھیں اور یوں بال بال بچ گئیں۔
شمالی تھائی لینڈ کے صوبے پھتسانُلوک میں چنتھیروت نامی خاتون کو اتوار کی صبح 2 بجے گھر پر بے ہوش پایا گیا۔ وہ بالکل بے حرکت تھیں، سانس محسوس نہیں ہو رہی تھی، جس پر اہلِ خانہ نے گمان کرلیا کہ وہ انتقال کر چکی ہیں۔
اگلے ہی دن گھر والوں نے مقامی مندر میں اُن کی آخری رسومات کا انتظام کرلیا، جہاں مالی مشکلات کے شکار لوگوں کے لیے مفت تدفین کی سہولت موجود ہے۔ خاتون کو سفید تابوت میں رکھ کر ٹرک کے ذریعے چار گھنٹے کا سفر طے کرکے مندر پہنچایا گیا۔
لیکن اصل ڈرامہ اُس وقت شروع ہوا جب مندر کے ایک کارکن نے تابوت کو ٹرک سے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اُسے اندر سے دھیمی دستک اور مدھم آواز سنائی دی۔
تھمّانون نامی کارکن نے مقامی میڈیا کو بتایا ’’میں نے کپڑا ہٹایا تو میرے ہوش اُڑ گئے… خاتون ہل رہی تھیں۔ وہ ہوش میں تھیں، آہستہ سانس لے رہی تھیں، سر ہلا رہی تھیں، مگر بول نہیں پا رہی تھیں۔‘‘
فوراً ایمبولینس بلائی گئی اور چنتھیروت کو اسپتال منتقل کردیا گیا۔ مندر کی انتظامیہ نے ہی اُن کے علاج کا خرچ اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی۔
خاتون کے 57 سالہ بھائی مونگکول کا کہنا تھا ’’میں شاک میں تھا، حیران بھی اور خوش بھی کہ میری بہن ابھی زندہ ہے… میں تو خوشی اور حیرت دونوں سے تقریباً بے ہوش ہونے والا تھا۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘
اہلِ خانہ نے بتایا کہ چنتھیروت دو سال سے بیماری کی وجہ سے بستر پر تھیں، اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی سانس اور حرکت نہ محسوس ہونے پر سب نے سمجھا کہ وہ دنیا چھوڑ چکی ہیں۔