ایودھیا میں رام مندر کی تکمیل کے موقع پر دھواج روہن تقریب منعقد ہوئی، اسی جگہ جہاں 1992 میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔ ماہرین اور نقادوں کے مطابق 1992 کے اس حملے کو آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے منظم اقدامات کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، تاہم آج اسے ’تہذیبی فتح‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے پہلے بابری مسجد کی شہادت کو غیر قانونی قرار دیا تھا، لیکن زمین کو مندر کو دینے کے فیصلے سے ہجوم کے تشدد کو سزا کے بجائے انعام میں بدل دیا گیا۔ جس مقام پر کبھی اذان کی آواز سنائی دیتی تھی، آج وہاں ہندوتوا کے سیاسی نعرے لگ رہے ہیں۔

ایودھیا ماڈل کے بعد انتہاپسند تنظیمیں دیگر مقامات جیسے گیان واپی اور متھرا میں بھی ’مندر ہونے‘ کے دعوے کر کے دباؤ بڑھا رہی ہیں۔ کئی ریاستوں میں مساجد کے باہر جمعہ اور عید کی نماز روکنے کی مہمیں جاری ہیں، جس سے مسلمانوں کو عبادت گاہوں تک محدود رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق، یوپی، ایم پی اور دہلی میں ’بلڈوزر راج‘ کے نام پر مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور بستیوں کا انہدام بھی ہندوتوا پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ دہلی فسادات، ٹارگٹڈ لنچنگز اور پولیس کے سامنے ہجوم کے تشدد سے مسلمان مسلسل غیر محفوظ اور مشکوک حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔

گاؤ رکھشا اور ’لو جہاد‘ کے نام پر بے شمار مسلمانوں کو ہجوم نے مارا پیٹا، جبکہ بھارتی ریاست کی خاموشی اس بیانیے کو مزید مضبوط کرتی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں، ٹی وی ڈیبیٹس اور سوشل میڈیا مہمات ہندوتوا منصوبے کی انفارمیشن وار  کا حصہ بن چکی ہیں۔

منی پور میں عیسائیوں کے خلاف تشدد، گرجا گھروں کو جلانا اور خواتین کی تذلیل، ہندوتوا پروجیکٹ کے بڑے نقشے کا حصہ ہیں، جس میں ہر اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کے اقدامات سے مسلمانوں کو بے دخل اور بے وطن بنانے کی طویل المدتی حکمتِ عملی واضح ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق آج ایودھیا میں مندر کی تکمیل، بابری مسجد کی شہادت سے شروع ہونے والے ہندوتوا پروجیکٹ کی علامتی تکمیل کے مترادف ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی عمارت نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخی مسجد کی جگہ پر قائم سیاسی اسٹیٹس سمبل ہے، جس کے پیچھے آر ایس ایس کا پورا نظریاتی ایجنڈا کارفرما ہے۔

عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عمل کو سمجھے، کیونکہ بابری مسجد سے رام مندر تک کا سفر بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک مثال بن چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایودھیا رام مندر ہندوتوا پروجیکٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایودھیا

پڑھیں:

دیوبند کا سب سے بڑا محسن : محمد علی جناح

یہ نہ کوئی جذباتی بات ہے نہ مبالغہ، یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ دیوبند کے سب سے بڑے محسن قائد اعظم تھے۔ محترم ابوالکلام آزاد نے بھلے یہ بات اپنی پیش گوئیوں میں نہ لکھی ہو لیکن ایک وقت آئے گا دیوبند اس حقیقت کا اعتراف بھی کرے گا اور قائد اعظم کا شکریہ بھی ادا کرے گا۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ قائد اعظم نہ ہوتے تو 1894 میں پرائیوی کونسل کی جانب سے و قف علی الاولاد  کو فراڈ قرار دینے کے بعد مسلمانوں کے عام اوقاف کے لیے بھی خطرات پیدا ہو گئے تھے اور  آگے چل  کر دارالعلوم دیوبند  سمیت کسی بھی ایسے ادارے کا باقی رہنا ہی مشکل ہو جانا تھا جو وقف کے اسلامی اصول کے تحت قائم ہوا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی رائے کو بھونکنے دو

 یہ قائد اعظم تھے جو اس برطانوی فیصلے کے خلاف کھڑے ہو گئے اور ایک طویل سیاسی ، قانونی اور پارلیمانی  جدوجہد کے بعد 1913 میں برطانوی امپیریل لیجسلیٹو کونسل سے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے  اس فیصلے کو کالعدم قراار دلواتے ہوئے مسلمانوں کے وقف کو قانونی تحفظ  فراہم کیا ۔

قائد اعظم کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ اصل میں مسلمانوں کی کامیابی تھی۔  لیجسلیٹو کونسل میں ایک رکن نے قائد اعظم کو مبارک دیتے ہوئے کہا: جناح نے تاریخ رقم کر دی۔ یہ الگ بات کہ دیو بند کے اکابرین نے شاید ہی کبھی  اپنے طلبا کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس کی ہو کہ دیوبند سمیت مسلم وقف کے تحت قائم ہزاروں اداروں کا ایک خاموش محافظ اور محسن تھا جس کا نام محمد علی جناح تھا۔

 پچھلے سال بھارت نے قائد اعظم کے بنوائے 1913 کے اسی قانون میں کچھ تبدلیاں کیں تو دیوبند کے  وائس چانسلر  نے اسے مسلمانوں کے مذہبی ورثے پر حملہ قرار دیا اور مدنی صاحب نے سپریم کورٹ جا کر کہا کہ اس قانون میں تبدیلی سے مسلمانوں کی مساجد باقی بچیں گی نہ دیگر مذہبی مقامات ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قائد اعظم کے بنوائے گئے اس قانون میں تبدیلی مسلم ورثے پر حملہ ہے توقائد اعظم کو مسلمانوں کے مذہبی ورثے کا محافظ قرار دینے میں کیا  مسئلہ ہے؟ قائد اعظم کے بنوائے گئے قانون میں اگر صرف ترمیم سے ہی مدارس اور مساجد کو  اتنا خطرہ ہے تو ان مدارس اور مساجد کے تحفظ کی خاطر قائد اعظم کے اس تاریخی کردار کی تحسین کر لینے میں کون سی رکاوٹ ہے؟

مزید پڑھیے: تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟

 ایک اور پہلو اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور اہم ہے ۔  قائد اعظم نے آگے چل کر پاکستان کی بنیاد رکھی ، کوئی مانے یا مانے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ  قائد اعظم کا پاکستان ، دیو بند کو  ابولکلام کے پاکستان سے زیادہ راس آیا۔

دیوبند سے وابستہ ایک گروہ قائد اعظم کے پاکستان  میں ہے جو اتنا معتبر ہے کہ قومی سیاست کا مرکز و محور ہے،  دوسری جانب دیوبند کا مرکز ابوالکلام کے ہندوستان میں ہے اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سیاست سے ہی لاتعلق ہوا پڑا ہے۔  بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ہم صرف درس و تدریس تک محدود رہنا چاہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دیوبند تو بنیادی طور ایک سیاسی تحریک تھی، یہ غیر معمولی سیاسی تحریک ہندوستان میں سیاست سے لاتعلق ہوئی پڑی ہے۔ البتہ جناح کے پاکستان میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی شکل میں یہ سیاست کا مرکز و محور ہے۔

ہندوستان میں دیوبند کو ہندتوا سے اتنا خطرہ ہے کہ وہ سیکولرزم کو ہی غنیمت سمجھ چکی ہے کہ ہندتوا کی بڑی برائی سے جان بچ جائے ، وہ ہم پر مسلط نہ ہو ، اس لیے ہندو شاؤنزم کے مقابلے میں سیکولرزم ہی اچھا ہےاور گوارا ہے۔ ادھر جناح کے پاکستان میں مولانا فضل الرحمن گرجتے بھی ہیں اور برستے بھی ہیں ، اسلام کی بات بھی کرتے ہیں اور کسی میں جرات نہیں کہ انہیں دیوار سے لگا سکے۔

ہندوستان کے دیو بند کی بے بسی یہ ہے کہ مولانا اردشد مدنی اب وائس چانسلروں کی تعنیاتی تک میں محرومی اور زیادتی کے شکوے کرنے پر مجبور ہیں ، لیکن جناح کے پاکستان میں دیوبند والوں کی شان یہ ہے کہ مولانا  فضل الرحمن کے تیور بگڑ جائیں تو ساری قومی سیاست ان کے در دولت پر حاضر ہو جاتی ہےاور اس وقت بھی وہ قائد حزب اختلاف کے منصب کے لیے موزوں ترین انتخاب تصور کیے جا رہے ہیں۔

جو پاکستان بنانے کے ’گناہ‘ میں شریک نہ تھے پاکستان نے انہیں دل سے لگایا اور فیصلہ سازی کے رتبے پر بٹھا لیا ۔ جو متحدہ ہندوستان کے ’ثواب‘ کماتے رہے وہ اب بے بسی کے عالم میں شکوہ کناں ہیں کہ ہمارا مسلمانوں کا تو اب کوئی وائس چانسلر بھی نہیں بن سکتا۔

 ایک عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ابوالکلام کے دیس میں ہندو مسلمان بھائی بھائی بن کر رہنے تھے لیکن جناح نے الگ ملک بنا  کر بھارت کے مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کر دیے اور یوں ابولکلام کا خواب پورا نہ ہو سکاا۔ ۔ قائد اعظم کا ساتھ نہ دینے والوں کی بے بصیرتی کے علاوہ اس موقف میں کچھ بھی نہیں۔

مزید پڑھیں: کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

ہندوؤں کا غصہ صرف قیام پاکستان پر نہیں تھا، انہوں نے مسلمانوں سےصدیوں کے بدلے چکانے تھے۔ پاکستان نہ بھی بنتا تو ہندو شاؤنزم نے یہی کچھ کرنا تھا بلکہ زیادہ بے رحمی سے کرنا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوؤں نے انگریز کا ساتھ اسی نفرت اور کدورت کے تحت دیا اور اسی نفرت کا مسلسل مشاہدہ کرنے کے بعد  قائد اعظم کو االگ ملک کا مطالبہ کرنا پڑا ورنہ وہ تو خود ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے۔  یہ قائد اعظنم کی بصیرت تھی کہ جس ہندو شائونزم کی دیوبند کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی وہ اسے عشروں قبل جان گئے تھے۔

ابولکلام آزاد نے بھلے یہ ییش گوئی نہ کی ہو لیکن دیو بند کو ایک نہ ایک دن یہ بات ماننا پڑے گی کہ انہیں جناح کا پاکستان زیادہ راس آیا۔ ایک وقت آئے گا وہ اپنے اس محسن کا شکریہ ادا کریں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

دیوبند قائد اعظم ہندتوا ہندو ہندو شاؤنزم

متعلقہ مضامین

  • دیوبند کا سب سے بڑا محسن : محمد علی جناح
  • ایک بار پھر رب کعبہ کے حضور
  • ’مردہ‘ قرار دی جانے والی خاتون تدفین سے کچھ لمحے پہلے دوبارہ جی اٹھیں
  • ’مردہ‘ قرار دی خاتون تدفین سے کچھ لمحے پہلے دوبارہ جی اٹھیں
  • پُر تشدد انتہاپسندی کی روک تھام: ملائیشیا کے منصوبے سے پاکستان کیسے مستفید ہوسکتا ہے؟
  • مسلمانوں کو اپنے مذہب، تاریخ کے دفاع کیلئے شہادتیں دینا پڑیں گی: سکھ رہنما
  • مسلمانوں کو اپنے مذہب کے دفاع کیلئے شہادتیں دینی پڑیں گی، سکھ رہنما
  • ایشوریا رائے کا مودی کو طمانچہ
  • دہلی دھماکہ کیس میں ہریانہ پولیس نے ایک مسجد کے امام سمیت اور دیگر افراد کو حراست میں لیا