پُر تشدد انتہاپسندی کی روک تھام: ملائیشیا کے منصوبے سے پاکستان کیسے مستفید ہوسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
دنیا بھر میں اِس وقت مذہبی، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصبات ایک غالب ٹرینڈ کا حصہ نظر آتے ہیں اور اِن تعصبات کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا ایک بنیادی عمل انگیز کا کام کرتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے ہاں اِس طرح کی منافرتوں کو لے کر پریشان اور اُن کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔
ملائیشیا کی حکومت نے گزشتہ سال اِسی حوالے سے ایک 4 سالہ منصوبہ بنایا جس میں انتہا پسندی کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کی بات کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ اِس حوالے سے قدرے مختلف نظر آتا ہے کہ اِس میں معاشرے کے تمام طبقات اور اداروں کو ہم آہنگ کیا گیا ہے۔
مُلک میں پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے ملائیشیا کی حکومت نے 2024 میں 4 سالہ مدّت کے لیے (ملائیشین ایکشن پلان آن پریونٹنگ اینڈ کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم) متعارف کرایا ہے جس میں سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ اُن اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے ذریعے سے پُرتشدد انتہا پسندی کا سوشل میڈیا پر مقابلہ کرنا اور مسئلے کی جڑ کے حوالے سے کام کرنا شامل ہے۔
مزید پڑھیں: ملائیشیا کے قریب روہنگیا مہاجرین کی کشتی ڈوب گئی، 7 ہلاک، سینکڑوں لاپتا
اس منصوبے کا مقصد انتہا پسند نظریات کو روکنا، ان کا مقابلہ کرنا اور اُن سے متاثرہ افراد یا ریڈیکلائزڈ لوگوں کی بحالی اور معاشرے میں اُن کی شمولیت ہے۔ منصوبہ ایک جامع نقطہ نظر اپناتا ہے، یعنی وہ صرف مذہبی انتہاپسندی نہیں دیکھتا بلکہ سیاسی، نسلی، مذہبی اور بیرونی رجحانات کو بھی ایک خطرے کی صورت میں دیکھتا ہے۔
اس منصوبے کے 4 ستون ہیں:روک تھام: اس میں تعلیمی، سماجی اور معاشرتی مداخلت شامل ہے تاکہ انتہا پسندی پیدا ہونے ہی نہ پائے۔
نفاذ: قانونی اور حکومتی اقدامات کے ذریعے انتہا پسندانہ سرگرمیوں پر کارروائی کرنا۔
بحالی: انتہا پسندی کی زد میں آ چکے افراد کو دوبارہ معاشرے میں شامل کرنے، ان کا نظریاتی اور نفسیاتی علاج کرنے پر زور۔
تقویت: سماجی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو مضبوط کرنا، اور ایسے پلیٹ فارمز بنانا جو ایک معتدل اور شمولیتی معاشرے کو فروغ دیں۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی دورہ ایشیا کے دوران ملائیشیا آمد، ایئرپورٹ پر رقص کرتے ہوئے ویڈیو وائرل
منفرد خصوصیاتمائی۔ پی سی وی ای ’سخت‘ اور ’نرم‘ یعنی ہارڈ اور سافٹ دونوں طرح کے طریقے استعمال کرتا ہے: قانون سازی اور نفاذ کے اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرتی پہلوؤں پر بھی کام کرے گا۔ یہ منصوبہ مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسا کہ وزارتیں، حکومتی ادارے، سول سوسائٹی، این جی اوز، مذہبی اور نسلی برادریوں کو شامل کرکے تیار کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے طبقے کی شمولیت سے اِسے کامیاب بنایا جا سکے۔
اس منصوبے کی اہم خاصیت اس میں ’مدنی‘ تصور کو اجاگر کیا گیا ہے، یعنی اخلاق، اقدار اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے حکمتِ عملی وضع کی گئی ہے۔
یہ منصوبہ ملائیشین حکومت کی دیگر متعلقہ پالیسیوں اور اقدامات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے بنایا گیا ہے، جیسا کہ شیئرڈ پراسپیرٹی ویژن 2030 اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی وغیرہ۔
منصوبے کے حوالے سے اہم بیانات اور حکومتی نکتہ نظرملائشین وزیرِاعظم انور ابراہیم نے اس منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فوری اور بہتر نگرانی کی ضرورت ہے، خاص طور پر اسکولوں، سیاسی حلقوں اور گروپوں میں، تاکہ ممکنہ تشدد یا انتہا پسندی کو ابتدائی سطح پر پکڑا جائے۔ صرف دہشتگردی کی کارروائیوں کو روکنا کافی نہیں، ہمیں ان عناصر کے نظریاتی محرک یا آئیڈلاجیکل ڈرائیورز کو سمجھنا ہوگا جو تشدد کی جانب لے کر جاتے ہیں۔
ملائیشیا کے وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ملائشیا کا یہ ایکشن پلان دوسرے ممالک کے ماڈلز سے مختلف ہے کیونکہ یہ مقامی اقدار، اصولوں اور ریاستی مظبوطی کو مدِ نظر رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملائیشیا کے ہم منصب انور ابراہیم کا ٹیلیفونک رابطہ، پاک افغان کشیدگی پر گفتگو
شمولیت اور شفافیتملائشیا میں ایک ’ون اسٹاپ پورٹل‘ بھی ہے جہاں پی سی وی ای سے متعلق معلومات، تربیتی وسائل، تحقیق اور عوامی آگاہی کے مواد فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کے پہلوؤں پر زور دینے کی وجہ سے، یہ منصوبہ عوامی سطح پر قبولیت اور عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور اِس کا انحصار صرف اور صرف سخت سیکیورٹی مداخلت پر منحصر نہیں ہے۔
پاکستان مائی۔پی سی وی ای منصوبے سے کیا سبق حاصل کر سکتا ہے؟ملائشیا کا یہ ایکشن پلان پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کے چیلنجز سے نمٹنے میں ایک ماڈل ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ:
جامع حکمتِ عملی اپناناپاکستان میں عموماً انسدادِ دہشتگردی حکمتِ عملی زیادہ تر قانون سازی اور سکیورٹی کے نفاذ تک مرکوز رہتی ہے۔ ملائشیا کا ماڈل بتاتا ہے کہ روک تھام، بحالی، تقویت یا ری انفورسمنٹ سبھی عناصر اہم ہیں۔ پاکستان اس ماڈل کو اختیار کرکے صرف قانونی یا سیکیورٹی کارروائی کے بجائے انتہا پسندی کی جڑ (نظریاتی اور سماجی عوامل) پر بھی توجہ دے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: کوالالمپور: 13واں سلطان آف جوہر ہاکی کپ، پاکستان نے ملائیشیا کو 2-7 سے شکست دیدی
سول سوسائٹی اور مقامی شراکتمائی۔پی سی وی ای منصوبے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے، جن میں غیر سرکاری تنظیمیں، مذہبی ادارے اور مقامی برادریاں شامل ہیں۔ پاکستان بھی اپنی نوجوان آبادی، تعلیمی اداروں، مذہبی تنظیموں اور این جی اوز کو شامل کرکے کام کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے تاکہ انتہا پسندی کے وجوہات کو ختم کیا جائے۔
آن لائن اور آف لائن مداخلتملائشیا نے اس سلسلے میں سافٹ اپروچ اپنائی ہے، اس میں آگاہی مہمات، تعلیم، مذہبی مکالمے اور معاشرتی اقدار پر مبنی تربیت شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ بیانیے کو چیلنج کرنے کے لیے اسی قسم کی مہمات چلائی جا سکتی ہیں، اور اسکولوں کے نصاب میں ایسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں جو تنوع، برداشت اور مکالمہ پر زور دیں۔
بحالی پروگرامز مضبوط بناناپاکستان میں ایسے افراد جو کسی حد تک نظریاتی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو چکے ہیں، اُنہیں واپس معاشرے میں واپس لانے کے لیے دینی، نفسیاتی اور تربیتی بحالی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ ملائشیا کی مثال بتاتی ہے کہ صرف سزا دینا کافی نہیں ہے۔ نقطہ نظر بدلنے اور سماج سے دوبارہ جڑنے کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم کا دورۂ ملائیشیا مکمل، داتو سری انور ابراہیم نے الوداع کیا
پالیسی اور قانونی ہم آہنگیپاکستان اپنی قومی سیکیورٹی پالیسی، اندرونی سلامتی حکمتِ عملی اور علاقائی تعاون مثلاً جنوبی ایشیا یا اسلامی ممالک کے ساتھ مائی۔پی سی وی ای طرز کے منصوبوں کو ہم آہنگ کرسکتا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ قانونی اقدامات (نفاذ) اور پالیسی اقدامات متوازی چلنے چاہیئں چلیں۔
مانیٹرنگ اور تشخیصمائی۔ پی سی وی ای کی طرح، پاکستان کو اپنے اقدامات کی مؤثر مانیٹرنگ اور تشخیص کا نظام قائم کرنا چاہیئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون سی حکمتِ عملی مؤثر ہے اور کہاں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
mypcve malaysia پاکستان پُر تشدد انتہاپسندی ملائیشیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پ ر تشدد انتہاپسندی ملائیشیا انتہا پسندی کی ملائیشیا کے پاکستان میں کے حوالے سے پی سی وی ای مزید پڑھیں کیا گیا ہے یہ منصوبہ روک تھام سکتا ہے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے تشویشناک اعداد و شمار؛ فیکٹ شیٹ جاری
لاہور:سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی فیکٹ شیٹ جاری کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد کے انتہائی تشویشناک رجحانات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق جنوری تا جون 2025ء کے دوران 15 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، یعنی اوسطاً روزانہ 85 خواتین مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہوئیں۔
یہ اعداد و شمار پنجاب پولیس سے حقِ معلومات(آرٹی آئی )کے تحت حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں خواتین کے خلاف 6 سنگین اقسام کے تشدد سمیت زیادتی، گھریلو تشدد، اغوا، غیرت کے نام پر قتل، ٹریفکنگ ، سائبر ہراسگی اور ہراسگی کے ساتھ ساتھ زیرِ تفتیش، چالان شدہ، زیرِ سماعت، سزا یافتہ، بری یا واپس لیے گئے مقدمات کی صورتحال بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں اضلاع کے درمیان درست موازنہ کے لیے اعداد و شمار ہر ایک لاکھ بالغ خواتین کی آبادی کے حساب سے ترتیب دیے گئے ہیں۔
فیکٹ شیٹ کے مطابق صوبے میں خواتین سے متعلق جرائم میں رپوٹنگ بہتر ہو ر ہی ہے مگر اب بھی پولیس ڈیٹا چھپاتی ہے جس کی وجہ سے ڈس انفارمیشن ہوتی ہے اور کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ فیکٹ شیٹ کے مطابق اوسطاً روزانہ 9 خواتین کے ساتھ زیادتی، 51 خواتین اغوا جب کہ 24 خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔
ایس ایس ڈی او کے مطابق یہ اعداد و شمار نہ صرف تشدد کے پھیلاؤ کی تصویر پیش کرتے ہیں بلکہ ہمارے نظام انصاف اور سماجی رویّوں میں موجود وہ کمزوریاں بھی واضح کرتے ہیں جو خواتین کے تحفظ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
ضلع لاہور تمام اضلاع میں سب سے زیادہ متاثر پایا گیا، جہاں زیادتی کے 340، اغوا کے 3018 اور گھریلو تشدد کے 2115 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں بھی لاہور سرفہرست اضلاع میں شامل ہے۔ دیگر زیادہ متاثرہ اضلاع میں ملتان، گجرانوالہ، سیالکوٹ، قصور، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ننکانہ صاحب شامل ہیں۔
سائبر ہراسگی کے کیسز صرف 5 اضلاع اوکاڑہ، شیخوپورہ، لیہ، پاکپتن اور گجرات میں رپورٹ ہوئے، جو ایس ایس ڈی او کے مطابق نہ صرف کم رپورٹنگ کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ڈیجیٹل شکایتی نظام تک غیر مساوی رسائی بھی ظاہر کرتے ہیں ۔ خواتین کی ٹریفکنگ کے جرائم میں مظفرگڑھ اور پاکپتن سرفہرست رہے۔
مزید یہ کہ بہاولنگر، بہاولپور، چکوال، چنیوٹ، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد، حافظ آباد ، نارووال، رحیم یار خان، راجن پور، راولپنڈی، ساہیوال اور سرگودھا سمیت متعدد اضلاع نے پنجاب انفارمیشن کمیشن کی واضح ہدایات کے باوجود مطلوبہ ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔ حالانکہ یہ وہ معلومات ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اپنی ویب سائٹس پر عوامی رسائی کے لیے دستیاب کرنا ضروری ہے۔
ایس ایس ڈی او کے مطابق پنجاب پولیس نے انفارمیشن کمیشن کے احکامات کے باوجود مذکورہ اضلاع کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا، جس سے صوبے میں خواتین پر تشدد سے متعلق ریکارڈ کی شفافیت اور درستگی پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
ایس ایس ڈی او نے فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنانے، پولیس کی تفتیشی صلاحیتوں میں اضافہ، عدالتی عمل میں تیزی اور متاثرہ خواتین کے لیے معاون خدمات کو وسعت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تنظیم نے کہا کہ شفاف ڈیٹا، جوابدہی پر مبنی حکمرانی اور کمیونٹی سطح پر آگاہی کو فروغ دے کر ہی خواتین پر تشدد کے مسئلے کا موثر حل ممکن ہے۔