فرح ابو عیاش کی جانب سے جیل کے اندر سے بھیجی گئی دردناک تفصیلات اور صہیونی جیلروں کے مظالم کی وضاحت منظر عام پر آئی ہے، اور وکیل سے دوبارہ مشاورت کے بعد، تسنیم نیوز ایجنسی نے اس خبر کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ تسنیم نیوز کی صحافی فرح ابو عیاش نے جیل سے باہر آنے کے بعد بتایا ہے کہ گزشتہ 110 دن کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے انہین شدید تشدد، اذیت اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔ تسنیم کے غیرملکی دفاتر کے مطابق فلسطین کے شہر الخلیل (جنوبی غرب اردن) میں تسنیم کی رپورٹر فرح ابو عیاش کو 6 اگست 2025 کی رات کو اسرائیلی فوج کے اچانک چھاپے میں بیت امر نامی گاؤں (شمالی الخلیل) سے گرفتار کر کے لے گئے۔ انہیں گرفتاری کے بعد مسکوبیہ جیل (شمالی مقبوضہ بیت المقدس) منتقل کیا گیا، جہاں انہیں مختلف طرح کے تشدد، ہتک آمیز سلوک اور جسمانی و ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

تسنیم نیوز ایجنسی بنیادی طور پر اس گرفتاری پر فوری ردعمل دینا چاہتی تھی، لیکن کچھ صحافیوں کے مشورے، خود فرح ابو عیاش کے وکیل کی ہدایات، اور خود ان کی نجی درخواست کو مدِنظر رکھتے ہوئے خبر کو روک دیا گیا، تاکہ عدالتی کارروائی متاثر نہ ہو اور ان کے اہل خانہ کو اسرائیلی فورسز کی طرف سے کسی ممکنہ انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اب جب فرح ابو عیاش کی جانب سے جیل کے اندر سے بھیجی گئی دردناک تفصیلات اور صہیونی جیلروں کے مظالم کی وضاحت منظر عام پر آئی ہے، اور وکیل سے دوبارہ مشاورت کے بعد، تسنیم نیوز ایجنسی نے اس خبر کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اسرائیلی فوج کے غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک سے آگاہ کیا جائے اور اس کے سنگین نتائج سے خبردار کیا جا سکے۔ میڈیا ذمہ داری کے باوجود وحشیانہ سلوک اور فرح ابو عیاش کو مہینوں تک قید اور پھر وحشیانہ تشدد کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب کہ وہ بطور صحافی صرف فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کو اجاگر کرتی تھیں، غرب اردن کے حالات بیان کرتی تھیں اور غزہ کے بے گناہ شہریوں کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کرتی تھیں، یہ ان کا پیشہ ورانہ فریضہ تھا، اور اسرائیلی دعوؤں کے برخلاف، ان کے خلاف کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں جو انہیں صحافتی ذمہ داری سے بڑھ کر کسی سرگرمی میں ملوث ثابت کرے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فرح ابو عیاش نیوز ایجنسی تسنیم نیوز کے بعد

پڑھیں:

اسرائیل اور ریپ کا ہتھیار

جنگی ہتھیاروں میں ریپ بھی شامل ہے۔ ریپ یا اس کی دھمکی کے ذریعے دشمن سے معلومات اگلوانے کی کوشش ہوتی ہے ، محکوم کی عزتِ نفس تار تار کر کے نفسیاتی طور پر ختم کرنا اور یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ تم کتنے بے بس ہو ، تمہارے ساتھ ہم جب چاہیں کچھ بھی کرنے پر قادر ہیں۔

ریپ بطور ہتھیار کوئی اتفاقی یا اضطراری عمل نہیں بلکہ صدیوں سے سوچی سمجھی عسکری حکمتِ عملی کا اہم جزو ہے۔’’ مہذب دور ‘‘ میں روانڈا، سابق یوگو سلاویہ اور اب سوڈان میں ریپ کا بطور ہتھیار وسیع استعمال سامنے کی مثالیں ہیں۔ فلسطین بھی اس ہتھیار کی زد سے باہر نہیں۔اس کا سب سے اہم گواہ خود اقوامِ متحدہ ہے۔

دو ہزار اکیس میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مقبوضہ فلسطین میں ریپ کے اسٹرٹیجک استعمال کے الزامات کی جانچ کے لیے ماہرین کا ایک تین رکنی آزاد کمیشن تشکیل دیا۔کمیشن کی رپورٹ اس سال مارچ میں منظرِ عام پر آئی۔اس میں صاف صاف لکھا گیا کہ فلسطین میں اسرائیلی سیکیورٹی دستوں کی جانب سے عام لوگوں کو برسرِ عام ننگا کرنا اور ریپ یا ریپ کی دھمکی ایک عمومی رویہ ہے۔اس رویے میں فلسطینیوں کے حساس اعضا کو بزورِ تشدد ناکارہ بنانا بھی شامل ہے۔ اس جنسی تشدد کو اسرائیلی سرکاروں اور فوج کی اعلیٰ ترین قیادت تک تائید اور حوصلہ افزائی حاصل ہے۔

توقع کہ عین مطابق اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ فوجی ضوابط اور اندرونی احتساب کے ڈھانچے میں جنسی تشدد کی شکایات کے تدارک کے لیے ایک فعال اور موثر طریقہِ کار تندہی سے کام کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کو لغو بتاتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کونسل دراصل اسرائیل دشمن سرکس ہے۔

مگر پھر ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی ، اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔اسرائیلی فوج کی ایڈووکیٹ جنرل میجر جنرل یفات تومر یروشلامی کو تین ہفتے پہلے جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔پھر خبر آئی کہ انھیں حراست میں لے لیا گیا۔پھر خبر آئی کہ میجر جنرل یفات نے اعتراف کر لیا ہے کہ انھوں نے ہی وہ وڈیو لیک کی ہے جس میں جنوبی اسرائیل کے سدی تمان فوجی کیمپ میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی قیدی کو فوجی ڈھالوں کے سائے میں دھاتی ڈنڈوں سے ریپ کر رہے ہیں۔ یہ ایسی وحشیانہ واردات تھی کہ اب تک اس قیدی کی بیس سرجریز ہو چکی ہیں۔اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔اس قیدی کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔

 وڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد پانچ فوجیوں کو بادلِ ناخواستہ حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی۔مگر انتہاپسند اسرائیلیوں نے ریپسٹ فوجیوں کی گرفتاری کے خلاف سدی تمان کیمپ کے گیٹ پر احتجاجی دھرنا دیا۔ان فوجیوں کو ٹی وی چینلز پر ہیرو قرار دیا گیا۔ارکانِ پارلیمان نے ان کی گرفتاری پر نکتہ چینی کی۔جس قیدی کا ریپ ہوا الٹا اسے موردِ الزام ٹھہرایا گیا کہ وہ حماس کا ایک خطرناک جنگجو ہے۔تاہم چھان پھٹک کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو کوئی عام شہری ہے۔

کچھ ہفتے بعد ریپسٹ فوجیوں کو اسرائیل فوج کے چیف رباعی نے معاف کر دیا۔ان مجرموں کی وڈیو لیک کرنے والی اسرائیلی فوج کی ایڈووکیٹ جنرل میجر جنرل یفات غدار قرار پائیں۔وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی میجر جنرل یفات کی اس حرکت کو اسرائیلی ریاست اور فوج کو بدنام کرنے کی ملکی تاریخ کی سب سے مذموم کوشش قرار دیا۔

آٹھ دہائی تک یہ تصویر بنائی جاتی رہی کہ اسرائیل خطے کا سب سے مہذب اور جمہوری ملک ہے۔ اسرائیلی شہریوں کو قانون کا مکمل یکساں تحفظ حاصل ہے۔اسرائیلی فوج دنیا کی سب سے بااخلاق اور اصول پسند فوج ہے۔اس کا اندرونی احتسابی نظام آہنی ہے وغیرہ وغیرہ۔

مگر اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ کہ اسرائیلی فوج ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے اور ٹارچر کے دوران فلسطینیوں کے جنسی اعضا کو بھی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔اس بابت اسرائیلی فوج کی ایڈوکیٹ جنرل کی گواہی نے اسی برس سے جاری خودساختہ مثبت تاثر اڑا کے رکھ دیا۔

 ان حالات و واقعات پر اس لیے بھی حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ خود اسرائیلی سماج کے اندر بھی ریپ اور جنسی ہراسگی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے سنجیدگی سے نپٹنے کے بجائے درگزر کی روائیت مستحکم ہے۔

مثلاً ایک اسرائیلی این جی او ایسوسی ایشن آف ریپ کرائسس سینٹرز ان اسرائیل ( اے آر سی سی آئی ) کا اندازہ ہے کہ ہر تین میں سے ایک عورت کم ازکم ایک بار جنسی حملے کا نشانہ بنی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سماج میں جنسی تشدد کی شرح یورپ کے مقابلے میں دس فیصد زائد ہے۔

جنسی ہراسانی کے قانون کے تحت مجرم کو چار برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سب سے مشہور کیس سابق اسرائیلی صدر موشے کستاف کا ہے۔انھوں نے ایک خاتون کے اس الزام کے بعد دو ہزار سات میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا کہ جب موصوف نوے کی دہائی میں وزیرِ سیاحت تھے تو مذکورہ خاتون ان کے اسٹاف میں شامل تھی اور اسے دو بار ریپ کیا گیا۔موشے کستاف کے صدر بننے کے بعد بھی دو ہزار تین اور پانچ میں جنسی ہراسگی کے الزامات سامنے آئے۔دو ہزار گیارہ میں ایک عدالت نے موشے کستاف کو سات برس کے لیے جیل بھیج دیا۔

دسمبر دو ہزار پندرہ میں نائب وزیرِ اعظم سلوان شالوم نے جنسی ہراسانی کے الزامات کے سبب استعفی دے دیا۔ان کے پاس وزارتِ داخلہ و خارجہ کا قلمدان بھی رہ چکا تھا۔

اسرائیلی شہریوں کو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ انصاف میسر ہے مگر لاکھوں فلسطینی اس نظام سے بالکل باہر ہیں اور اسرائیل میں کام کرنے والے غیر ملکی ورکرز سب سے زیادہ تنہا ہیں۔

امیگریشن امور کے دو اسرائیلی ماہرین ڈاکٹر یاہل کرلینڈر اور ڈاکٹر شاہار شوہام کی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ غیر ملکی کارکن تھائی لینڈ سے منگوائے جاتے ہیں۔دونوں امیگریشن ماہرین نے چھ سو چون تھائی مزدور خواتین سے انٹرویو کیا۔سب نے بتایا کہ ان کا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے اور قانونی چارہ جوئی کی کوشش کا مطلب نوکری سے برخاستگی اور اسرائیل بدری ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • ایرانی ہیکرز نے صیہونی فوجی صنعت کے سینئر انجینئرز کی ذاتی تفصیلات شائع کر دیں، اسرائیلی میڈیا
  • ویتنام میں بارشوں نے تباہی مچادی، 2 لاکھ گھر ڈوب گئے
  • اسرائیل اور ریپ کا ہتھیار
  • امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں عاید کردیں
  • امریکہ ایرانی شرائط کے سامنے بے بس؟طاقتور ایران امریکہ کے لیے درد سر؟
  • نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی کے تمام پرانے افسران کوعہدوں سے ہٹا دیا گیا
  • اسرائیلی قرارداد
  • سرینگر میں "کشمیر ٹائمز" کے دفتر پر بھارتی تحقیقاتی ایجنسی کا چھاپہ
  • چین برطانوی پارلیمنٹرینز کی جاسوسی کر رہا ہے‘ ایم آئی فائیو