اسلام ٹائمز: رہنماوں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر اکیلے کچھ نہیں کرسکتے، لہذا طرح طرح کے دلفریب نعروں سے جمہور کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ وہ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اپنی سادگی کی بنا پر ہمیشہ انکا شکار رہتے ہیں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
جس طرح نماز دکھاوے کی ہوسکتی ہے، اسی طرح نماز کی امامت اور قوم کی قیادت بھی دکھاوے کے لیے ہوسکتی ہے۔ کسی کا ظاہر دیکھ کر کسی کے باطن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی۔ ظاہر پرستی اور شخصیت پرستی بھی شرک کی بدترین صورت ہے۔ ہمارے اکثر سیاسی اور مذہبی قائدین اصلاً قائد نہیں ہوتے بلکہ قائد نظر آنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ کسی کا محض لبادہ دیکھ کر کسی کی اصلیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ آج کے بازار سیاست میں ضرورت کے مطابق ہر قسم کا لبادہ میسر ہے۔ صرف یہ جاننا ضروری ہے کہ ”پبلک ڈیمانڈ“ کیا ہے۔؟
قیادتیں ہیں کہ کھلی منڈی میں کم داموں پر بک رہی ہیں۔ ہم جیسے مثالیت پسند اس خرید و فروخت پر حیران و پریشان ہیں۔ لگتا ہے کہ لوگوں کے ”حواس خمسہ“ جواب دے چکے ہیں۔ سماعتیں ایسی ہوگئی ہیں کہ لوگ کسی کے محض جادوئی بیانات سے متاثر ہوکر اس پر کامل ایمان لے آتے ہیں۔ بصارتوں کا حال یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی کھلی آنکھوں میں پرکھنے کی ایسی صلاحیت نہیں ہے، جس سے وہ کھرے اور کھوٹے رہنماء کے مابین تمیز کرسکیں۔
قوت گویائی کی صورت یہ ہے کہ ہم جنہیں اپنا کہتے ہیں، ان سے بھی اپنا حال دل کہنے سے ڈر لگتا ہے۔ حقیقی رہنماء سرِ منبر اپنے زورِبیان سے نہیں بلکہ سرِ راہِ عمل ہتھیلی پر رکھی اپنی جان سے پہچانا جاتا ہے۔ جو قیادت اپنی شہرت کی بھوکی اور اپنی نمائش کی دیوانی ہوتی ہے، وہ اندر سے کھوکلی ہوتی ہے۔ آج کسی بے رنگ قیادت کو چمکانے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی ملمع کاری کی جاتی ہے۔ مٹی کی مورتوں پر سونے کا پانی چڑھا دیا جاتا ہے۔ لوگ ظاہر بین ہوتے ہیں۔ کسی کے بدن پر جبہ و دستار دیکھ کر اس کے پرستار ہو جاتے ہیں۔ سروں پر عمامے دیکھ کر دیوانے ہو جاتے ہیں۔
رہنماوں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر اکیلے کچھ نہیں کرسکتے، لہذا طرح طرح کے دلفریب نعروں سے جمہور کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ وہ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اپنی سادگی کی بنا پر ہمیشہ ان کا شکار رہتے ہیں۔
تو یہ نہ دیکھ ترا میں شکار کتنا تھا
یہ دیکھ تجھ پہ مرا اعتبار کتنا تھا
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
چاکلیٹی ہیرو … وحید مراد
ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک سے بڑھ کر ایک اداکار آیا اور اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فلم بینوں سے داد و تحسین حاصل کی۔ ان فنکاروں میں ایک اہم ترین فنکار تھے اداکار وحید مراد۔ وحید مراد بلاشبہ ایک اسٹائلش اداکار تھا۔ رومانوی، چاکلیٹی ہیرو، لیڈی کلر ۔ یہ تمام خطابات وحید مراد کے پرستاروں نے انھیں دیے۔ وحید مراد کے والد نثار مراد کا تعلق شہر اقبال سیال کوٹ سے تھا۔ البتہ نثار مراد کاروبار کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھے جب کہ وحید مراد کی والدہ کا تعلق شادی سے قبل طب سے تھا۔
وحید مراد کی پیدائش 2 اکتوبر 1938 کو کراچی میں ہوئی۔ وحید مراد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ نثار مراد خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور انھوں نے اپنے بیٹے وحید مراد کو بھی اعلیٰ تعلیم دلائی۔ نثار مراد شوبز سے خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ فلم آرٹس کے نام سے ان کا ذاتی ادارہ بھی تھا جس کے بینر تلے وہ فلمیں بناتے تھے۔ ان کی اولین فلم تھی ’’انسان بدلتا ہے‘‘ جس کے ہیرو عشرت عباس المعروف درپن تھے۔ ’’انسان بدلتا ہے‘‘ ایک کامیاب فلم قرار پائی۔ البتہ اس ادارے کی دوسری فلم تھی ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘۔ اس فلم کے ہیرو بھی درپن تھے، یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی۔ یہ ذکر ہے 1960 کے آس پاس کا جب نامور ہدایت کار ایس ایم یوسف اپنی فلم ’’اولاد‘‘ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
چنانچہ ایک ایسے نوجوان کی تلاش میں جوکہ ان کی فلم میں حبیب اور نیر سلطانہ کے بیٹے کا کردار ادا کرسکے، لیکن کوئی بھی نوجوان ان کے معیار پر پورا نہیں اتر رہا تھا۔ البتہ جب ایس ایم یوسف نے وحید مراد کو دیکھا تو گویا وہ اپنی تلاش میں کامیاب ہو گئے۔ ایس ایم یوسف نے نثار مراد سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وحید مراد کو اپنی فلم میں لینا چاہتے ہیں تو نثار مراد نے جواب دیا کہ ’’یوسف صاحب! دو باتیں ہیں اول تو وحید مراد زیر تعلیم ہے اور تھوڑے عرصے بعد اس کے امتحانات بھی ہونے والے ہیں۔ دوم وحید مراد کو اداکاری کا کوئی شوق بھی نہیں ہے۔‘‘ نثار مراد کی بات سن کر ایس ایم یوسف نے کہا کہ’’ نثار مراد صاحب! آپ وحید مراد کے تمام معاملات سے بے فکر ہو جائیں۔ بس یہ جان لیں آج سے وحید مراد کی حصول تعلیم سے متعلق تمام ذمے داریاں میں پوری کروں گا۔
دن میں وحید مراد اپنی تعلیم کی ذمے داریاں پوری کرے گا، رات کو وحید مراد میری فلم کی شوٹنگ میں حصہ لے گا۔‘‘ وحید مراد رات کو فلم کی شوٹنگ میں حصہ لیتے، دن میں اپنی حصول تعلیم کی ذمے داریاں نبھاتے۔ جب کہ فلم کی شوٹنگ لاہور میں ہوئی اور تعلیمی مراحل کراچی میں طے ہوتے۔ اس سلسلے میں وحید مراد روزانہ شام کی فلائٹ سے کراچی سے لاہور جاتے اور صبح کی فلائٹ سے لاہور سے کراچی واپس آ جاتے، گویا وحید مراد اپنی حصول تعلیم کے معاملے سے غافل نہ تھے۔ یوں فلم ’’اولاد‘‘ کی تکمیل ہوئی اور 1962 میں یہ فلم سینما گھروں کی زینت بنی اور کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی۔ ’’اولاد‘‘ ایک اصلاحی فلم ثابت ہوئی اور آج بھی بے حد پسند کی جاتی ہے۔ یوں فلم ’’اولاد‘‘ کی کامیابی کے بعد وحید مراد کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ چنانچہ 1963 میں وحید مراد کی دوسری فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ’’دامن‘‘۔ اس فلم میں سنتوش کمار اور صبیحہ خانم بھی شامل تھے۔
رانی بیگم نے اس فلم میں وحید مراد کے مدمقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ 1964 میں وحید مراد کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ’’مامتا‘‘ اس فلم میں وحید مراد کی ہیروئن نغمہ بیگم تھیں جب کہ دوسری فلم تھی زیبا بیگم کے ساتھ ’’ہیرا اور پتھر‘‘۔ یہ گولڈن جوبلی ہٹ فلم تھی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد وحید مراد کو ایک کامیاب ہیرو تسلیم کر لیا گیا۔ 1965 میں وحید مراد کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جن کے نام یہ ہیں بہو بیگم، ڈاکٹر، ساز و آواز، عید مبارک اور کنیز۔ 1966 میں ریلیز ہونے والی فلموں کے نام یہ ہیں ’’ارمان‘‘ یہ پاکستان کی اولین پلاٹینم جوبلی فلم تھی جب کہ ہونہار، جوش، جاگ اٹھا انسان اور بھیا۔ 1976 کو ریلیز ہونے والی فلموں کے نام یہ ہیں ’’انسانیت‘‘ کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی۔
’’دیور بھابھی‘‘ کامیاب، احسان، دوراہا، پھر صبح ہوگی اور ماں باپ۔ 1968 میں ریلیز شدہ فلموں میں رشتہ ہے پیار کا، جان آرزو، سمندر دل میرا، دھڑکن تیری، جہاں تم وہاں ہم۔ 1969 میں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد چھ تھی اشارہ، تمہی ہو محبوب میرے، لاڈلہ، عندلیب، اک نگینہ۔وحید مراد کی یہ خوبی تھی کہ گانا عکس بندی کروانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا بشمول انڈیا۔ بہرکیف 23 نومبر 2025 کو وحید مراد کی 42 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ ہم دعا گو ہیں خدا وند کریم وحید مراد کے درجات بلند فرمائے۔