اپنے ایک بیان میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اسنپ بیک کے بعد ایران اور IAEA کے درمیان قاہرہ معاہدہ اخلاقاََ باقی نہیں، لیکن آج بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو باضابطہ خط بھیج کر اطلاع دی گئی کہ یہ معاہدہ اب قابل عمل نہیں رہا اور اسے ختم شدہ سمجھا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے آج گزشتہ روز ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی قرارداد کے بعد کہا كہ رواں برس جون میں ڈپلومیسی پر امریكہ و اسرائیل كے حملے كے بعد آج پھر امریکہ اور تین یورپی ممالک نے قاہرہ معاہدہ بھی روند ڈالا۔ اس ناگوار اور شرمناک عمل نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا۔ انہوں نے حالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم امریکہ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کے چھٹے دور کی دہلیز پر تھے، اچانک اسرائیل اور پھر امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا۔ پھر اس کے بعد اپنی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے باوجود مصر کی ثالثی سے ایران نے قاہرہ میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ معائنے دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تو 3 یورپی ممالک امریکہ کے دباؤ میں آ کر سلامتی کونسل میں ہمارے عوام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے درپے ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ایران نے IAEA کے انسپکٹرز کو اپنی ایٹمی تنصیبات تک رسائی فراہم کرنا شروع کی اور اس عمل کا آغاز ان مقامات سے کیا جو جون میں امریکی و صیہونی حملوں میں بمباری کا نشانہ نہیں بنے تھے، تو امریکہ اور 3 یورپی ممالک، ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں ایران کے خلاف ایک ہو گئے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ اب سب پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ ایران نہیں ہے جو بحران ایجاد کر رہا ہے۔ ہماری نیک نیتی کو سمجھا نہیں جا رہا۔ امریکہ اور یورپی مثلث اشتعال انگیزی چاہتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قاہرہ معاہدے کا رسمی طور پر ختم ہونا، براہ راست ان کی اپنی حرکتوں کا نتیجہ ہے۔ یاد رہے کہ رواں برس 9 ستمبر کو ایران اور IAEA نے تہران اور ویانا میں تین مذاکراتی ادوار کے بعد، تعاون کے نئے طریقہ کار پر قاہرہ میں معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے حصول کے بعد سید عباس عراقچی نے اعلان کیا کہ اگر ایران کے خلاف جارحانہ کارروائی ہوئی یا اسنپ بیک فعال ہوا تو یہ معاہدہ معطل ہو جائے گا اور اس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ گزشتہ روز 3 یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے پیش کردہ قرارداد، ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں 19 ووٹوں سے منظور ہوئی۔ جس کے بعد سید عباس عراقچی نے کہا کہ اگرچہ اسنپ بیک کے بعد ایران اور IAEA کے درمیان قاہرہ معاہدہ اخلاقاََ باقی نہیں، لیکن آج بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو باضابطہ خط بھیج کر اطلاع دی گئی کہ یہ معاہدہ اب قابل عمل نہیں رہا اور اسے ختم شدہ سمجھا جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سید عباس عراقچی قاہرہ معاہدہ یورپی ممالک امریکہ اور ایجنسی کے اور اس کے بعد کہا کہ

پڑھیں:

امریکہ کا غزہ امن منصوبہ اور مڈل ایسٹ کی نئی سیاست۔۔۔ ایک تہہ دار تجزیہ

اسلام ٹائمز: میری نظر میں یہ امریکی غزہ منصوبہ ایک "امن پیکیج" نہیں بلکہ ایک نئی شکست کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ غزہ کی مزاحمت جو طویل عرصے سے اپنی خودمختاری اور وقار کیلئے لڑ رہی ہے، اسے اب ایک ایسے سسٹم کے اندر محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس منصوبے سے فلسطینی عوام کی سیاسی آزادی محدود ہوگی، مزاحمتی قوتوں کو طاقت سے عاری کیا جائے گا، تعمیر نو کا کنٹرول بیرونی اداروں کے ہاتھ میں ہوگا، فوجی فورس ممکن ہے طویل عرصے تک مقیم رہے اور "فلسطینی ریاست" کے تصور کو حقیقت میں نہیں بلکہ تشہیر میں تبدیل کیا جائے گا۔ تحریر: سید عدنان زیدی

غزہ کے مستقبل پر نیا امریکی امن منصوبہ اور مشرقِ وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی کشیدگی ایک نیا اسٹریٹیجک پھندہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ موضوعات ہیں، جن پر آج کے وی لاگ میں بات کی گئی تھی اور جن کی روشنی میں ہم یہاں اسلام ٹائمز کے قارئین کے سامنے ایک منظم اور تجزیاتی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی محض سفارتی اسکیم نہیں، بلکہ طاقت، خودمختاری اور خطے کی نئی صف بندی کا کھیل ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک پیشتر منصوبہ بند سیاسی اور فوجی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو فلسطینی عوام کی آزادی اور خود ارادیت کو شدید چیلنج کرتا ہے۔ آئیں تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

تین نکاتی اسٹرکچر، امن یا کنٹرول؟
امریکی منصوبہ بنیادی طور پر تین ستونوں پر مبنی ہے:
1۔ شورائے صلح، ایک غیر ملکی کونسل جو غزہ کے انتظامی، مالی اور سیاسی فیصلوں پر اختیار رکھے گی۔
2۔ بین الاقوامی فورس، امن و سکیورٹی کے نام پر غزہ میں تعینات ہوگی، جو مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے، سرحدی کنٹرول سنبھالنے اور نگرانی والے زون قائم کرنے کی طاقت رکھے گی۔
3۔ تعمیرِ نو فنڈ، عالمی بینک اور دیگر ڈونرز اس کو مالیاتی وسائل فراہم کریں گے اور وہی فیصلہ کریں گے کہ غزہ کی تعمیر و ترقی کے منصوبے کہاں اور کیسے کیے جائیں۔نام پرامن لیکن عملی طور پر تسلط اور کنٹرول کا منظم نظام ہے۔ یہ وہی ماڈل ہے، جو کبھی بحران زدہ ملکوں میں بیرونی "انٹروینشن" کے بہانے نافذ کیا جاتا رہا ہے۔

پانچ خطرات جن سے غزہ کو گہرا نقصان ہوسکتا ہے:
 1۔ خود ارادیت کا خاتمہ
غزہ کے حقیقی فیصلہ ساز عوام کے نمائندے نہیں رہ جائیں گے۔ شورائے صلح کے ہاتھ میں اختیار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام کی آواز مقامی سطح سے باہر ایک بین الاقوامی ڈھانچے کے اندر دب جائے گی۔
 2۔ مزاحمتی ہتھیار چھیننا
بین الاقوامی فورس کی بطور امن دستہ تعیناتی کا مطلب ہوسکتا ہے کہ مزاحمتی گروہوں کو ہتھیاروں سے محروم کیا جائے۔ لیکن ہتھیاروں کی غیر مسلح کاری کے ساتھ اسرائیل کی طرّاحی یہ ہے کہ تنازع کو مکمل طور پر فلسطینیوں کے حقِ دفاع سے آراستہ انفرادیت سے ہٹا کر ایک نیا اسٹرکچرل تسلط قائم کیا جائے۔
 3۔ تعمیرِ نو کا بیرونی ہتھکنڈہ
غزہ کی تعمیر نو کے منصوبوں پر بیرونی ممالک اور ڈونرز کا کنٹرول ہوگا اور مقامی ترجیحات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل سیاسی اہداف کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتا ہے، نہ کہ حقیقی انسانی بحالی اور کمیونٹی کی ترقی کا۔

4۔ لمبے عرصے تک غیر ملکی فوج کی موجودگی
منصوبے کے مطابق، فورس کی واپسی "اصلاحات پر پیشرفت" سے مشروط ہے، مگر یہ شرط بہت مبہم ہے اور اسے سالوں کے لیے بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، غزہ ایک دیرپا فوجی نگرانی والے زون میں تبدیل ہوسکتا ہے، جس کی آزادی محدود ہو جائے گی۔
5۔ فلسطینی ریاست کا دھندلا خواب
جہاں منصوبے میں فلسطینی ریاست کا ذکر ہے، مگر کوئی واضح نقشہ، سرحدیں، یا سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دی گئی۔ یہ وہ ریاست ہوگی، جو ظاہری طور پر وجود میں آئے گی مگر حقیقی خودمختاری سے محروم رہے گی۔

مڈل ایسٹ میں نئی صف بندی۔۔۔۔ سازش یا ضرورت؟
اس منصوبے کے علاوہ، مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیائی نقشہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔
ایران–اسرائیل تصادم: ایران کے میزائل حملے اور شاباک میں ایرانی جاسوسی نیٹ ورک کے انکشاف نے ثابت کیا ہے کہ یہ محض فوجی جھڑپیں نہیں، بلکہ ایک بڑے انٹیلی جنس اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہیں۔
سعودی عرب کا ایٹمی حتمی انحصار: امریکہ نے سعودی عرب کو یورینیم افزودگی کی اجازت دینے سے صاف انکار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی جوہری پروگرام مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں رہے گا۔
ایف-35 ڈیل اور محدود خودمختاری: سعودی عرب اگرچہ جدید ایف-35 طیارے حاصل کرے گا، مگر ان کا آپریشنل کنٹرول اور اپڈیٹس امریکہ کے ہاتھ میں ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ "جوڑ توڑ" طویل المدتی دفاعی خودمختاری نہیں دی جائے گی۔
روسی–ایرانی اتحاد کی بحالی: ایران اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی اور اسٹریٹجک تعاون نے خطے میں ایک قوی بلاک وجود میں لانے کی سمت دکھائی ہے، جو نئے امن یا نئے تنازع دونوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
شام اور لبنان میں کشیدہ صورتحال: نیتن یاہو کی جبل الشیخ پر پریس کانفرنس اور لبنان کے کچھ علاقوں سے خالی کرنے کے احکامات اس بات کا عندیہ ہیں کہ مستقبل میں فوجی کارروائیاں شدت اختیار کرسکتی ہیں۔

امن یا نیا تسلط؟
میری نظر میں یہ امریکی غزہ منصوبہ ایک "امن پیکیج" نہیں بلکہ ایک نئی شکست کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ غزہ کی مزاحمت جو طویل عرصے سے اپنی خودمختاری اور وقار کے لیے لڑ رہی ہے، اسے اب ایک ایسے سسٹم کے اندر محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس منصوبے سے فلسطینی عوام کی سیاسی آزادی محدود ہوگی، مزاحمتی قوتوں کو طاقت سے عاری کیا جائے گا، تعمیر نو کا کنٹرول بیرونی اداروں کے ہاتھ میں ہوگا، فوجی فورس ممکن ہے طویل عرصے تک مقیم رہے اور "فلسطینی ریاست" کے تصور کو حقیقت میں نہیں بلکہ تشہیر میں تبدیل کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ مستقبل میں خطے کی صف بندی کو بدلنے کا ایک اہم موقع ہے یا غلط ہاتھوں میں ایک خطرناک جال۔؟ اسلام ٹائمز کے قارئین کے سامنے یہ سوال کھڑا ہے: کیا ہم اس امن نامی سازش کو صرف ایک عارضی سفارتی ڈیل سمجھ کر قبول کریں، یا غزہ کی خود ارادیت اور فلسطینی ریاست کے حقیقی خواب کے حق میں کھڑے ہوں۔؟ آیئے، اس بات چیت کو آگے بڑھائیں۔ آپ کی آواز اور رائے ہی مستقبل کا نقشہ تبدیل کرسکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ کا غزہ امن منصوبہ اور مڈل ایسٹ کی نئی سیاست۔۔۔ ایک تہہ دار تجزیہ
  • ہم ایک منصفانہ اور متوازن جوہری معاہدے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں : ایران
  • امریکہ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں
  • پاکستان اور بھارت بھیانک ایٹمی حملوں کے لیے تیار تھے، میں نے جنگ رکوائی: ٹرمپ
  • پاکستان اور بھارت ایٹمی ہتھیار نکال رہے تھے، میں نے جنگ رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • محمود اچکزئی اور علامہ ناصر عباس کی عمران خان کی بہنوں سے ملاقات
  • کراچی ہجرت نا کرتا تو آج اس مقام پر نہیں ہوتا، محسن عباس
  • ایران امریکا سے معاہدہ کرنے کے لیے ’بے تاب‘، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوہرے معیار!