امریکہ کا غزہ امن منصوبہ اور مڈل ایسٹ کی نئی سیاست۔۔۔ ایک تہہ دار تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: میری نظر میں یہ امریکی غزہ منصوبہ ایک "امن پیکیج" نہیں بلکہ ایک نئی شکست کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ غزہ کی مزاحمت جو طویل عرصے سے اپنی خودمختاری اور وقار کیلئے لڑ رہی ہے، اسے اب ایک ایسے سسٹم کے اندر محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس منصوبے سے فلسطینی عوام کی سیاسی آزادی محدود ہوگی، مزاحمتی قوتوں کو طاقت سے عاری کیا جائے گا، تعمیر نو کا کنٹرول بیرونی اداروں کے ہاتھ میں ہوگا، فوجی فورس ممکن ہے طویل عرصے تک مقیم رہے اور "فلسطینی ریاست" کے تصور کو حقیقت میں نہیں بلکہ تشہیر میں تبدیل کیا جائے گا۔ تحریر: سید عدنان زیدی
غزہ کے مستقبل پر نیا امریکی امن منصوبہ اور مشرقِ وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی کشیدگی ایک نیا اسٹریٹیجک پھندہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ موضوعات ہیں، جن پر آج کے وی لاگ میں بات کی گئی تھی اور جن کی روشنی میں ہم یہاں اسلام ٹائمز کے قارئین کے سامنے ایک منظم اور تجزیاتی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی محض سفارتی اسکیم نہیں، بلکہ طاقت، خودمختاری اور خطے کی نئی صف بندی کا کھیل ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک پیشتر منصوبہ بند سیاسی اور فوجی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو فلسطینی عوام کی آزادی اور خود ارادیت کو شدید چیلنج کرتا ہے۔ آئیں تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
تین نکاتی اسٹرکچر، امن یا کنٹرول؟
امریکی منصوبہ بنیادی طور پر تین ستونوں پر مبنی ہے:
1۔ شورائے صلح، ایک غیر ملکی کونسل جو غزہ کے انتظامی، مالی اور سیاسی فیصلوں پر اختیار رکھے گی۔
2۔ بین الاقوامی فورس، امن و سکیورٹی کے نام پر غزہ میں تعینات ہوگی، جو مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے، سرحدی کنٹرول سنبھالنے اور نگرانی والے زون قائم کرنے کی طاقت رکھے گی۔
3۔ تعمیرِ نو فنڈ، عالمی بینک اور دیگر ڈونرز اس کو مالیاتی وسائل فراہم کریں گے اور وہی فیصلہ کریں گے کہ غزہ کی تعمیر و ترقی کے منصوبے کہاں اور کیسے کیے جائیں۔نام پرامن لیکن عملی طور پر تسلط اور کنٹرول کا منظم نظام ہے۔ یہ وہی ماڈل ہے، جو کبھی بحران زدہ ملکوں میں بیرونی "انٹروینشن" کے بہانے نافذ کیا جاتا رہا ہے۔
پانچ خطرات جن سے غزہ کو گہرا نقصان ہوسکتا ہے:
1۔ خود ارادیت کا خاتمہ
غزہ کے حقیقی فیصلہ ساز عوام کے نمائندے نہیں رہ جائیں گے۔ شورائے صلح کے ہاتھ میں اختیار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام کی آواز مقامی سطح سے باہر ایک بین الاقوامی ڈھانچے کے اندر دب جائے گی۔
2۔ مزاحمتی ہتھیار چھیننا
بین الاقوامی فورس کی بطور امن دستہ تعیناتی کا مطلب ہوسکتا ہے کہ مزاحمتی گروہوں کو ہتھیاروں سے محروم کیا جائے۔ لیکن ہتھیاروں کی غیر مسلح کاری کے ساتھ اسرائیل کی طرّاحی یہ ہے کہ تنازع کو مکمل طور پر فلسطینیوں کے حقِ دفاع سے آراستہ انفرادیت سے ہٹا کر ایک نیا اسٹرکچرل تسلط قائم کیا جائے۔
3۔ تعمیرِ نو کا بیرونی ہتھکنڈہ
غزہ کی تعمیر نو کے منصوبوں پر بیرونی ممالک اور ڈونرز کا کنٹرول ہوگا اور مقامی ترجیحات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل سیاسی اہداف کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتا ہے، نہ کہ حقیقی انسانی بحالی اور کمیونٹی کی ترقی کا۔
4۔ لمبے عرصے تک غیر ملکی فوج کی موجودگی
منصوبے کے مطابق، فورس کی واپسی "اصلاحات پر پیشرفت" سے مشروط ہے، مگر یہ شرط بہت مبہم ہے اور اسے سالوں کے لیے بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، غزہ ایک دیرپا فوجی نگرانی والے زون میں تبدیل ہوسکتا ہے، جس کی آزادی محدود ہو جائے گی۔
5۔ فلسطینی ریاست کا دھندلا خواب
جہاں منصوبے میں فلسطینی ریاست کا ذکر ہے، مگر کوئی واضح نقشہ، سرحدیں، یا سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دی گئی۔ یہ وہ ریاست ہوگی، جو ظاہری طور پر وجود میں آئے گی مگر حقیقی خودمختاری سے محروم رہے گی۔
مڈل ایسٹ میں نئی صف بندی۔۔۔۔ سازش یا ضرورت؟
اس منصوبے کے علاوہ، مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیائی نقشہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔
ایران–اسرائیل تصادم: ایران کے میزائل حملے اور شاباک میں ایرانی جاسوسی نیٹ ورک کے انکشاف نے ثابت کیا ہے کہ یہ محض فوجی جھڑپیں نہیں، بلکہ ایک بڑے انٹیلی جنس اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہیں۔
سعودی عرب کا ایٹمی حتمی انحصار: امریکہ نے سعودی عرب کو یورینیم افزودگی کی اجازت دینے سے صاف انکار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی جوہری پروگرام مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں رہے گا۔
ایف-35 ڈیل اور محدود خودمختاری: سعودی عرب اگرچہ جدید ایف-35 طیارے حاصل کرے گا، مگر ان کا آپریشنل کنٹرول اور اپڈیٹس امریکہ کے ہاتھ میں ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ "جوڑ توڑ" طویل المدتی دفاعی خودمختاری نہیں دی جائے گی۔
روسی–ایرانی اتحاد کی بحالی: ایران اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی اور اسٹریٹجک تعاون نے خطے میں ایک قوی بلاک وجود میں لانے کی سمت دکھائی ہے، جو نئے امن یا نئے تنازع دونوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
شام اور لبنان میں کشیدہ صورتحال: نیتن یاہو کی جبل الشیخ پر پریس کانفرنس اور لبنان کے کچھ علاقوں سے خالی کرنے کے احکامات اس بات کا عندیہ ہیں کہ مستقبل میں فوجی کارروائیاں شدت اختیار کرسکتی ہیں۔
امن یا نیا تسلط؟
میری نظر میں یہ امریکی غزہ منصوبہ ایک "امن پیکیج" نہیں بلکہ ایک نئی شکست کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ غزہ کی مزاحمت جو طویل عرصے سے اپنی خودمختاری اور وقار کے لیے لڑ رہی ہے، اسے اب ایک ایسے سسٹم کے اندر محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس منصوبے سے فلسطینی عوام کی سیاسی آزادی محدود ہوگی، مزاحمتی قوتوں کو طاقت سے عاری کیا جائے گا، تعمیر نو کا کنٹرول بیرونی اداروں کے ہاتھ میں ہوگا، فوجی فورس ممکن ہے طویل عرصے تک مقیم رہے اور "فلسطینی ریاست" کے تصور کو حقیقت میں نہیں بلکہ تشہیر میں تبدیل کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ مستقبل میں خطے کی صف بندی کو بدلنے کا ایک اہم موقع ہے یا غلط ہاتھوں میں ایک خطرناک جال۔؟ اسلام ٹائمز کے قارئین کے سامنے یہ سوال کھڑا ہے: کیا ہم اس امن نامی سازش کو صرف ایک عارضی سفارتی ڈیل سمجھ کر قبول کریں، یا غزہ کی خود ارادیت اور فلسطینی ریاست کے حقیقی خواب کے حق میں کھڑے ہوں۔؟ آیئے، اس بات چیت کو آگے بڑھائیں۔ آپ کی آواز اور رائے ہی مستقبل کا نقشہ تبدیل کرسکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کی فلسطینی ریاست کیا جائے گا کے ہاتھ میں طویل عرصے نہیں بلکہ کا مطلب کرنے کی کیا جا رہی ہے غزہ کی
پڑھیں:
امریکہ پر اعتماد ایک تباہ کن غلطی
اسلام ٹائمز: عراق کے صدام سے لے کر لیبیا کے معمر القذافی اور دیگر کئی ممالک کے رہنماء ہمارے سامنے امریکہ سے دوستی کا خمیازہ بھگتتے ہوئے نشانِ عبرت بنے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنی امریکہ دوستی کی پالیسی پر نظرِثانی کریں اور ہمسایہ ممالک، بالخصوص چین، روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے پر توجہ دیں، کیونکہ اب طاقت کا توازن بھی مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ تحریر: جاوید اقبال غندوسی
چھیاسی سالہ پیرِ جماران مگر بلند ہمت اور جوان مرد یعنی حضرت امام خمینی نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ ہمیں امریکہ کی دشمنی سے نہیں بلکہ اس کی دوستی سے ڈرنا چاہیئے۔ یوکرائن کا امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ایک ہنستا بستا ملک اُجڑ گیا، وہاں انرجی کا سخت بحران پیدا ہوا، یہاں تک کہ صدر کے انٹرویو کے دوران بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور پورے اسٹوڈیو میں گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرائن میں انرجی کا بحران کس حد تک خوفناک صورتِ حال اختیار کرچکا ہے، کیونکہ کوئی بھی ملک کم از کم صدر کے انٹرویو کی حد تک کام کرنے کے لیے جنریٹر سمیت مختلف وسائل کا استعمال کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ نہیں ہونے دیتا۔
اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یوکرائن بظاہر اپنی سرزمین، جس پر روسی افواج کا قبضہ ہوچکا ہے اور اسلحہ سے ہاتھ اٹھانے کی بات کر رہا ہے۔ اتنی ذلت و رسوائی کی اس دور میں کوئی مثال نہیں ملتی، بالخصوص ایسی صورتِ حال میں جب اس ملک کو سپر طاقت سمجھے جانے والے ممالک کی حمایت حاصل ہو۔ یوکرائن ان تمام ممالک کے لئے درس عبرت ہے، جو دن رات امریکہ اور یورپ کے گُن گاتے نہیں تھکتے، یہاں تک کہ شیطانِ بزرگ کے صدر کو امن کے پیغمبر جیسے القاب سے نوازنے سے بھی نہیں کتراتے۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
یہ انجام صرف یوکرائن کا نہیں بلکہ ہر اُس ملک کا ہے، جو امریکہ و یورپ پر اعتماد کرتا ہے۔ امریکہ نے جس جس ملک میں اپنے نجس قدم رکھے، اُس ملک کو اُجاڑ کر ہی سُکھ کا سانس لیا۔ عراق کے صدام سے لے کر لیبیا کے معمر القذافی اور دیگر کئی ممالک کے رہنماء ہمارے سامنے امریکہ سے دوستی کا خمیازہ بھگتتے ہوئے نشانِ عبرت بنے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنی امریکہ دوستی کی پالیسی پر نظرِثانی کریں اور ہمسایہ ممالک، بالخصوص چین، روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے پر توجہ دیں، کیونکہ اب طاقت کا توازن بھی مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔