جے رام رمیش کے مطابق اس غیر معمولی صورتحال نے وزیراعظم کو بغیر کسی سیاسی دباؤ کے جنوبی افریقہ پہنچنے کا موقع فراہم کیا۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے وزیراعظم نریندر مودی کے جنوبی افریقہ میں جاری جی-20 سربراہی اجلاس میں شرکت پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اپنی تفصیلی ایکس پوسٹ میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی کا یہ دورہ اسی لئے ممکن ہوا کیونکہ امریکہ اور اس کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جے رام رمیش کے مطابق اس غیر معمولی صورتحال نے وزیراعظم کو بغیر کسی سیاسی دباؤ کے جنوبی افریقہ پہنچنے کا موقع فراہم کیا۔ جے رام رمیش نے اپنی پوسٹ میں اس واقعے کا بھی حوالہ دیا جب چند روز پہلے وزیراعظم نریندر مودی نے کوالالمپور میں ہونے والے ہندوستان–آسیان اجلاس میں شرکت سے گریز کیا تھا۔ جے رام رمیش نے الزام لگایا کہ وزیراعظم نے اس اجلاس میں اس لئے شرکت نہیں کی کیونکہ وہاں صدر ٹرمپ کی موجودگی سے ان کا سامنا ہونے کا امکان تھا۔ ان کے مطابق جس ملاقات کا سامنا نہ کرنا ہو، اس سے بچنے کے لئے راستہ بدلا جاتا ہے۔

کانگریس لیڈر نے اپنی تنقید کو مزید واضح کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے اس بیان پر بھی روشنی ڈالی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ جنوبی افریقہ کی جانب سے جی-20 اجلاس کے لئے منتخب کردہ تھیم "یکجہتی، مساوات اور پائیدار ترقی" کی مخالفت کرتا ہے۔ روبیو کے مطابق یہ تھیم "امریکہ مخالف" ہے۔ جے رام رمیش نے طنزیہ انداز میں یاد دلایا کہ یہی روبیو وہ شخص ہیں جنہوں نے 10 مئی کی شام 5 بج کر 37 منٹ پر دنیا کے سامنے "آپریشن سندور کو روکنے" کا اعلان کیا تھا۔ اپنی پوسٹ میں جے رام رمیش نے جی-20 صدارت کے تسلسل پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان نے نومبر 2023ء میں انڈونیشیا سے صدارت حاصل کی تھی اور نومبر 2024ء میں اسے برازیل کے حوالے کر دیا تھا۔ اب جنوبی افریقہ کو یہ صدارت امریکہ کے سپرد کرنی ہے، مگر خود امریکہ اس بار اجلاس میں شریک ہی نہیں، ان کے مطابق یہ صورتحال سفارتی روایت کے لحاظ سے "نہایت غیر معمولی" ہے۔

جے رام رمیش نے پیش گوئی کی کہ اگلا جی-20 اجلاس ایک سال بعد امریکہ میں ہوگا۔ ان کے مطابق ممکن ہے کہ اس دوران ہندوستان امریکہ تجارت یا کسی اہم ڈیل پر پیش رفت ہو جائے، لیکن اصل مسئلہ صدر ٹرمپ کے مسلسل دعوے ہیں۔ جے رام رمیش نے کہا کہ صدر ٹرمپ پچھلے سات مہینوں میں 61 بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے آپریشن سندور کو روکا، اس لئے آنے والے بارہ مہینوں میں وہ یہ بات نہ جانے کتنی بار دہرانے والے ہیں۔ اپنی پوسٹ کے اختتام میں جے رام رمیش نے وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے تعلقات کے بدلتے ہوئے انداز پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آنے والا وقت یہ بتائے گا کہ کیا "میرے اچھے دوست" والی سفارت کاری دوبارہ دکھائی دے گی، یا بات صرف رسمی مصافحہ تک محدود رہے گی، یا پھر وزیراعظم دوبارہ کسی ایسے اجلاس سے گریز کریں گے جہاں صدر ٹرمپ موجود ہوں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جنوبی افریقہ اجلاس میں کے مطابق انہوں نے

پڑھیں:

دہلی دھماکے نے مودی حکومت کی سکیورٹی پالیسی پر سوال اٹھائے ہیں، سلمان خورشید

سابق وزیر خارجہ نے الزام لگایا کہ مودی حکومت کی اسٹریٹجک ناکامیاں اب واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر سلمان خورشید نے کہا کہ دہلی میں لال قلعہ کے قریب حالیہ دھماکے نے حکومت کی سکیورٹی پالیسی پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کو پارلیمنٹ میں اس غلطی کا فوری جواب دینا چاہیئے۔ سابق وزیر خارجہ نے الزام لگایا کہ مودی حکومت کی اسٹریٹجک ناکامیاں اب واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے ذاتی اور کبھی کبھار خارجہ پالیسی کے بجائے ایک مستحکم خارجہ پالیسی پر زور دیا۔ سلمان خورشید نے کہا ہماری ایک مستحکم خارجہ پالیسی ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے پاس مستحکم خارجہ پالیسی ہے، ہماری ایک چھٹپٹ، کبھی کبھار، ذاتی نوعیت کی اور مضحکہ خیز خارجہ پالیسی ہے، یہ خارجہ پالیسی (ہرگز) نہیں ہے۔

انہوں نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب "انڈیاز ٹریسٹ ود دی ورلڈ: اے فارن پالیسی مینی فیسٹو" کے بارے میں بھی بات کی۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا ایک مضمون بھی شامل ہے۔ کتاب کو سلمان خورشید نے ایڈٹ کیا ہے اور سلیل شیٹی نے لکھا ہے۔ کانگریس نے نئے نارمل نظریے پر حکومت کے موقف کی وضاحت کا مطالبہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اب دہشت گردانہ حملوں کو جنگی کارروائیوں میں شمار کیا جائے گا۔ سلمان خورشید نے جواب دیا کہ ہم اندھے قوم پرست نہیں ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کو ان کی بات سننی چاہیئے جو قوم کے بارے میں سوچتے ہیں۔

کانگریس کے خارجہ امور کے شعبہ کے چیئرمین نے کہا کہ لال قلعہ کے قریب جو کچھ ہوا اس سے ہم حیران ہیں، ان تمام دنوں میں حکومت کی طرف سے دو باتوں پر کوئی واضح بیان نہیں آیا ہے کہ یہ انٹیلی جنس ناکامی کیسے ہوئی اور اس کے کیا مضمرات ہیں۔ سلمان خورشید نے کہا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو پلٹ کر کانگریس سے کہتے ہیں، آپ حکومت پر کافی دباؤ کیوں نہیں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "سچ کہوں تو، اگر اعتماد کا بحران ہے، یا کوئی اسٹریٹجک بحران ہے، تو یہ ملک اور عوام کے تئیں ہمارا فرض ہے کہ وہ حکومت کو بہترین ممکنہ فیصلے کرنے دیں اور پھر اس کی غیر واضح حمایت کریں، لیکن آپ اپوزیشن سے یہ کیا امید کر سکتے ہیں کہ لوگ حکومت سے اعتماد نہیں کریں گے"۔

کانگریس لیڈر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ دھماکہ مودی حکومت کی سیکورٹی پالیسی پر بہت سنگین سوالیہ نشان ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پارٹی مطالبہ کر رہی ہے کہ وزیر اعظم ایوان میں اس معاملے پر جواب دیں، سلمان خورشید نے کہا کہ کیا ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ پارٹی کا مطالبہ ہے تو انہوں نے جواب دیا بالکل۔ دہلی دھماکے کے بعد، کانگریس نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم مودی کی صدارت میں ایک آل پارٹی میٹنگ بلائیں اور دہشت گردی کے خطرے پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے یکم دسمبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کو آگے بڑھائیں۔

متعلقہ مضامین

  • صنعتی ترقی کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • صنعتی ترقی کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں، وزیراعظم
  • معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی اور آمدن میں اضافہ صنعتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں، وزیراعظم
  • معاشی ترقی، روزگار  کی فراہمی اور آمدن میں اضافہ صنعتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں، وزیراعظم
  • معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی اور آمدن میں اضافہ صنعتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں، وزیراعظم
  • معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی اور آمدن میں اضافہ صنعتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں: وزیراعظم
  • امریکی رپورٹ میں پاکستان کو برتر قرار دینے پر انڈین نیشنل کانگریس برہم
  • امریکہ سے مریم نواز کے نام خط آگیا ، تعریفوں کے پل باندھ دئیے
  • دہلی دھماکے نے مودی حکومت کی سکیورٹی پالیسی پر سوال اٹھائے ہیں، سلمان خورشید