اسلامی دنیا کی حمایت سے طے پانے والا ’ غزہ امن منصوبہ‘ اور پاکستان کا مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے غزہ امن منصوبے کی باقاعدہ منظوری دے دی، جس کے بعد یہ منصوبہ عالمی قانون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان نے اس پیش رفت کو نہایت خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن، جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کی بحالی کے لیے یہ پیشرفت فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
رپورٹ کے مطابق 2 سالہ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلا اور انسانی امداد کی فوری فراہمی جیسے اقدامات اسی منصوبے کے ذریعے ممکن ہوں گے۔
امریکی کردار اور ذمہ داریامریکہ نہ صرف اس منصوبے کی منظوری کا حصہ بنا بلکہ اسے تشکیل دینے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اب اس منصوبے کی ساکھ براہِ راست امریکی حکمتِ عملی سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ امریکی قیادت، خصوصاً صدر ٹرمپ اس کے عملی نفاذ کے حوالے سے عالمی سطح پر ذمہ دار سمجھی جا رہی ہے۔
منصوبے کو مسلم دنیا سمیت عالمی برادری کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اختلافات صرف چند تکنیکی پہلوؤں تک محدود ہیں۔
اسرائیلی انخلا، جنگ بندی اور انسانی امدادغزہ میں جاری انسانی المیے کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے میں فوری جنگ بندی، مرحلہ وار اسرائیلی انخلا اور انسانی امداد کی بحالی کو بنیادی نکات قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:استنبول میں غزہ جنگ بندی پر بات چیت: اسٹیو وٹکوف کی خلیل الحیّہ سے ایک اور ملاقات طے
منصوبہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے کسی بھی علاقے پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا، جبری ہجرت کو ظلم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے، اور فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد اسرائیل کو اسے تسلیم کرنا ہوگا۔
ISF کی تعیناتی: امن کا عملی ڈھانچہاقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (ISF) غزہ میں فوری تعینات کی جائے گی جس کے ذمے غزہ کی سیکیورٹی سنبھالنا، فلسطینی پولیس کی تربیت، بارڈر سیکیورٹی، امدادی کارروائیوں کے محفوظ راستے کو یقینی بنانا اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی نگرانی شامل ہوں گے۔
ISF کی موجودگی ہی تعمیرِ نو، بحالی اور غزہ میں معمولاتِ زندگی کی واپسی کا بنیادی ذریعہ ہوگی۔
اسرائیل کے اندر مخالفت اور دباؤ
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے اندر چند انتہا پسند گروہ اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں، تاہم عالمی دباؤ اور فلسطینی مؤقف کی مضبوطی نے اسرائیل کو اس معاہدے پر آمادہ کیا۔
فلسطینی حکومت نے نہ صرف منصوبے کی حمایت کی بلکہ اس کے فوری نفاذ پر زور بھی دیا ہے۔ حماس بھی یہ منصوبہ منظور کر چکی ہے اور اس پر امریکا اور مصر کی ثالثی میں دستخط ہو چکے ہیں۔
دو ریاستی حل کی بین الاقوامی تصدیقیہ امن منصوبہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کی تاریخی توثیق ہے۔ پاکستان کے مطابق 1967 کی سرحدوں کے مطابق ریاستِ فلسطین کا قیام، القدس کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرنا، اور قبضے، محاصرے اور جبری بے دخلی کا خاتمہ ہی دیرپا امن کا راستہ ہیں۔
پاکستان کا مؤقف: غیر جانب دار مگر واضحپاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی طاقت کی سیاست کا فریق نہیں۔ اس کا کردار صرف انسانی بنیادوں تک محدود ہوگا تاکہ غزہ کے محفوظ مستقبل کی ضمانت دی جا سکے۔
پاکستان امن مشنز میں 200,000 سے زائد جوان بھیج چکا ہے اور اسے عالمی سطح پر قابلِ اعتماد امن شراکت دار مانا جاتا ہے۔ حکومت کے مطابق پاکستان ان 8 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس امن منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔
پاکستانی مؤقف کے مطابق ہماری وابستگی صرف فلسطینی عوام کی مرضی سے مشروط ہے اور ہم ظلم کے خاتمے، انسانی بقا اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کھڑے ہیں۔ خاموش رہنا یا اس کی مخالفت کرنا منافقت کے مترادف ہوگا۔
امن، تعمیرِ نو اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہمواررپورٹ کے مطابق غزہ، مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس ریاستِ فلسطین کا لازمی اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد ہی غزہ میں تباہ شدہ گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی، انسانی بقا اور باوقار زندگی کی بحالی کا واحد راستہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطین پر مؤقف اٹل، پاکستان کو غزہ بھیجے جانے والی فورس کا حصہ بننا چاہیے، وزیر دفاع خواجہ آصف
پاکستان نے ایک بار پھر اعادہ کیا کہ حقیقی امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور یہی اس منصوبے کا بنیادی خلاصہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی دنیا امریکا پاکستان صدر ٹرمپ غزہ غزہ امن منصوبہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلامی دنیا امریکا پاکستان اور فلسطینی ریاست ریاست کے قیام منصوبے کی کی بحالی کے مطابق
پڑھیں:
سلامتی کونسل نے ٹرمپ کا امن منصوبہ منظور کردیا، غزہ میں عالمی استحکام فورس کی منظوری
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ ختم کرنے اور وہاں ایک بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے تاہم حماس نے اسے مسترد کردیا۔
اسرائیل اور حماس گزشتہ ماہ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے یعنی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے پر متفق ہو گئے تھے، تاہم عالمی سطح پر اس منصوبے کو جائز حیثیت دلانے اور فورس بھیجنے والے ممالک کو یقین دہانی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
قرارداد کے متن کے مطابق رکن ممالک غزہ کی تعمیرِ نو اور معاشی بحالی کے لیے مجوزہ ‘بورڈ آف پیس’ میں حصہ لے سکیں گے، جو ایک عبوری حکومتی ادارے کے طور پر کام کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرارداد غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کی تعیناتی کی اجازت بھی دیتی ہے، جس کا مقصد غزہ کو غیر مسلح کرنا، اسلحہ ناکارہ بنانا اور عسکری ڈھانچے کو ختم کرنا ہے۔
حماس نے قرارداد کو مسترد کردیاحماس نے قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوگی اور اسرائیل کے خلاف اپنے ہتھیاروں کو قانونی مزاحمت سمجھتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ قرارداد غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی کا نظام مسلط کرتی ہے، جسے ہمارا عوام اور اس کی مزاحمتی تنظیمیں قبول نہیں کرتیں۔
امریکا کا موقفصدر ٹرمپ نے بھی ووٹ کے بعد اسے تاریخی لمحہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ جلد بورڈ آف پیس کے ارکان اور دیگر فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا۔
امریکی مندوب مائیک والٹز نے کونسل کو بتایا کہ یہ قرارداد فلسطینیوں کے لیے خود ارادیت کی ممکنہ راہ کھولتی ہے، جس میں راکٹوں کی جگہ زیتون کی شاخیں لیں گی۔
یہ بھی پڑھیے: فلسطینی ریاست کا قیام قبول نہیں: سلامتی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل نے مخالفت کردی
والٹز کے مطابق منصوبہ حماس کا غزہ پر قبضہ ختم کرے گا اور علاقے کو دہشت کے سائے سے آزاد کرے گا۔
روس اور چین کی ناراضی، لیکن ووٹ سے اجتنابروس اور چین نے قرارداد سے متعلق کئی تحفظات کا اظہار کیا، تاہم دونوں نے ووٹنگ میں عدم شرکت (abstain) اختیار کی، جس کے باعث قرارداد منظور ہو گئی۔
روسی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل نے واشنگٹن کے وعدوں پر مبنی ایک امریکی منصوبے کو اندھے اعتماد کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی حمایتفلسطینی اتھارٹی نے قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی حمایت نے روس کو ویٹو سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان کا ردعملپاکستان کے مستقل اقوام متحدہ میں مندوب عاصم افتخار نے آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پلان کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی علاقے میں جاری لڑائی روکنے کی جانب ایک قدم ہے، اگرچہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق پر ووٹنگ متوقع، مسودے میں کیا ہے؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عاصم افتخار نے کہا کہ اس منصوبے نے تنازع میں وقفہ لانے میں مدد دی ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کی کوششوں کو قابلِ ستائش قرار دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اسرائیل میں تنازع: فلسطینی ریاست کے امکان کا ذکرقرارداد میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مناسب حالات میسر آنے پر فلسطین کو ریاست کا راستہ فراہم ہو سکتا ہے۔ یہ نکتہ اسرائیلی سیاست میں تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔
قرارداد کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بعد قابل اعتماد راستہ فلسطینی ریاست کی جانب ممکن ہو سکے گا۔ امریکا اس سلسلے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان نیا سیاسی مکالمہ شروع کرے گا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کی کسی بھی شکل کے خلاف رہے گا اور وہ غزہ کو آسان یا مشکل دونوں طریقوں سے غیر مسلح کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ سلامتی کونسل غزہ فلسطین