نظام کی اصلاح کے لیے اسلوبِ دعوت
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
داعی کا دعوتی اسلوب خود حق وباطل، ہدایت اور گمراہی، شرک و توحید، بندگیِ نفس اور بندگیِ رب میں فرق کو واضح کر دیتا ہے اور یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے، جب اہل ایمان اپنے آپ کو دیگر انسانوں سے کاٹ کر الگ ہو کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ انھیں خیر خواہی کے ساتھ ہدایت و فلاح کی طرف بلاتے رہیں (الدین نصیحہ، رواہ مسلم، دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے)۔ اس کام میں شارع علیہ السلام کی قائم کی ہوئی تدریجی حکمت عملی اہمیت رکھتی ہے۔ یعنی کلمۂ حق، دعوت خیر و فلاح و سعادت صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو، اللہ کے رسولؐ کے لیے ہو، اور پھر جو صاحبِ امر ہوں ان کی اور عامۃالمسلمین کی اصلاح اور مصلحت عامہ کے لیے ہو۔
دعوت اسلامی کے علَم برداروں بلکہ عام کارکنوں کی بھی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ طاغوت اور کفر و شرک کے خلاف شدت کے ساتھ اپنی آواز بلند کریں۔ بلاشبہہ ایمان اور کفر میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی، لیکن اسلام کی دعوت کا مزاج مخالف کو اپنی قوت سے شکست دینے کی جگہ دلیل کی قوت اور نرمی ومحبت سے دل جیت کر دائرہ اسلام میں شامل کرنے کا ہے۔ اس لیے دعوت کی زبان میں شدت کی جگہ نرمی اسلام کا شعار ہے۔ رب کریم نے حضرت موسٰی کو واضح ہدایت فرمائی:
”جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے“ (طٰہٰ: 43-44)۔
فن خطابت اور سیاست کاری کے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ کس طرح مخالف کو دباؤ میں لاکر گفت و شنید پر آمادہ کیا جائے۔ قرآن کریم غور وفکر اور آیاتِ کائنات اور اپنے وجود پر غور کی دعوت دے کر ہمدردی کے ساتھ نصیحت اور تذکیر کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ اس لیے اسلام کا داعی اور کارکن اپنے مخالف کو تضحیک واستہزا کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ وہ اسے چور اچکا کہہ کر مخاطب نہیں کرسکتا، گو زبان کے ذریعے دعوت ایک معروف طریقہ ہے لیکن قرآن کریم اس سے بھی زیادہ مؤثر طریقے کی طرف متوجہ کرتا ہے، یعنی اپنے عمل کے ذریعے دعوتِ دینا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ:
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں“ (الصف: 2-3)۔
اس آیت کی روشنی میں دعوت کا بہترین اسلوب ایک داعی کا اپنا طرز عمل ہے کہ وہ اپنی سیرت وکردار سے کیا پیغام دے رہا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے داعی کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ جس بات کی دعوت دیتا ہے اس پر پہلے خود عمل کر کے اس کے قابلِ عمل ہونے کو اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرتا ہے۔
عملی شہادت ہی دعوت کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ اپنے آخری خطاب میں نبی کریمؐ نے اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر تمام حاضرین سے یہ شہادت لی تھی کہ آپؐ نے اپنے عمل و کردار کے ذریعے کیا اس علمِ ہدایت اور پیغام کو پہنچا دیا جو بطور امانت آپ کے سپرد کیا گیا تھا؟
فریضۂ اقامت دین ہی تحریکات اسلامی کے وجود کا سبب ہے اور اس کی صحیح ادایگی ہی آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ دین کا مذاق اڑانے والوں اور کفر وشرک کے علم برداروں کو دعوت الیٰ اللہ دینا تحریک کی بنیادی ذمے داری ہے۔ تاہم، مخالفین کو کس طرح مخاطب کیا جائے؟ اس سلسلے میں قرآنی اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے کہ کس طرح طاغوت کے نمایندے کے ساتھ بھی قول لیّن اختیار کیا جائے۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ اس کا ردّ پوری قوت سے کیا جائے اور منکر کو مٹانے کے لیے اپنی تمام قوت لگا دی جائے، لیکن مشرکین کے خداؤں کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا جائے جو انھیں مشتعل کرکے نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے پر اُبھار دیں۔ دین ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم مخالفینِ دعوت کو بھی بُرے القاب سے نہ پکاریں۔ ان ہدایات پر عمل ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
قرآن کریم ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز کرتا ہے، اس میں دانشمندی، حکمتِ دعوت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور دین مداہنت، موقع پرستی اور تجاہل عارفانہ کو ناپسند کرتا ہے کیوں کہ اس کا اصل ہدف کفر و شرک، گمراہی اور ضلالت ہے، کسی کی ذات نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ فرد کو برائی سے نکال کر غم گساری اور نرمی کے ساتھ حقیقی کامیابی سے روشناس کرادے۔ یہ کام فرد کو ہدف اور نشانہ بنا کر نہیں ہو سکتا۔ اس میں فرد کی جگہ نظام پر گرفت و تنقید اور متبادل نظام کا پیش کیا جانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم اپنی دعوت کا آغاز باطل نظام کی نفی سے کرتا ہے اور متبادل نظامِ عبودیت کو اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ پیش کر کے برہانِ قاطع کی حیثیت سے اپنی بات کو انجام تک پہنچاتا ہے۔
اسلام کا اصل کارنامہ کوئی فلسفیانہ نظام پیش کرنا نہیں تھا بلکہ ایسی قابلِ عمل اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، ثقافتی تعلیمات کا پیش کرنا ہے جن کی عملی تفسیر داعی کی ذاتی زندگی، گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تعلق، پڑوسی کے حقوق کا ادا کرنا، حتیٰ کہ راستے کے حقوق پر عمل کرنا کہ راستے تک میں کوئی غلاظت اور رکاوٹ نہ ہو، جس سے راہگیر پریشان ہوں۔ تجارت میں کس طرح حلال و حرام میں تمیز، صارف کے ساتھ رویہ، غرض تجارتی، معاشرتی، سیاسی معاملات میں کس طرح کا رویہ اختیار کیا جانا ہے۔
گویا اسلامی نظام حیات ایک جانب کفر اور شرک پر مبنی نظام پر سخت فکری تنقید کرتا ہے اور دوسری جانب عملاً ایک متبادل نظام کو خاندان اور معاشرے میں نافذ کر کے معروف اور نیکی کی برتری کو ایک قابل محسوس شکل دے دیتا ہے۔
قرآن و سنت کی تنقید و احتساب کا ہدف باطل نظام ہے۔ لیکن باطل نظام میں بھی ایسے پاک نفوس پائے جاسکتے ہیں جن کو دعوتِ حق حکمت اور محبت سے دی جائے تو دائرۂ حق اور اسلام میں داخل ہو جائیں۔ یہ کام طنز، طعن اور تضحیک یا تحقیر سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے اعلیٰ ظرف کے ساتھ دعوتِ حق دینے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور وہ تحریکِ اسلامی کے پرچم تلے آنے میں رکاوٹ محسوس نہ کریں۔ اس کام میں شفقت، رحمت، عفو و درگزر اور اللہ کے لیے مخالفین کے ہر ظلم کو بھلا دینا ہی دعوت کی حکمت عملی ہے۔
اسلام اور کفر و ظلم کے مقابلے میں دین کا مدعا کسی فریق کو شکست دے کر چت کر دینا نہیں ہے، بلکہ فریقِ مخالف کے دل کو جیتنا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی اَنا کی بنیاد پر بہت سے معاملات میں عقل کے خلاف کام کرنے میں بھی حرج نہیں محسوس کرتا۔ داعی کا کام یہی ہے کہ وہ مخالف کی مصنوعی اَنا کو مجروح کیے بغیر، اسے نشانۂ تضحیک و تذلیل بنائے بغیر اپنی وسعت قلب کے ساتھ دائرہ حق میں ظلمات سے نور کی طرف لے آئے۔ دین اپنی تعلیم و فہم کے ذریعے دین کی دعوت کی عظمت و حقانیت سے آگاہ کرتا ہے اور ایسے افراد بھی جو صدیوں سے اپنی برادری کی عظمت اور چودہراہٹ کے شکار رہے ہوں داعی کی ہمدردی، غمگساری اور محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ وہ اہل مکہ جو اپنی قبائلی عصبیت و برتری اور معاشی خوش حالی اور مذہبی قیادت کے سہ آتشہ نشے اور رعونت کے شکار تھے۔ ایسے اَنا زدہ افراد بھی نبی رحمتؐ کی محبت، نرمی، عفو ودرگزر کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکے۔ آج تحریکات اسلامی کو یہی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ قول لَیِّن ہی وہ برہان قاطع ہے، جس سے دلوں کی دنیا فتح کی جاسکتی ہے اور جس کی تعلیم خود خالق کائنات نے اپنے انبیا ؑکو دی۔
انبیاے کرامؑ کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ مشرکین کے بتوں کو اور مشرکین کو سخت الفاظ سے مخاطب کرتے اور انھیں چور، ڈاکو، قاتل، شیطان جو چاہتے کہتے اور ان کا یہ کہنا نامناسب بھی نہ ہوتا۔ اس کے برخلاف انبیاے کرامؑ نے اور خصوصاً نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی انسانیت کو بنیاد بنا کر بار بار انھیں دعوت کی طرف متوجہ کیا۔ قرآن کریم کی یہ دعوتی نفسیات انبیاے کرامؑ کے طریق دعوت کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کل تک جو اپنے ظلم، جہل اور گمراہی کی بنا پر طاغوتی تھا، دین کی دعوت اور نصیحت نے اسے اللہ کا مددگار بنا دیا اور جان کے دشمن، جاں نثاروں میں تبدیل ہوگئے۔
دعوتِ قرآن نے جس شدت کے ساتھ جاہلیت، استحصال، ظلم اور کفر کو رد کیا وہیں اس سے زیادہ دلیل کی قوت کے ساتھ اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی، انفرادی، مالی اور سیاسی تزکیہ کے اصول پیش کر کے ایک مکمل متبادل نظامِ حیات سامنے لا کر رکھ دیا کہ اس نور و ہدایت کی وجہ سے ظلمتِ کفر و شرک سکڑنے پر مجبور ہو جائے۔ حق آجائے اور باطل کو قطعی شکست ہو جائے کیونکہ باطل تو شکست کھانے ہی کے لیے ہے۔ چنانچہ نور حق کفر و شرک پر غالب آگیا اور ایک قابل محسوس اسلامی معاشرہ، اسلامی خاندان، اسلامی تجارت و معیشت و کاشتکاری، اسلامی نظامِ عدل، اسلامی بین الاقوامی قانون کے وجود نے باطل نظام کو ایک اعلیٰ اخلاقی نظام سے تبدیل کر دیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کفر و شرک کیا جائے کے ذریعے ہے کہ وہ نہیں ہو دعوت کا کرتا ہے دعوت کی اور کفر اللہ کے کے ساتھ کی دعوت پیش کر ہے اور کے لیے کی طرف
پڑھیں:
ناسا نے خلا میں موجود پُراسرار ابجیکٹ کی نئی تصاویر جاری کردیں
واشنگٹن (ویب ڈیسک)امریکی خلائی ادارے ناسا نے ہمارے نظام شمسی میں آنے والے دم دار ستارے کی قریبی تصاویر جاری کر دیں۔
کامیٹ 3I/Atlas اس وقت اپنے مختصر دورے پر ہمارے نظامِ شمسی میں موجود ہے جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔
اس جِرمِ فلکی کی نشاندہی کچھ ماہ قبل کی گئی تھی جو کسی اور ستارے کے گرد چکر لگا کر ہمارے نظامِ شمسی میں داخل ہوا تھا۔
دلچسپ خصوصیات کی وجہ سے اس کے متعلق قیاس کیا گیا تھا کہ یہ ممکنہ طور پر خلائی مخلوق کا اسپیس کرافٹ ہو سکتا ہے۔
یہ دم دار ستارہ آئندہ ماہ دسمبر کے وسط میں زمین سے 26 کروڑ 90 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گا۔ جس کے بعد یہ خلا کی گہرائیوں میں نکل جائے گا اور کبھی واپس نہیں آئے گا۔