پاکستان ریلویز کا انفرا اسٹرکچر انتہائی خستہ حال،ایم ایل ون منصوبہ درد سر بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
لاہور:(نیوزڈیسک)ایم ایل ون منصوبہ پاکستان ریلویز کے لیے درد سر بن گیا، منصوبے میں تاخیر اور بروقت تعمیر و مرمت نہ ہونے سے پاکستان ریلویز کا انفرا اسٹرکچر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔
مسافر ٹرین ہو یا مال بردار ریل گاڑی کچھوے کی رفتار سے چلنے پر مجبور، اگر ریل گاڑی کی اسپیڈ بڑھائیں تو ریل کار پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔ مسافروں کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں کے ڈرائیورز بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
پاکستان ریلویز کا ڈیڑھ پونے 200 سال پرانا ریلوے ٹریک ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو چکا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی بروقت روانگی اور آمد میں 7 سے 9 گھنٹے تک کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔
ریل گاڑیوں کے ڈرائیورز ٹرینوں کی ’’بک اسپیڈ‘‘ کے بجائے انتہائی کم سپیڈ پر ریل گاڑیوں کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان ریلویز کے تقریباً 1900 کلومیٹر ریلوے ٹریک میں 1100 کلومیٹر ٹریک پر ’’بک اسپیڈ‘‘ کے بجائے انتہائی کم اسپیڈ پر گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ یعنی ڈرائیو کو پابند کر دیا گیا ہے کہ ریل گاڑی کو اصل اسپیڈ پر نہیں چلانا ہیں۔
ای ار انجینئرنگ ریکسٹکشن لگا دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹرینیں بعض اوقات کچھوے کی رفتار سے چلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ بک اسپیڈ کے حساب سے پیسنجر ٹرین ڈاؤن و اَپ 110 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے مگر اس کی اسپیڈ کہیں 55 کلو میٹر تو کہیں 78 کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ کسی ٹریک پر اگر 100 کی اسپیڈ کو چھو لے تو گاڑیاں یا تو پٹڑی سے اتر کر الٹ جاتی ہیں یا کسی نہ کسی اور حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں۔
پاکستان ریلوے سے سفر کرنے والے مسافروں کو کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ خستہ حالی کی وجہ سے بعض اوقات پاکستان ریلوے کو اپنی ریل گاڑیاں منسوخ کر کے مسافروں کو دوسری گاڑیوں میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
ریلوے ٹریک کراچی سے پشاور تک جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کو وقتاً فوقتاً مرمت کر کے ریلوے انتظامیہ گاڑیوں کی آمدورفت کو چلانے میں مصروف عمل ہے، سب سے زیادہ خستہ حالی کا شکار سکھر سے کراچی تک کا ریلوے ٹریک ہے۔ یہاں پر گڈز اور مسافر ٹرینوں کے لیے 100 سے زائد انجینئرنگ ریکسٹکشن ہے۔
ریل گاڑی کی رفتار کی حد کو محدود کر دیا گیا ہے، یہاں پر ریلوے کی اوسط رفتار 50 سے 55 کلو میٹر فی گھنٹہ کے درمیان ہے جبکہ بات کریں ملتان، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کی تو وہاں پر ریلوے کی رفتار کہیں 78 کلومیٹر ہے تو کہیں 80، اگر 90 اور 100 کو چھو بھی جائے تو اس کے بعد ڈرائیور کو بریک لگانا پڑ ہی جاتی ہے کیونکہ پاکستان ریلوے نے سال 2015 سے ریلوے ٹریک کی اَپ گریڈیشن پر سی پیک کے تحت بننے والے پروجیکٹ ایم ایل ون پر توجہ ہی نہیں دی۔
یہی وجہ ہے کہ ریلوے انتظامیہ بوگیاں اور انجن ہونے کے باوجود صرف ٹریک کی خستہ حالی کے باعث بہت ساری ٹرینیں بروقت چلانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
اس سلسلے میں چیف ایگزیکٹو ریلوے عامر علی بلوچ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹریک پر بھی کام ہو رہا ہے، سکھر ڈویژن میں چلے جائیں تو بہت سارا حصہ پرانا ہے۔ اس ڈویژن میں بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور تقریباً پانچ پانچ ارب کی لاگت سے کام ہو رہا ہے۔ کراچی روہڑی کی خوشخبری کئی دفع دے چکے ہیں جبکہ ریلوے اسٹیشن کی اَپ گریڈیشن جاری ہے۔
لاہور، کراچی، فیصل آباد اور راولپنڈی اسٹیشن اَپ گریڈ ہو چکے ہیں۔ مسافروں کو بروقت پہچانے سمیت دیگر جدید سہولیات بھی فراہم کر رہے ۃٰں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بھی ریل گاڑیوں کو چلایا جا رہا ہے جہاں آرام دہ سیٹوں کے ساتھ ساتھ ذائقے دار کھانے پینے کی اشیاء بھی انتہائی مناسب قیمت میں فراہم کی جا رہی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان ریلویز ریل گاڑیوں ریلوے ٹریک خستہ حالی ریل گاڑی کی رفتار کلو میٹر کا شکار رہا ہے
پڑھیں:
حکومت کا سیمی کنڈکٹر چِپ منصوبہ کیا ہے، یہ کتنا موثر ثابت ہوگا؟
حکومتِ پاکستان کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی پیش رفت ہوئی ہے۔ سیمی کنڈکٹر چِپ ڈیزائن اور ریسرچ کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس منصوبہ کو ملک کو عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں جگہ دلانے اور معیشت کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کرنے کی ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں 7200 افراد کو ٹریننگ دی جائے گی۔
سیمی کنڈکٹر چپ آخر ہے کیا؟سیمی کنڈکٹر چِپ ایک چھوٹی سی الیکٹرانک چپ ہوتی ہے جو بجلی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ چِپ تقریباً ہر الیکٹرانک آلے جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑی، ٹی وی، یا حتیٰ کہ جدید گھریلو مشینوں کا ’دماغ‘ سمجھی جاتی ہے۔
اس منصوبے کے لیے حکومت نے ابتدائی مرحلے میں تقریباً 4.8 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو چِپ ڈیزائن، ویریفکیشن اور سسٹم انجینئرنگ کی تربیت دینا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ملک کی مختلف جامعات میں جدید ’انٹیگریٹڈ سرکٹ لیبارٹریز‘ قائم کی جائیں گی، جہاں ریسرچ اور پروڈکشن کے لیے جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
وزیرِ اطلاعات و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ نے ایک تقریب میں کہا کہ پاکستان کو اب سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی میں قدم رکھنا ہوگا کیونکہ مستقبل کی معیشت اسی صنعت پر منحصر ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس شعبے کی تربیت حاصل کریں تاکہ پاکستان عالمی چِپ سپلائی چین کا حصہ بن سکے۔
یہ منصوبہ کتنے مراحل پر مشتمل ہے؟یہ 3 مراحل پر مشتمل جامع پروگرام ہے، جس کا پہلا مرحلہ ‘انسپائر’ (انیشی ایٹو ٹو نرچر سیمی کنڈکٹر پروفیشنلز فار انڈسٹری، ریسرچ اینڈ ایجوکیشن) ہے، جو انسانی وسائل کی تربیت پر مرکوز ہے اور اسے 4.5 سے 4.8 بلین روپے کی عوامی شعبہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) فنڈنگ سے شروع کیا گیا ہے۔
منصوبے کے مطابق حکومت فی الحال چِپ ڈیزائن اور تحقیق پر توجہ دے رہی ہے، جبکہ آئندہ مرحلے میں اسمبلی، پیکجنگ اور ٹیسٹنگ فیسلٹیز قائم کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پائیدار سمجھا جاتا ہے، کیونکہ چِپ مینوفیکچرنگ کی فیکٹریاں (فَبز) اربوں ڈالر کی لاگت اور تکنیکی پیچیدگی کی متقاضی ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قومی سیمی کنڈکٹر ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر نوید شیروانی نے بتایا کہ یہ نقشہ پاکستان کو عالمی سپلائی چین میں شامل کرے گا، جہاں سیمی کنڈکٹرز اسمارٹ فونز سے لے کر سیٹلائٹس اور الیکٹرک وہیکلز تک کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 2030 تک 1,000 سیمی کنڈکٹر انجینئرز کی تربیت کا ہدف رکھا گیا ہے، جبکہ مجموعی طور پر 7,200 پروفیشنلز کو فائیو ایئرز میں ڈیزائن، ویریفکیشن، اور ریسرچ میں مہارت دی جائے گی، جو نہ صرف ہزاروں ہائی سکلڈ جابز پیدا کرے گا بلکہ 10 بلین روپے کے نیشنل سیمی کنڈکٹر فنڈ کے ذریعے اسٹارٹ اپس کو گراںٹس اور وینچر کیپیٹل بھی فراہم کرے گا۔
دوسرا مرحلہ آؤٹ سورسڈ اسمبلی اینڈ ٹیسٹنگ (او ایس اے ٹی) پر مرکوز ہے، جو اگلے دہائی کے اندر (2035 تک) شروع ہوگا اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی مدد سے چپس کی پیکیجنگ اور ٹیسٹنگ کی صلاحیت پیدا کرے گا، جس کے لیے گلوبل پارٹنرشپس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی ضرورت ہوگی، جبکہ خصوصی ٹیکنالوجی زونز (ایس ٹیز) میں ٹیکس چھوٹ اور انفراسٹرکچر سپورٹ دی جائے گی۔
تیسرا اور سب سے اعلیٰ مرحلہ فل فلیجڈ فیبریکیشن ہے، جو مکمل ٹیکنالوجیکل سوورینٹی کی طرف لے جائے گا اور پاکستان کو اپنے سیمی کنڈکٹرز خود تیار کرنے کا موقع دے گا، حالانکہ اس کے لیے بھاری فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ اور انٹرنیشنل کوآپریشنز جیسے انٹیل، این ویڈیا، اور ٹی ایس ایم سی کے ساتھ اشتراک کی ضرورت ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مؤثر انداز میں مکمل کیا گیا تو پاکستان نہ صرف الیکٹرانکس، مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیجیٹل سسٹمز میں خود کفیل ہو سکے گا بلکہ ٹیکنالوجی کی برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کر سکے گا۔ اس کے علاوہ، ہزاروں نوجوان انجینئرز اور محققین کو مقامی طور پر روزگار اور ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔
تاہم، چیلنجز بھی کم نہیں۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی کے لیے طویل المدتی پالیسی، بین الاقوامی تعاون، اور تعلیمی نصاب میں جدت ضروری ہے۔ اگر حکومت اس منصوبے کو تسلسل اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھائے تو پاکستان خطے میں ایک اہم ٹیکنالوجی حب کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سویڈن میں الیکٹرانکس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے طالبِ علم محمد افضل حمید کا کہنا تھا کہ
حکومتِ پاکستان کا سیمی کنڈکٹر چِپ منصوبہ یقیناً ایک تاریخی اور امید افزا قدم ہے جو ملک کو ڈیجیٹل معیشت کی سمت لے جا سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی کئی عوامل پر منحصر ہے۔ منصوبے کی سمت درست ضرور ہے، کیونکہ سیمی کنڈکٹرز مستقبل کی عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس راستے میں مالی، تکنیکی اور انتظامی چیلنجز کم نہیں۔ ابتدائی طور پر 7200 افراد کی تربیت اور 1000 انجینئرز تیار کرنے کا ہدف مثبت ہے، مگر جب تک مقامی صنعت اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جاتے، یہ تربیت یافتہ افرادی قوت بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، فیبریکیشن پلانٹس کی تعمیر کا ہدف فی الحال ایک طویل المدتی خواب دکھائی دیتا ہے جس کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاری، جدید انفراسٹرکچر اور پالیسی کے تسلسل کی ضرورت ہے۔
فنڈنگ کے اعلان کے باوجود شفافیت، کارکردگی اور تحقیقاتی اداروں کی اصلاحات ناگزیر ہیں، کیونکہ ماضی میں ایسے منصوبے انتظامی کمزوریوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اگر حکومت اس پروگرام کو صرف اعلانات تک محدود رکھنے کے بجائے عملی بنیادوں پر شفاف، پائیدار اور عالمی شراکت داری کے ساتھ آگے بڑھائے، تو پاکستان واقعی خطے میں ایک ابھرتا ہوا ٹیکنالوجی حب بن سکتا ہے اور سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں خود کفالت حاصل کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ حکومت کی اُس وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کو “ڈیجیٹل معیشت” کی راہ پر گامزن کرنے اور نوجوان نسل کو مستقبل کی عالمی منڈی کے لیے تیار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں