مسلم لیگ ن کو ووٹروں کے بغیر الیکشن لڑنے کی عادت پڑ گئی، چودھری پرویز الٰہی
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو ووٹروں کے بغیر الیکشن لڑنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عوام نے حالیہ ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے۔
ایف آئی اے سنٹرل کورٹ لاہور میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر چودھری پرویز الٰہی عدالت میں پیش ہوئے اور حاضری مکمل کرائی۔ سماعت جج عارف خان نیازی نے کی، جنہوں نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، تاہم عدالت نے مزید دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو’ووٹروں کے بغیر الیکشن لڑنے کی عادت‘ پڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ووٹرز سے ہوتا ہے اور اگر ووٹر ٹرن آؤٹ 20 فیصد سے بھی کم ہو تو اسے حقیقی انتخاب نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عوام نے حالیہ ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے۔
پرویز الٰہی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی قید سے متعلق بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو جیل میں 2 سال سے زائد ہو گئے ہیں، اور ان کی دعا ہے کہ وہ جلد رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو کوئی گھبراہٹ نہیں اور ’ آپ کو بھی نہیں ہونی چاہیے‘۔
پرویز الٰہی نے بتایا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات زیرِ سماعت ہیں، جبکہ بار کونسلز کے انتخابات کے باعث بھی وہ مصروف ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے فریقین کو ہدایت کی کہ بریت کی درخواست پر آئندہ سماعت میں مزید دلائل پیش کیے جائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پرویز ال ہی نے انہوں نے نے کہا
پڑھیں:
این اے 18 ہری پور سے ہار پی ٹی آئی کو لے کر بیٹھ سکتی ہے
23 نومبر کو 13 قومی اسمبلی کے 6 اور صوبائی اسمبلی کے 7 حلقوں پر ضمنی الیکشن ہوئے ۔ مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کی تمام 6 سیٹیں جیت لیں۔ صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پیپلز پارٹی نے مظفر گڑھ سے جیتی، باقی 6 نشستیں مسلم لیگ نون کو ملی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا اور زیادہ تر مقابلے یک طرفہ رہے۔
پی ٹی آئی کے مضبوط گڑھ خیبر پختون خوا میں مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی سیٹ جیت لی جو این اے 18 قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی نااہلی سے خالی ہوئی تھی۔ اس سیٹ پر پی ٹی آئی نے بھرپور انداز میں الیکشن لڑا۔ عمر ایوب سابق صدر ایوب خان کے پوتے اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیرخارجہ گوہر ایوب کے صاحبزادے ہیں۔ عمر ایوب کی اہلیہ شہر ناز عمر ایوب اس حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی تھیں جن کی الیکشن مہم کے لیے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے بھی حلقے کے قریب ایک جلسہ کیا۔ شہر ناز سابق صدر غلام اسحق خان کی نواسی اور سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ کی صاحبزادی ہیں۔
مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے بابر نواز خان نے 1 لاکھ 63 ہزار 996 ووٹ لے کر شہرناز عمر ایوب کو ہرا دیا جنہوں نے 1 لاکھ بیس ہزار 220 ووٹ حاصل کیے۔ 2024 کے الیکشن میں عمر ایوب نے 1 لاکھ 92 ہزار اور بابر نواز نے ایک لاکھ 12 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں 3 صوبائی حلقے آتے ہیں، 2 پر عمر ایوب کے کزن ارشد اور اکبر ایوب منتخب ممبران صوبائی اسمبلی ہیں۔ تیسرے حلقے سے پی ٹی آئی ہی کے ملک عدیل اقبال صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں۔
بابر نواز خان دوسری بار مسلم لیگ نون کی طرف سے ایم این اے بنے ہیں۔ ان کے ایم این اے بننے کا قصہ دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
2013 کے الیکشن میں عمر ایوب نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے راجہ عامر زمان کے مقابلے پر الیکشن لڑا اور ہارا۔ دونوں کا مقابلہ بہت ہی زوردار رہا تھا۔ راجہ عامر زمان نے 116979 اور عمر ایوب نے 114807 ووٹ لیے تھے۔ ہار جیت کا مارجن 1500 ووٹ کے آس پاس تھا۔ اس کے بعد عمر ایوب نے انتخابی عذرداریاں کی اور راجہ عامر زمان کی سیٹ پر دوبارہ الیکشن کروانے کا فیصلہ ہوا۔
2015 کے اس ضمنی الیکشن کو ممکن بنانے والے عمر ایوب اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے الیکشن لڑنے سے دستبردار ہو گئے۔ مسلم لیگ نون نے راجہ عامر زمان کے مقابل بابر نواز کو ٹکٹ دیا جنہوں نے 116624 ووٹ حاصل کر کے راجہ عامر زمان کو شکست دی جو 78512 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ عمر ایوب کو دستبرداری مہنگی پڑی اور بابر نواز ان کے نئے اور مستقل حریف بن گئے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن بابر نواز ہارے ہوں یا جیتے ہوں ان کے ووٹ لاکھ سے اوپر ہی رہے ہیں۔
2024 کے الیکشن میں عمر ایوب نے بابر زمان کو 80 ہزار ووٹ سے شکست دی تھی۔ بابر نواز نے ایک لاکھ 12 ہزار اور عمر ایوب نے ایک لاکھ 92 ہزار ووٹ لیے تھے۔ حلقہ خالی چھوڑنا سیاستدان کو بہت مہنگا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کو بائیکاٹ پالیسی کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے بابر نواز خان ایک عوامی شخصیت اور بہت مقبول سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا مسلم لیگ سے پرانا تعلق ہے۔ بابر نواز نے عوامی انداز میں مہم چلائی اور مسلم لیگ نون نے اپنے بہت روایتی انداز میں الیکشن مہم پلان کی۔ کیپٹن صفدر اور دوسرے مسلم لیگی راہنماؤں نے گھر بیٹھے اور لاتعلق ہوئے مسلم لیگی راہنماؤں کو سرگرم کر دیا۔ 2008 میں ہری پور سے سردار مشتاق بھی ایک بار مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے ایم این اے بن چکے ہیں، ان کو دوبارہ ایکٹیو کیا گیا۔ راجہ عامر زمان کو بابر نواز کی حمایت میں کھڑا کیا گیا۔ اے این پی نے پختون ووٹر کو بابر نواز کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہا۔ ہری پور ہی سے مسلم لیگ نون کے سابق وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ کو اور سابق ایم پی اے قاضی اسد کو الیکشن کے لیے سرگرم کیا گیا۔
خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی ہے۔ حوالدار بشیر نے بھی سُکھ کا ایک لمبا سانس لیا ہے۔ پی ٹی آئی کو مل جل کر ہرایا جا سکتا ہے۔ امیدوار اچھا ہو، اس کے پیچھے طاقتور سیاسی لوگوں کو جمع کر لیا جائے تو وہ لاکھ پلس ووٹ لینے والے کو بھی ہرا سکتا ہے۔ ہری پور الیکشن کی بات کرتے ہوئے دھاندلی کی بات نہیں کی، یہ بات کرنے والے بہت ہیں۔ یہ سنیں گے تو بہت کچھ اور ہے جو سمجھ نہیں آئے گا۔
ووٹر بھی رج اور ڈھیر سیانا ہے، اس نے ووٹ یہ سوچ کر بھی وفاق میں برسراقتدار جماعت کے رکن کو دیا ہے کہ بجلی سوئی گیس اور دوسرے وفاقی محکموں کے کام کرانے والا بھی انہیں چاہیے تھا۔
حوالدار بشیر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف آپریشن ہوں، سیکیورٹی پالیسی ہو، افغان پالیسی ہو پی ٹی آئی سب کی مخالفت کرتی ہے۔
ہری پور الیکشن کے بعد اگر پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں نے ہمت کر لی اور ریاستی پالیسی کی عوامی حمایت شروع کر دی۔ پی ٹی آئی کی واپسی میں دیر سویر ہو سکتی ہے اس کے خلاف بہت مضبوط اتحاد قائم ہو جانا ہے۔ امید تو ہے کہ آپ وہ بھی سمجھ گئے ہونگے جو لکھا ہی نہیں ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔