غیر مسلح ہونے کا فیصلہ قومی مذاکرات سے ہوگا، اسرائیل غزہ معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، حماس
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
حماس نے غزہ معاہدے کے حوالے سے اپنے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم نے پہلے مرحلے کی تمام شرائط مکمل طور پر پوری کر دی ہیں، جب کہ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے مرحلے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ رفح میں محصور عسکریت پسندوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
حازم قاسم نے بتایا کہ حماس کے وفد کا قاہرہ کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک دوسرے مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اسلحہ حوالے کرنے کے معاملے پر حماس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف فلسطینی قومی مذاکرات اور داخلی مشاورت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ادھر اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر اسرائیلی قیادت میں اختلافات ابھر رہے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکا کا صبر اسرائیل کے رویے سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حکام اس بات پر قائم ہیں کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے تک وہ دوسرے مرحلے میں داخل نہیں ہوں گے، جب کہ رفح کی سرنگوں میں موجود حماس کے ارکان کا معاملہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اسرائیلی چینل 14 کے مطابق امریکا کے طے شدہ شیڈول کے تحت جنوری کے وسط میں بین الاقوامی استحکام فورس کے غزہ کے علاقے رفح پہنچنے کا امکان ہے۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ اسرائیلی فوج رفح میں بھاری مشینری داخل کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے دوسرے مرحلے کا حصہ ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل سے ریڈ کراس کے ذریعے 15 مزید فلسطینیوں کی لاشیں وصول کی گئی ہیں، جس کے بعد مجموعی تعداد 345 ہو گئی ہے۔ وزارت صحت کے مطابق ابھی تک 99 لاشوں کی شناخت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ باقی کی دستاویزی کارروائیاں جاری ہیں۔ حماس نے بھی دو یرغمالیوں کی باقیات کی تلاش جاری رکھنے کی تصدیق کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوسرے مرحلے
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کے بعد امارات اور اسرائیل کے امن ریلوے منصوبے پر کام تیز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایک اور بڑی پیش رفت سامنے آگئی ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے مبینہ طور پر امن ریلوے کے نام سے جاری ریلوے راہداری منصوبے کی تعمیر پر غیر معمولی تیزی سے کام شروع کردیا ہے، اس منصوبے کو خطے میں تجارتی راستوں کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ راہداری دراصل ایک بڑے اسٹریٹیجک ریلوے نیٹ ورک کا حصہ ہے جس میں نہ صرف ریل کی پٹڑیاں شامل ہوں گی بلکہ ساتھ ساتھ مواصلاتی کیبلز، پائپ لائنز اور توانائی کی ترسیلی لائنوں کا وسیع انفراسٹرکچر بھی بچھایا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ متعدد مقامات پر انفراسٹرکچر فائنل مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جبکہ کئی حصے مکمل بھی کرلیے گئے ہیں، منصوبے کی رفتار بڑھانے کی ایک بڑی وجہ بحیرہ احمر میں حوثی لڑاکوں کے حملے ہیں، جن کی وجہ سے اسرائیل آنے والے تجارتی جہازوں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے اسرائیل نے بھارت، عرب ریاستوں اور یورپ تک ایک متبادل زمینی و بحری راستہ ترتیب دیا ہے۔
اس نئے روٹ کے مطابق بھارتی بندرگاہ مندرا سے سامان پہلے متحدہ عرب امارات پہنچے گا، جہاں سے اسے سعودی عرب اور اردن کے راستے ٹرکوں کے ذریعے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ منتقل کیا جائے گا، بعد ازاں یہ اشیا یورپی اور امریکی منڈیوں تک برآمد ہوں گی۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِ ٹرانسپورٹ میری ریگیو ایک خفیہ دورے پر ابوظہبی پہنچیں جہاں اسرائیلی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے تکنیکی ماہرین نے بھی منصوبے کا براہِ راست جائزہ لیا۔ اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ فرانس اور ترکیہ ایک متبادل تجارتی راہداری تشکیل دینے پر غور کر رہے ہیں جو اردن سے شام اور پھر لبنان کی بندرگاہ تک جائے گی۔ اگر یہ راستہ فعال ہوگیا تو اسرائیل خطے کی بڑی معاشی دوڑ سے باہر ہوسکتا ہے۔
امارات، سعودی عرب اور بھارت پہلے ہی اس منصوبے پر عملی پیشرفت کر چکے ہیں جبکہ اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران سفارتی روابط منجمد کرکے اپنے لیے مشکلات بڑھا دی تھیں۔ اب اسرائیل دوبارہ اس منصوبے میں جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ راہداری اس کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
دونوں ملکوں نے ٹرانزٹ اور کنیکٹیویٹی امور کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ انتظامی ادارہ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، تاہم اس کی پیش رفت خفیہ رکھی جارہی ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جلدی خراب ہونے والی اشیا چند گھنٹوں میں اسرائیل پہنچ سکیں گی بشرطیکہ سعودی عرب اور امارات رستہ کھلا رکھیں۔