لیگل ایڈ ایکٹ 2019 پر عملدرآمد نہ ہونے کیخلاف درخواست پر حکومت سے جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن) عدالت نے لیگل ایڈ ایکٹ 2019 پر عملدرآمد نہ ہونے کیخلاف درخواست پر حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں لیگل ایڈ ایکٹ 2019 پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور اور جسٹس محمد نعیم انور نے کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب نے موقف اپنایا کہ خیبرپختونخوا میں سکت نہ رکھنے والے افراد کے لیے لیگل ایڈ ایجنسی قائم کی جانی تھی تاہم چھ سال گزرنے کے باوجود تاحال ایکٹ پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی کی صحت کے حوالے سے افواہیں بے بنیاد ہیں: جیل حکام
وکیل کے مطابق اس قانون کے تحت ایسے قیدی اور گھریلو تنازعات کا سامنا کرنے والی خواتین کو مفت قانونی معاونت فراہم کی جانی تھی جن کے پاس وکیل کرنے کی استطاعت نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ کن کیسز میں حکومت مفت وکیل فراہم کرنے کی پابند ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ قیدیوں اور گھریلو تنازعات سے متعلق خواتین کے کیسز میں حکومت وکلاء کی فیس خود ادا کرنے کی پابند ہے۔
بعدازاں عدالت نے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری قانون خیبرپختونخوا سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
ٹک ٹاکر ایمان پر تشدد اور بال کاٹنے کی وجہ سامنے آ گئی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ: عمران خان کی 9 مئی کے ایک ہی مقدمے کی سماعت کی درخواست بحال
لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعت پر عدم پیروی کی بنیاد پر خارج ہونے والی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست بحال کرتے ہوئے اسے 25 نومبر کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر یاسمین راشد 9 مئی مقدمے میں بعد از گرفتاری ضمانت منظور
سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے کی۔ کارروائی کے آغاز میں چیف جسٹس نے وکلاء کی جانب سے عدالت سے متعلق میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں پر برہمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ خود عدالت کے بارے میں غلط خبریں دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ کیس کاز لسٹ میں نہیں آیا۔
اس موقعے پر عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ رجسٹرار آفس بلا وجہ ان کا نام کاز لسٹ میں شامل نہیں کرتا۔ تاہم چیف جسٹس نے ان کے مؤقف پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ پچھلی سماعت پر کیس کال ہونے کے باوجود وکیل موجود نہیں تھے اور باہر جا کر یہ مؤقف اپنایا گیا کہ کیس کا علم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت چہرہ دیکھ کر کیس نہیں سنتی اور عمران خان کو جتنا ریلیف اس عدالت سے ملا ہے شاید کہیں اور سے نہیں ملا۔
مزید پڑھیے: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ریڈیو پاکستان پر 9 مئی حملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کا اعلان
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے مزید کہا کہ عدالت میں ہڑتال کے باوجود تمام کیس لگے تھے اور ابھی ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں جس سے کسی وکیل کا نام خودکار طور پر لسٹ سے نکالا جا سکے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ عدالت میں غیر ضروری طور پر زیادہ وکلا پیش نہ ہوں، ایک ہی وکیل کافی ہوتا ہے۔
لطیف کھوسہ نے مؤقف دیا کہ وکلا ہڑتال ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ عدالت کی عزت کے لیے کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کے خلاف 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کا جیل ٹرائل بحال
عدالت نے تمام فریقین کے مؤقف سننے کے بعد عمران خان کی درخواست بحال کرتے ہوئے مرکزی کیس کی باقاعدہ سماعت کے لیے نئی تاریخ مقرر کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی مقدمات 9 مئی واقعات عمران خان