Jasarat News:
2025-12-02@23:16:38 GMT

پاک افغان کشیدگی، خواب ریزہ ریزہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-03-7
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی موجودہ لہر صرف دو ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والا روایتی تناؤ نہیں بلکہ یہ خوابوں کے شیش محل کی کرچیاں ہیں۔ وہ خواب جو افغانستان میں ایک دوست حکومت کے قیام کے ساتھ وابستہ تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ جب افغانستان میں پاکستان دوست حکومت قائم ہو گی تو دونوں ملک کر خطے میں طاقت کا نیا توازن قائم کریں گے۔ افغانستان میں دوست حکومت کے قائم ہوتے ہی طاقت کا توازن یوں قائم ہوگا کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد کے معاملے میں ہر قسم کی پریشانی سے آزاد ہوگا اور یوں اس کی ساری توانائیاں مشرقی سرحد پر لگتی چلی جائیں گی۔ خوابوں کا یہ ٹھیلہ پانچ دہائیوں سے وقت کے بازار میں گردش کرتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں خوابوں کا یہ ٹھیلہ سجتا رہا اور جنرل ضیاء الحق بھٹو دور کی ہر پالیسی کی نفی کو جزو ایمان بنائے رہے مگر ان کی افغان پالیسی کو انہوں نے من وعن نہ صرف سینے سے لگایا بلکہ خوابوں کے اس ٹھیلے کے اصل وارث بھی بن بیٹھے اور اسے لے کر گلی گلی صدائیں دے کر خواب فروخت کرتے رہے۔ ان خوابوں کا عنوان تھا اسٹرٹیجک ڈیپتھ۔ یہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا فوجی ڈاکٹرائن تھا۔ ضیاء الحق خود کہتے رہے کہ افغان مجاہدین ہمارے محسن ہیں ہمارے ہیرو ہیں۔ آپ افغان مہاجرین اور مجاہدین کی عملی مدد نہیں کر سکتے تو کم ازکم ان کی کامیابی کے لیے دست ِ دعا تو بلند کرسکتے ہیں۔ وہ افغان پالیسی کو اس طرح سینے سے چمٹائے ہوئے تھے کہ امریکا کو انہیں افغان پالیسی سے الگ کرنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑی یہاں تک اس عمل میں ان کا سفیر بھی کام آیا۔ اس دور میں تصویری نمائشوں اور میڈیا مہمات کے ذریعے افغان جہاد کو گلیمرائز کیا جاتا رہا۔ مظفر وارثی مرحوم کی ترنم سے پڑھی گئی نظمیں آج بھی حافظے کی لوح پر تازہ ہیں۔

مرد کہسار سن، آگ سے پھول چْن، خم نہ ہو سر تیرا
دشمن پر تیرا خوف طاری رہے، جنگ جاری رہے

اس کے بعد بھی خوابوں کا یہ ٹھیلہ پررونق رہا اور نگر نگر گھومتا رہا۔ افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کا قیام ان خوابوں کا مرکزی خیال تھا مگر خوابوں کو تعبیر دینا بھی ایک فن ہوتا ہے۔ کسی میں یہ بدرجۂ اَتم موجود ہوتا ہے اور کوئی اس فن سے عاری ہو تو خواب کی تعبیر کی دہلیز ہر پہلا قدم رکھ کر لڑھک جاتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کا المیہ یہ ہے کہ یہ بڑے اور وسیع تناظر کے حامل خوابوں کی تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خواب نگر کو ریت کے گھروندے کی طرح اُڑا دیتے ہیں۔ صبغت اللہ مجددی، احمد گیلانی، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کو گل بدین حکمت یار پر قربان کیا جاتا رہا اور جب حکمت یار کو آگے بڑھا کر مقصد حاصل کرنے کا وقت آیا تو انہیں طالبان نامی نئے تجربے پر قربان کر دیا گیا۔ یوں طالبان پاکستان کا آخری خواب اور آخری تجربہ تھے۔ ان سے نباہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تاجک ازبک ہزارہ اور قوم پرست پشتون پاکستان سے دور جا چکے تھے اب صرف طالبان جو پشتون غلبے اور قوت کی علامت تھے آخری سہارا اور آخری چارہ تھے۔ اسی لیے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے زمانے میں امریکا کی تنقید اور تنقیص سہہ کر اور دنیا بھر میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کا الزام برداشت کرکے طالبان کی درپردہ مدد جاری رکھی۔ گوکہ یہ پاکستان کا تنہا فیصلہ نہیں تھا بلکہ چین اور روس جیسے کھلاڑی کو اس خطے سے امریکا کو نکال باہر کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے طالبان ہی ان کے پاس واحد آپشن تھا کیونکہ وہی افغانستان کی مزاحتمی قوت تھی۔

طالبان کی پہلی حکومت خواب کی تعبیر تھی مگر اس حکومت کو گرانے کے لیے پاکستان نے لاجسٹک سمیت ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ سولہ سالہ لڑائی کے بعد طالبان دوبارہ کابل پر کنٹرول قائم کرچکے تو یہ پرانے خوابوں کی نئی تعبیر تھی کیونکہ ان سولہ برسوں میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو ماضی بعید کی افغان حکومتوں کا تسلسل یعنی بھارتی پراکسیز کہہ کر فاصلہ بنائے رکھا گیا۔ طالبان ان حکومتوں کو گرا کر طاقت میں آئے تو یہ دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔ طالبان کے اندر بھی کچھ خوابوں کے کچھ ایسے سودا گر تھے جو سمجھتے تھے کہ اب پاکستان اور افغانستان کی طاقت یکجا ہو کر طاقت کا علاقائی توازن بحال کرے گی۔ کابل کا اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی ان کے اہم نمائندے سلطان محمود غزنوی کے مزار پر جاپہنچے۔ محمود غزنوی وہی تھے جن کے نام پر پاکستان نے میزائل بھی تیار کیا ہے اور اسے مسلم برصغیر کی تاریخ کا ہیرو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ جس کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ سومناتھ کے مندر پر سترہ حملے کیے اور آخری حملہ کامیاب ہوا۔ طالبان نمائندے کا غزنوی کے مزار پر جانا تھا کہ بھارتی میڈیا اور سخت گیر عناصر کی چیخیں ساتوں آسمان تک بلند ہونے لگیں۔ یوں لگ رہا تھا

کہ افغان نمائندے نے بھارت کی دْم پر پائوں رکھ دیا ہے۔ بھارتی میڈیا چیخ رہا تھا کہ اب جمال الدین افغانی کے پین اسلام ازم کے تصورات کو عملی شکل دینے کا وقت آگیا ہے اور بھارت کو پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ مہمات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ نجانے کیا ہوا طالبان اچانک محمود غزنوی کے مزار سے سومناتھ کی طرف چل پڑے۔ یہ وہ مقام جہاں سطحی جذباتیت اور سرکاری بیانیہ سازی سے ہٹ کر ان اسباب وعوامل کا عمیق جائزہ لینا ضروری ہے کہ طالبان غزنوی کے مزار سے سومناتھ کی طرف کیوں چل پڑے؟

گزشتہ دو تین برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مساوی بنیادوں پر سنجیدگی سے حل کرنے کی کوششیں نہیں ہوئیں۔ جس سے طالبان اور پاکستان کے تعلقات میں ایک خلا پیدا ہوا اور اس خلا کو بھارت نے اپنے ماضی کے موقف سے مکمل یوٹرن لیتے ہوئے پْر کر لیا۔ بنگلا دیش میں پاکستان کو کچھ اسپیس دے کر افغانستان سے لڑانے کا کامل بندوبست کیا گیا۔ بنگلا دیش پڑوسی کا پڑوسی ہے اور اسی معاملے میں پاکستان کے قریب آیا ہے۔ افغانستان پڑوسی ہے اور پڑوسی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ طالبان پاکستان کا آخری آپشن تھے کچھ قوتوں کی خواہش ہو گی کہ پاکستان ان سے ترک تعلقات کرکے ازبک تاجک اور قوم پرست پشتون لیڈروں کو اعتبار اور وقار دینے دے کر اپنے خوابوں کی قیمت چکائے۔ ایسا عین ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انہیں اعتبار عطا کر سکیں مگر جس دن انہیں اعتبار مل گیا تو ان میں طالبان کی روح حلول کر جائے گی کیونکہ مسئلہ باہر کے بجائے اندر کی پالیسیوں میں ہے جو استحکام اور پاکستان کی داخلی ضرورت کے احساس سے عاری ہیں۔ امیر ِ کارواں میں خوئے دلنوازی کسی بازار میں دستیاب نہیں ہوتی۔

عارف بہار سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان افغانستان میں غزنوی کے مزار میں پاکستان دوست حکومت پاکستان کا خوابوں کا کی تعبیر اور اس کے لیے ہے اور

پڑھیں:

افغان حکومت، خطے کے امن کی دشمن

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ افغانستان نے ٹی ٹی پی کے کارندوں کو گرفتار کیا، مگر چند سو کو پکڑنا کافی نہیں ہے۔ ہم افغانستان کا مسئلہ طاقت سے حل کرسکتے ہیں لیکن نہیں چاہتے، اپنے بھائی کو گھر میں گھس کر ماریں، اگر ہم بھارت کو سبق سکھا سکتے ہیں تو افغانستان تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ کالعدم TTP کے لوگ پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو انھیں ہمارے حوالے کریں، یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیں، سرحدی علاقوں میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ، افغان حکومت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف طویل جدوجہد میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دیں، ہزاروں جانیں اس راہ میں قربان ہوئیں، بے شمار خاندان اجڑ گئے اور قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود ہمارے پڑوس میں ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نہ صرف اپنی سرزمین پر دہشت گرد نیٹ ورکس کی موجودگی سے انکار کرتی ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کا غیر علانیہ سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے جب یہ کہا کہ افغانستان نے کچھ ٹی ٹی پی کارندوں کو گرفتار کیا ہے مگر ’’چند سو افراد کو پکڑ لینا کافی نہیں‘‘ تو ان کا اشارہ اسی تلخ حقیقت کی طرف تھا کہ مسئلہ سطحی نہیں، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پاکستان کا فیصلہ ہے کہ عسکری راستہ آخری آپشن ہے، اور وہ بھی تب جب ریاستِ پاکستان کی حدود کا احترام مسلسل پامال کیا جائے۔ دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے حالیہ بیان نے صورتحال کو ایک نئی سنجیدگی عطا کر دی ہے۔

انھوں کے اٹھائے گئے تمام نکات نہایت ٹھوس اور قابلِ غور ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک اہم نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ ’’خونریزی اور تجارت اکٹھے ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ پاک افغان تجارت کی بندش محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ براہِ راست پاکستان کے عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا معاملہ ہے۔ تجارت تب ہی جاری رہ سکتی ہے جب سرحد کے دونوں جانب امن ہو، جب دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ ہو اور جب کسی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، اگر افغانستان اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتا تو پاکستان بھی مجبور ہوگا کہ وہ اپنے مفاد کو اولین ترجیح دے کر فیصلے کرے۔

افغانستان میں برسوں سے ایسے منظم مراکز موجود ہیں جن میں دہشت گرد گروہ تربیت پاتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی جانب پاکستانی ادارے عرصے سے توجہ دلاتے آ رہے ہیں۔

رپورٹوں، شواہد اور انٹیلی جنس معلومات نے بارہا ثابت کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں ’’پولیٹیکل ٹیرر کرائم‘‘ کی شکل میں انتہائی مضبوط گٹھ جوڑ موجود ہے، جس میں دہشت گرد نیٹ ورکس، اسمگلنگ کے گروہ اور بعض طاقتور مافیاز ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس پورے نظام سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے، اگر افغان طالبان حکومت واقعی ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے فوراً دہشت گردوں کی پشت پناہی اور سہولت کاری ترک کرنا ہوگی۔

اس صورتحال کا ایک اور پہلو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی موجودگی ہے جو صوبوں میں بڑی تعداد میں گھومتی پھرتی ہیں اور بعض خودکش حملوں میں بھی استعمال ہوتی پائی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے غیر قانونی ذرایع آمدورفت کو روکنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ اگر یہ گاڑیاں ملکی حدود کے اندر آزادانہ نقل و حرکت کر رہی ہیں تو یہ واضح انتظامی کمزوری ہے اور اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس طرح کے خلا دہشت گردی کو سہارا دیتے ہیں اور یہ بات سمجھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

بھارتی آرمی چیف کے دعوے پر بھی پاکستانی عسکری قیادت نے دوٹوک جواب دے کر حقیقت واضح کر دی ہے۔ ’’ آپریشن سندور‘‘ کو ’’ ٹریلر‘‘ کہنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کے سات جنگی جہازوں کی تباہی، اس کے اسلحہ ڈپو کا نشانہ بننا اور جدید ترین دفاعی نظام ایس 400 کا بے اثر ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان محض دعوؤں پر نہیں بلکہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کے مظاہرے پر یقین رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پورا منظر بھارت کے لیے ’’ٹریلر‘‘ نہیں بلکہ ایک مکمل ہولناک فلم بن چکا ہے جو وہ چاہ کر بھی فراموش نہیں کر سکتا۔

بہرکیف، اصل مسئلہ افغانستان کی غیر مستحکم حکمرانی ہے جو پاکستان کے لیے ایک بڑا اور مسلسل چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وہاں حکومت نہ مکمل ہے، نہ مربوط، نہ ادارہ جاتی ڈھانچے موجود ہیں، نہ عالمی برادری کی کوئی حقیقی شمولیت۔ ایسے ماحول میں دہشت گرد گروہوں کا پنپنا عین ممکن ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ چین، تاجکستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس سے نالاں ہیں۔ جب کسی ملک میں تیس سے زائد عالمی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام سرگرم ہوں تو پھر پورا خطہ عدم استحکام کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے۔

پاکستان کی سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے اور بعض علاقوں میں چیک پوسٹوں کا درمیانی فاصلہ بیس سے پچیس کلومیٹر ہے۔ ایسے میں دراندازی روکنا ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن چیلنج مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ پاکستان نے ماضی میں بھی یہ معرکہ سر کیا ہے اور آج بھی کرسکتا ہے، بشرطیکہ قومی سطح پر مکمل ہم آہنگی موجود ہو۔

دہشت گردی کے خلاف کامیابی آپریشنز سے ہی نہیں بلکہ مربوط حکمت عملی سے ملتی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اپنائی گئی حکمت عملی مؤثر ثابت ہو رہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف فوج ہی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے ذمے دار نہیں بلکہ سول حکومت اور انتظامیہ کو بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پولیس کا کردار بنیادی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں۔ بلوچستان میں جاری آپریشنز کو سیاسی سطح پر مکمل حمایت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں پیش رفت نظر آ رہی ہے، لیکن خیبرپختونخوا میں اگر سیاسی تعاون اسی سطح پر نہیں ہوتا تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی بقا کی جنگ ہے، اسے سیاسی اختلافات یا مقامی مجبوریوں کے ہاتھوں کمزور نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

پاکستان جب یہ کہتا ہے کہ افغان حکومت طالبان کی سہولت کاری بند کرے، تو یہ کوئی مطالبہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک اصولی بات ہے۔ کسی بھی خود مختار ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کی سرزمین کے خلاف کسی دوسرے ملک کی سرزمین استعمال نہ ہو۔ اسی اصول کو اقوام متحدہ نے بھی اپنی قراردادوں میں واضح کر رکھا ہے۔افغانستان کی قیادت کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ واقعی ایک پرامن ملک چاہتی ہے؟ کیا وہ عالمی برادری میں بحالی چاہتی ہے؟ کیا وہ اپنے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی ہے یا ایک ذمے دار ریاست بننے کا دعویٰ سچ ثابت کرنا چاہتی ہے؟

ان سوالات کے جواب افغان قیادت کو خود دینا ہوں گے۔پاکستان اپنے حصے کا فرض ادا کر رہا ہے، اور کرتا رہے گا۔ مگر ضروری ہے کہ ہم داخلی سطح پر بھی یکسوئی پیدا کریں، اداروں کو مضبوط کریں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کریں اور سیاسی قیادت کو ایک پیج پر لائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی وجود کی جنگ ہے، اس میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔

پاکستان کو اب ایسی قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو نہ صرف دہشت گردی کا مقابلہ کرے بلکہ اس کی جڑوں تک پہنچے۔ یہ جنگ محض بارڈر پار کارروائیوں سے نہیں جیتی جائے گی، بلکہ داخلی سطح پر بھی غیر معمولی ٹھوس اقدامات درکار ہوں گے۔

سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی ایک جماعت، ایک صوبے یا ایک ادارے سے نہیں، یہ پورے ملک کے مستقبل سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ افغانستان اپنی ذمے داری قبول کرے۔ پاکستان نے دہائیوں تک افغان عوام کا ساتھ دیا، انھیں پناہ دی، سہولتیں فراہم کیں، مگر بدلے میں اسے دہشت گرد حملے، سرحدی دراندازی اور الزام تراشی ملی۔ یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ پاکستان کسی کا دشمن نہیں، لیکن اپنے عوام کی جان و مال کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کر سکتا۔ خاک و خون میں لپٹے اس خطے کو امن تبھی نصیب ہوگا جب افغانستان سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہوگا اور طالبان حقیقی ریاستی ذمے داری کا ثبوت دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات ؟
  • افغانستان پر حملے کی تیاری مکمل؟
  • تاجکستان نے افغانستان سے حملوں میں 5 چینی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا : واشنگٹن پوسٹ
  • افغان حکومت، خطے کے امن کی دشمن
  • اسلامی ممالک کابل، اسلام آباد کشیدگی میں مؤثر ثالث بن سکتے ہیں،افغان سفیر
  • طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج
  • افغان طالبان  دہشت گردوں کے سہولت  کار : ڈی  جی آئی ایس پی آر 
  • افغانستان بطور عالمی دہشتگردی کا مرکز، طالبان کے بارے میں سخت فیصلے متوقع