جیل میں نواز شریف کو ایسی چیز دی گئی جس سے ان کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک گر گئے، ناصر بٹ
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)مسلم لیگ ن کے رہنما ناصر بٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ جیل میں نواز شریف کو ایسی چیز دی گئی جس سے ان کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک گر گئے۔ ایک نیوز چینل کے پروگرام "جواب دو" ود فرخ وڑائچ میں سینئرلیگی رہنماسینیٹر ناصر بٹ نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ناصر بٹ نے دعویٰ کیا کہ جب نواز شریف جیل میں تھے تو انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسی چیزیں دی گئیں جن کے استعمال کے بعد ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور ان کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک گر گئے۔ناصر بٹ کے مطابق یہ بات مجھے خود میاں نواز شریف نے بتائی تھی، لیکن انہوں نے اس وقت تاکید کی تھی کہ یہ بات کسی کو نہ بتائی جائے۔ آج پہلی بار میں یہ حقیقت میڈیا پر بیان کر رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ پلیٹلیٹس میں اچانک کمی واقع ہونے کے بعد ہی نواز شریف کو ہنگامی طور پر لندن میں علاج کے لیے بھیجا گیا۔
پاکستان میں تفتان سے گاڑی ہندوستان کے سرحدی قصبے اٹاری تک آتی تھی وہاں سے اْسکو آگے بیناپول تک انڈین ریلوے کا انجن لیکر جاتا تھا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نواز شریف
پڑھیں:
جی ایچ کیو ساختہ تمام سیاست دانوں کا حساب ہونا چاہیے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251205-03-5
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ایک چیخ بیان بن کر سامنے آئی ہے۔ اس بیان نما چیخ یا چیخ نما بیان میں میاں نواز شریف نے فرمایا ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان صرف اکیلا مجرم نہیں اسے لانے والے اس سے بھی بڑے مجرم ہیں۔ چنانچہ ان سے بھی پورا حساب لینا چاہیے۔ میاں نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ میں نے کبھی کسی کی بیٹی کو چور یا ڈاکو کے لقب سے نہیں نوازا۔ (روزنامہ ایکسپریس 27 نومبر2025)
اقبال نے کہا ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سّرِ آدم ہے، ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
انسان بالخصوص مسلمان کے لیے یہی شایان شان ہے کہ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔ مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ پر یہی کیا ہے۔ انہوں نے آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کیا۔ انہوں نے ایک ہزار سال تک علوم و فنون کے تمام شعبوں میں پوری دنیا کی قیادت کی۔ بیسویں صدی میں مولانا مودودی نے علم اور سیاست کے دائرے میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ برصغیر کی مذہبیت فرقوں اور مسلکوں کی مذہبیت تھی مگر مولانا مودودی نے ایسی مذہبیت کی تعلیم دی جو فرقوں اور مسلکوں سے بلند تھی اور صرف ’’امت‘‘ کے تصور کا طواف کرتی تھی۔ بلاشبہ مولانا اشرف علی تھانوی اور احمد رضا خان بریلوی بڑے عالم تھے مگر ان کا اثر صرف برصغیر تک محدود تھا مگر مولانا مودودی نے جو لٹریچر تخلیق کیا وہ حقیقی معنوں میں امت گیر تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ مولانا کا یہ لٹریچر دنیا کی 50 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ حالانکہ مولانا یا ان کی جماعت کے پاس کبھی اقتدار نہیں تھا۔ نہ ان کے پاس سرمائے کی طاقت تھی۔ نہ ذرائع ابلاغ کی قوت تھی۔ دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ جس شخص کو ادب کا نوبل انعام مل جاتا ہے اس کی کتب کو دنیا کے دوچار بڑے ناشرین اپنی سرپرستی میں لے کر انہیں ساری دنیا میں عام کردیتے ہیں مگر خدا کا شکر ہے مولانا مودودی کو کبھی ادب کا نوبل انعام نہیں ملا اس کے باوجود مولانا کی کتب دنیا کی 50 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوگئیں۔ یہاں بھی مولانا نے اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھائی۔ مولانا نے سیاست میں قدم رکھا تو یہاں بھی انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھائی۔ جماعت اسلامی 1941ء میں قائم ہوئی مگر پاکستان میں وہ 1970ء تک اتنی اہم جماعت بن چکی تھی کہ اس سے صرف نظر کرنا آسان نہ تھا۔ 1977ء تک جماعت اسلامی کی سیاسی قوت کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر سیاسی تحریک کا مرکزی حوالہ تھی اور اس نے طلبہ اور محنت کشوں کی سیاست میں کمیونسٹوں کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ 1977ء تک جماعت اسلامی کی انتخابی قوت بھی ایسی تھی کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں جماعت کے دس سے پندرہ ہزار ووٹ موجود تھے۔
ہندوستان کی سیاست میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیم بی جے پی نے بھی اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھائی ہے۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ پر گاندھی اور نہرو جیسے لوگ چھائے ہوئے تھے اور کوئی سمجھدار ہندو آر ایس ایس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ 1930ء سے گاندھی کے قتل تک آر ایس ایس بھارتی سیاست میں کچھ بھی نہ کرسکی۔ گاندھی کے بعد کے 17 سال نہرو کے سال ہیں اور نہرو کی سیاست نے بھی آر ایس ایس کی سیاست کو ابھرنے نہ دیا۔ نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی سیاست پر چھا گئیں۔ اس عرصے میں بھی آر ایس ایس کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ مگر آر ایس ایس نے ہار نہ مانی۔ وہ اپنی پے درپے شکستوں سے مایوس نہ ہوئی۔ بالآخر بابری مسجد کا مسئلہ اس کے ہاتھ آگیا اور اس نے کانگریس کے دور حکومت میں بابری مسجد کو شہید کردیا۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ یہاں سے آر ایس ایس اور اس کی بغل بچہ تنظیم بی جے پی کو نئی قوت فراہم ہوئی اور وہ بھارت کی بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری۔ اور آج پورے ہندوستان میں بی جے پی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ بلاشبہ بی جے پی کی سیاست نفرت اور تشدد کی سیاست ہے مگر اس کی پشت پر کوئی جی ایچ کیو موجود نہیں۔ بی جے پی نے سیاست میں اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھائی ہے۔ ہندو سماج میں اب اپنی دنیا اسی طرح پیدا کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ ہندو سماج اخلاقی اور تہذیبی طور پر ایک مرتا ہوا سماج ہے۔
فلسطین کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ پر 50 سال تک یاسر عرفات اور پی ایل او چھائے رہے۔ اس منظرنامے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حماس کبھی پی ایل او کی ٹکّر کی تنظیم بن کر ابھرے گی۔ شیخ یٰسین چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ وہ وہیل چیئر تک محدود تھے مگر انہوں نے حماس کو ایک زندہ اور توانا تنظیم میں ڈھال دیا۔ یہاں تک کہ حماس پی ایل او کا ’’متبادل‘‘ بن گئی۔ حماس اپنی اصل میں ایک جہادی تنظیم تھی مگر ایک وقت آیا کہ حماس ایک ’’سیاسی تنظیم‘‘ بن کر اُبھری۔ اس نے فلسطین کے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے حریفوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ مگر ’’جمہوریت پسند امریکا‘‘ اور ’’جمہوریت پسند یورپ‘‘ نے حماس کی جمہوری کامیابی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جیسا کہ ظاہر ہے حماس صرف ایک ’’تنظیم‘‘ ہے ’’ریاست‘‘ نہیں مگر حماس گزشتہ دو سال سے ایک ’’ریاست‘‘ بنی ہوئی ہے اور اسرائیل اس ریاست کو اپنی تمام تر شیطانی قوت اور امریکا کی پشت پناہی کے باوجود شکست سے دوچار نہیں کرسکا ہے۔ یہاں تک کہ دو سال بعد اسے حماس کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ کرنے پڑے بلاشبہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کے اکثر سیاست دان اور سیاسی جماعتیں جی ایچ کیو ساختہ ہیں، ذوالفقار علی بھٹو بڑے سیاست دان تھے مگر بھٹو کو جنرل ایوب نے بھٹو بنایا تھا۔ جنرل ایوب نہ ہوتے تو بھٹو بھٹو نہ ہوتے، اس لیے بھٹو صاحب ایک زمانے میں جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلاشبہ جنرل ایوب بھٹو کے ’’سیاسی ڈیڈی‘‘ تھے۔ میاں نواز شریف آج عمران خان کے حساب کا مطالبہ کررہے ہیں اور قوم کو بتارہے ہیں کہ عمران خان کو عمران خان بنانے والے جرنیل تھے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کیا ان کے پورے خاندان پر ’’جی ایچ کیو‘‘ ساختہ لکھا ہوا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں نواز شریف صرف ایک صنعت کار اور ایک کرکٹر تھے مگر انہیں جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے پنجاب کا وزیر بنایا۔ اس بات پر میاں صاحب اور جنرل ضیا اور جنرل جیلانی سے حساب ہونا چاہیے۔ چونکہ میاں نواز شریف پوری طرح جرنیلوں کے غلام ثابت ہوئے۔ اس لیے جرنیلوں نے انہیں ’’ترقی‘‘ دے کر پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا۔ اس بات پر بھی میاں صاحب اور انہیں ترقی دینے والے جرنیلوں سے حساب ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک گھامڑ شخص کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کیوں بنایا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد جرنیلوں کا بنایا ہوا اتحاد تھا اور اس کا مقصد بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنا تھا۔ چونکہ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے انتخابات جیت کر میاں صاحب ملک کے وزیراعظم بنے اس لیے میاں صاحب اور جرنیلوں سے اس سلسلے میں بھی حساب مانگا جانا چاہیے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز نے اقتدار پر قبضہ کیا تو میاں صاحب کیا ان کا پورا خاندان جنرل پرویز اور امریکا کے جوتے چاٹ کر سعودی عرب فرار ہوئے تھے۔ اس موقعے پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے فرمایا تھا کہ امریکا اپنے آدمی کو پاکستان سے نکال کر لے گیا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ میاں نواز شریف سے جنرل پرویز اور امریکا کے جوتے چاٹنے پر بھی حساب لیا جائے۔ عمران خان کی حکومت میں میاں نواز شریف جیل میں قید تھے اور ان کی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ چنانچہ میاں نواز شریف نے جنرل باجوہ کے جوتے چاٹ کر خود کو بیمار ظاہر کیا۔ جنرل باجوہ نے بھی عمران خان کو باور کرایا کہ جیل میں میاں نواز شریف کے ’’پلیٹ لیٹس‘‘ خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں اور اگر میاں صاحب جیل میں مر گئے تو اس کے سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں۔ یہ سن کر عمران خان بھی گھبرا گئے اور انہوں نے علاج کی غرض سے میاں صاحب کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ اس سلسلے میں بھی میاں صاحب اور جنرل باجوہ سے حساب ہونا چاہیے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی۔
نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز اپنی اپنی نشستیں ہار گئے تھے مگر جنرل عاصم منیر نے انتخابی نتائج کو فارم 47 کے ذریعے بدلوا دیا۔ چنانچہ نواز لیگ مرکز اور پنجاب میں فاتح بن کر اُبھر آئی اور پی ٹی آئی کو شکست ہوگئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پورا شریف خاندان 2024ء کے انتخابی نتائج کے بعد جی ایچ کیو ساختہ بن کر سامنے آیا۔ چنانچہ صرف نواز شریف سے نہیں پورے شریف خاندان سے اس سلسلے میں بھی حساب ہونا چاہیے۔ جب میاں نواز شریف یہ سارے حساب دے چکیں تو پھر وہ بے نظیر بھٹو، الطاف حسین اور عمران خان سے بھی جی ایچ کیو ساختہ ہونے پر حساب مانگیں۔ ویسے دیکھا جائے تو عمران خان نے دو سالہ جیل میں رہ کر اور جنرل عاصم سے مفاہمت نہ کرکے اپنے جی ایچ کیو ساختہ ہونے کا حساب دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان کا ریکارڈ پورے شریف خاندان سے بہتر ہے۔