دونوں رہنماؤں نے تجارت، صحت، نقل و حرکت، فوڈ سیفٹی، شپنگ اور عوامی رابطوں جیسے شعبوں میں کئی معاہدوں پر دستخط کئے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور روس نے جمعہ کے روز باہمی تعلقات کو نئی قوت دینے کے لئے جامع معاشی و تجارتی منصوبہ (2030ء اکنامک پروگرام) کو حتمی شکل دیتے ہوئے واضح کیا کہ بدلتی عالمی سیاست اور مغربی دباؤ کے باوجود دونوں ممالک کی شراکت داری "ثابت قدم اور قطبی ستارے کی طرح روشن" رہے گی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان نئی دہلی میں ہونے والی 23ویں سالانہ سربراہی ملاقات نے دنیا بھر میں خاص توجہ حاصل کی، خصوصاً ایسے وقت میں جب امریکہ اور مغربی ممالک روس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگا رہے ہیں اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے لئے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ آٹھ دہائیوں میں عالمی سیاست شدید اتار چڑھاؤ سے گزری لیکن بھارت روس دوستی "ہمیشہ مضبوط ستون" کی طرح ثابت رہی۔ دونوں رہنماؤں نے تجارت، صحت، نقل و حرکت، فوڈ سیفٹی، شپنگ، اور عوامی رابطوں جیسے شعبوں میں کئی معاہدوں پر دستخط کئے۔ روس نے سالانہ تجارت کو موجودہ 64 ارب ڈالر سے بڑھا کر 100 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف طے کیا ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ روس بھارت کو تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر توانائی ذرائع بلا تعطل فراہم کرتا رہے گا، جب کہ ایٹمی توانائی، چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز اور فلوٹنگ نیوکلیئر پاور پلانٹس میں تعاون بڑھانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

مودی نے روسی شہریوں کے لئے 30 روزہ مفت ای–ٹورسٹ ویزا اور گروپ ویزا کی سہولت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ توانائی اور جوہری تعاون دونوں ممالک کے تعلقات کا بنیادی ستون ہیں۔ سربراہی بات چیت میں یوکرین جنگ بھی مرکزی نکتہ رہی۔ نریندر مودی نے ایک بار پھر واضح کیا کہ بھارت ہمیشہ امن کا حامی رہا ہے اور ہر وہ کوشش قابلِ ستائش ہے جو جنگ کے پائیدار حل کی طرف لے جائے۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کو ترجیح قرار دیتے ہوئے پہلگام اور روس کے کروکس سٹی ہال حملوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ دہشت گردی انسانیت پر حملہ ہے اور عالمی اتحاد ہی اس کا مؤثر جواب ہے۔

نریندر مودی نے دو دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط پیوٹن کی "مستحکم قیادت" کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رہنمائی نے بھارت روس تعلقات کو ہر دور میں مستحکم رکھا ہے۔ قبل ازیں روس کے صدر ولادیمیر پوتن 4 دسمبر کو دو روزہ سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچے۔ یہ دورہ اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد صدر پوتن کا یہ بھارت کا پہلا ریاستی دورہ ہے، ایسے وقت میں جب عالمی سیاست کا مرکز نئی امن کوششوں کی جانب منتقل ہو رہا ہے جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ جمعرات کی شام نئی دہلی پہنچنے کے بعد صدر پوتن نے جمعہ کی صبح راشٹرپتی بھون میں روایتی گارڈ آف آنر اور سرکاری استقبال حاصل کیا۔ اس موقع پر صدر دروپدی مُرمو اور وزیراعظم نریندر مودی موجود تھے۔

صدر پوتن اور وزیراعظم مودی حیدرآباد ہاؤس پہنچے جہاں ان کی سربراہ سطح کی ملاقات جاری ہے۔ اس ملاقات میں دفاعی تعاون میں نئی پیش رفت، جوائنٹ مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر، جوہری اور قابلِ تجدید توانائی میں شراکت، تجارت کو 100 بلین ڈالر تک لے جانے کے منصوبے، بحرہند–بحیرہ بالٹک کنیکٹیویٹی، مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال اور عالمی امن، یوکرین جنگ پر سفارتی موقف جیسے کلیدی موضوعات شامل ہیں۔ صدر پوتن نے یوکرین تنازع کے حل کے لئے بھارت اور وزیراعظم مودی کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر بھارت کا متوازن مؤقف قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یوکرین جنگ صدر پوتن کے لئے کہا کہ

پڑھیں:

افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی روک تھام کی پختہ یقین دہانی تک سرحد بند رہیگی: پاکستان کا دو ٹوک مؤقف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان نے اپنا واضح مؤقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک افغان حکومت اس بات کی ٹھوس ضمانت نہیں دیتی کہ دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی مکمل طور پر روکی جائے گی، تب تک سرحد نہیں کھولی جائے گی۔

ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ طاہر حسین اندرابی نے کہا کہ مسئلہ صرف ٹی ٹی پی یا ٹی ٹی اے تک محدود نہیں، افغان شہری بھی پاکستان میں مختلف سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں، اس لیے سرحد کی بندش کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے عوام سے کوئی اختلاف نہیں، وہ ہمارے بھائی بہن ہیں، سرحد کی بندش کی وجہ سکیورٹی خدشات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ افغان عوام کے لیے انسانی امداد کی راہداری میں معاون رہا ہے، مگر بارڈر پالیسی افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عملی تعاون سے جڑی ہے۔ افغان حکومت یقین دہانی کرائے کہ دہشتگرد اور پرتشدد عناصر پاکستان میں داخل نہیں ہوں گے، اسی شرط پر سرحد کھولنے پر غور ہوسکتا ہے۔

ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ انہیں سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق میڈیا رپورٹس کا علم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ترک صدر نے اعلان کیا تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی ترک وفد اسلام آباد آئے گا، مگر شیڈولنگ مسائل یا طالبان کی جانب سے عدم تعاون کے باعث دورہ نہ ہوسکا۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اپنی حفاظت کے لیے سرحد بند کی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے شہری دہشتگردی کا نشانہ بنیں۔

طاہر حسین اندرابی نے روسی صدر پیوٹن کے بھارت کے دورے سے متعلق کہا کہ یہ دونوں خودمختار ممالک کا باہمی معاملہ ہے۔ بھارت اور روس کے ممکنہ دفاعی معاہدوں پر پاکستان کا کوئی مخصوص مؤقف نہیں۔ ممالک اپنے دو طرفہ تعلقات بڑھانے میں آزاد ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی مسلمانوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں پر پاکستان کو گہری تشویش ہے۔ ریاستی سرپرستی نے انتہا پسند تنظیموں کو مزید شہ دی ہے۔ کل بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال مکمل ہو رہے ہیں، جو آج بھی دکھ اور تشویش کا باعث ہے۔ کسی بھی مذہبی مقام کی بے حرمتی مذہبی مساوات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور ایسے اقدامات کا شفاف احتساب ہونا ضروری ہے۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • مودی کا پیوٹن کی بھارت آمد پر روسی شہریوں کیلیے مفت سیاحتی ویزے کا اعلان
  • بھارتی وزیراعظم مودی کا روسی شہریوں کو مفت ویزا فراہم کرنے کا اعلان
  • مغربی دباؤ نظر انداز: پیوٹن اور مودی کا تجارت کے فروغ اور دوستی مضبوط کرنے پر اتفاق
  • افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی روک تھام کی پختہ یقین دہانی تک سرحد بند رہیگی: پاکستان کا دو ٹوک مؤقف
  • پیوٹن کا انڈیا میں تاریخی استقبال، بھارت کے روسی تیل خریدنے پر امریکی دباؤ کو کھلا چیلنج دے دیا
  • روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنے ہندوستان دورے پر نئی دہلی پہنچے، نریندر مودی نے کیا استقبال
  • ولادیمیر پیوٹن نے کچھ امریکی تجاویز قبول اور کچھ کو مسترد کیا، کریملن
  • مودی اور پیوٹن ملاقات: عالمی صف بندی میں بھارت کی نئی حکمتِ عملی
  • تنازعات عالمی امن کیلیے خطرہ ہیں؛ پاک بھارت جنگ خطرناک ثابت ہو سکتی تھی، اسحاق ڈار