Juraat:
2025-12-05@08:51:50 GMT

مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ غریب آدمی کے لیے گھریلو چولہا جلانا بھی ایک مشکل ترین امتحان بن گیا ہے ۔ بجلی اور گیس کی مسلسل
لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ، اور جب یہ دونوں دستیاب نہیں ہوتیں تو عوام ایل پی جی پر گزارا کرتے ہیں۔ مگر حالیہ
اضافہ نے محروم طبقے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ روزگار نہ ہونے ، آمدن کم ہونے اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں مسلسل
بڑھنے سے غریب گھرانے شدید متاثر ہو رہے ہیں، اور ہر روز زندگی کا بوجھ پہلے سے زیادہ بھاری ہو رہا ہے ۔مہنگائی صرف بڑھتی قیمتوں کا
نام نہیں، یہ انسان کے خوابوں، اس کے عزم، اور اس کی سانس تک پر قبضہ کر لینے والی ایک تشدد زدہ حقیقت ہے جو ہر روز گھر کی دہلیز پر نیا
زخم پہنچاتی ہے ۔
آج پاکستان میں غریب خاندان اسی دَور سے گزر رہے ہیں۔ بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ، گیس کی بندش، اور مائع پٹرولیم گیس (ایل پی
جی) کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافہ، ایک سیاہ منظرنامہ تشکیل دے چکا ہے ۔ ان حالات میں، غریب کی چیخ زندہ ہے ، اور اس چیخ کو
خاموشی میں دبانا ظلم ہے ۔حالیہ نوٹیفکیشن کے مطابق، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (OGRA) نے دسمبر 2025 کے لیے ایل پی
جی کی قیمت میں 7۔39 روپیہ فی کلوگرام اضافہ کیا ہے ۔ اسی اضافے کے بعد 11۔8 کلوگرام کے گھریلو سلنڈر کی قیمت نومبر کی 2,378۔89 روپیہ سے بڑھ کر 2,466۔10 روپیہ ہو گئی ہے ، اور فی کلو گرام قیمت نومبر کی 201۔60 روپیہ سے بڑھ کر دسمبر کے
لیے 208۔99 روپیہ ہو گئی ہے ۔ یہ صرف اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر غریب گھرانے کی زندگی پر کاری ضرب ہے ۔ یہ قیمتوں کا بڑھنا ایک
علیحدہ مسئلہ نہیں یہ نظامِ زندگی کی تباہی کی نوید ہے ۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ نے غریب خاندانوں کو چولہے ، ہیٹر، اور
بنیادی سہولیات سے محروم کردیا ہے ۔ پہلے بجلی کی گھنٹوں بندش، پھر گیس کی غیر اعلانیہ بندش اور اب ایل پی جی کی بھاری قیمت نے ان
لوگوں کا گھر تباہ کر دیا ہے جن کی جیبیں پہلے ہی خالی تھیں۔ وہ لوگ جو کبھی صبح کی روٹی کے لیے پریشان نہ تھے ، آج ایک سلنڈر گیس کو خدا کی
رحمت جان کر سمیٹ رہے ہیں۔صبح کے اوقات میں گیس کی غیر اعلانیہ بندش اور مہنگی ایل پی جی کی وجہ سے معصوم بچے اور روزگار کی تلاش
میں جانے والے افراد بغیر ناشتے بھوکے ہی چلے جاتے ہیں۔ غریبوں کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔اِن سب مسائل کا سب
سے زیادہ برا اثر اُن پر ہوا ہے جن کی ماہانہ آمدن چھوٹے کاروبار یا یومیہ مزدوری سے ہوتی ہے ۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری
خصوصاً دیہی یا نچلے متوسط طبقے میں غریب خاندانوں کو معاشی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے ۔ ایسے گھرانے جن کے پاس بجلی اور گیس
کی سہولت تھی، آج اُس کا سہارا بھی چھن گیا۔ مزدور دن بھر محنت تو کرتا ہے مگر واپس آ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی
بنیادی ضرورتیں اب خواب بن چکی ہیں۔
مہنگائی کا اثر صرف ایندھن یا توانائی پر نہیں رہا۔ بقیہ اشیائِ زندگی خوراک، ادویات، تعلیم، نقل و حمل سب نے اپنی قیمتیں بڑھا لی ہیں۔
ایک عام غریب خاندان کے لیے گوشت یا مرغی پہلے ہی ایک اعزاز تھا؛ آج وہ سبزی، دال، چینی کی قیمتوں میں اضافہ برداشت نہ کر سکے تو
گوشت تو دور کی بات ہے ۔ دودھ، انڈے ، چاول، آٹا، تیل ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے ۔ انسانی زندگی کا سب سے بنیادی حق خوراک اب ایک
عیاشی بن چکی ہے ۔ بچے بھوکے پیٹ سو رہے ہیں، مائیں روزِ اولاد کے خواب دیکھ کر روتی ہیں، اور باپ لب کشائی سے پہلے ہی ٹوٹ چکے
ہیں۔مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ معیارِ زندگی کے اس زوال نے خاندانوں کے روحانی و سماجی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ پہلے
جہاں پڑھے لکھے والدین بچوں کو اسکول بھیجتے تھے ، اب وہ بچوں کو اسکول سے نکال کر مزدوری کے چکر میں لگا دیتے ہیں۔ اس سے بچوں کی
تعلیم ناتمام رہ جاتی ہے ، اور خاندان نسل در نسل غربت کی زنجیروں میں پھنس جاتا ہے ۔ صحت مند غذا نہ ملنے کی وجہ سے بچوں میں کمزوری،
بیماری، اور انکھ مچکنے جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ماں باپ اس حقیقت سے ڈرتے ہیں کہ آیا کل ان کا گھر انتہائی محتاج اور فاقہ زدہ نہ ہو جائے !
حکومت اور متعلقہ اداروں کی ناقص پالیسیوں نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی شکایتیں، مطالبات، اور
احتجاجات معمول بن چکے ہیں مگر تبدیلی صرف لفاظی تک محدود رہی۔ توانائی کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں مگر غربت زدہ طبقے کے لیے کوئی
ایسا حفاظتی نیٹ ورک موجود نہیں جو حقیقی معنوں میں ان کی معاونت کرے ۔ کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس سے غریب خاندان بجلی اور گیس کے
بحران میں کفایت شعاری اختیار کر سکیں یا متبادل وسائل اختیار کر سکیں۔
بے روزگاری اور مہنگائی نے معاشرتی انتشار کو بھی بھڑکایا ہے ۔ لوگ احساس کمتری، شرمندگی، اور بے بسی کی کیفیت کا شکار ہیں۔ معاشرتی اقدار ٹوٹ رہی ہیں اور انسانیت کی عصمت تار تار ہو رہی ہے ۔ وہ انسان جو کبھی اپنے گھر کا سایہ تھا، آج خود محافظ کا طلب گار
ہے۔ ایک اور پہلو قابل غور ہے : مہنگائی نے عوامی شعور کو زنگ لگا دیا ہے ۔ روٹی کے حصول کی دوڑ میں لوگ اپنے بنیادی حقوق بھول جاتے
ہیں۔ احتجاج، تنظیم سازی، اور آواز اٹھانے کی جرات رنگ فراموشی کھا چکی ہے ۔ لوگ اب صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ کل کیسے گزارا ہوگا؟
بچوں کو کیسے پالیں گے ؟ گھریلو اخراجات کو کیسے پورا کریں گے ؟ بلاواسطہ حقوق کی بات چھوڑ کر، ہر شخص اپنی بقا کی تلاش میں خود غرضی کی راہ
پر چل پڑا ہے ۔لیکن یہ سیاہ تصویر مکمل مایوسی کی نہیں۔ ہمارا ملک وسائل کی دولت سے خالی نہیں لیکن پالیسی سازی، شفافیت، اور عوامی مفاد کی
سوچ کی فقدان نے اس دولت کو خاک میں دفنا دیا ہے ۔ اگر حکومت واقعی عوام کی فلاح چاہتی ہے تو اسے فوری اقدامات کرنے ہوں گے
تاکہ غربت کی دلدل سے نکلنے کا راستہ کھلے ۔سب سے پہلے ، توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا بوجھ غریب اور کمزور طبقات پر منتقل نہ کیا
جائے ۔ ضروری ہے کہ گیس اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی دی جائے یا کم از کم ان کی قیمتوں کو معاشی استطاعت کے مطابق رکھا جائے ۔ ایل
پی جی جیسی بنیادی ضرورتوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے پہلے معاشی سروے کیا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایک اوسط غریب گھرانہ کس
حد تک اسے برداشت کر سکتا ہے ۔ایک دیرپا حل یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے متبادل صاف اور سستی ذرائع پر سرمایہ کاری کی جائے جیسے شمسی
توانائی، پاکیزہ گیس انفرااسٹرکچر، اور مقامی سطح پر ریفائنری وغیرہ۔ اس سے نہ صرف توانائی کا بحران حل ہوگا بلکہ بے روزگاری بھی کم ہوگی
اور مقامی صنعتیں ترقی کریں گی۔مزید یہ کہ حکومت کو عوامی تحفظ کے لیے ایک مضبوط سماجی نیٹ ورک تشکیل دینا چاہیے ایک ایسا نظام جو بے
روزگار، یومیہ مزدور، اور کم آمدن والے خاندانوں کو مالی امداد، مفت طبی سہولت، اور بچوں کی تعلیم کی غرض سے وظائف فراہم کرے ۔ اس
طرح کا سماجی تحفظ غربت کے گڑھے سے نکالنے کی پہلی سیڑھی ثابت ہو سکتا ہے ۔عوامی شعور کو بھی جگانا پڑے گا غربت اور مہنگائی کی لپیٹ
میں گھرے انسانوں کو چاہیے کہ اشتراکیت، ہمدردی اور اجتماعی تعاون کا راستہ اختیار کریں۔ یونینیں بنائیں، مقامی سطح پر رفاعی ادارے قائم کریں، اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس طرح نہ صرف ذاتی بوجھ ہلکا ہوگا بلکہ اجتماعی طاقت پیدا ہوگی، جو نظامی تبدیلی کے لیے ضروری ہے ۔
اگر یہ اقدامات بروقت اور ایمانداری سے نافذ کئے جائیں، ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جب غریب بھی عزت کے ساتھ کھانا پکائیں، بچے تعلیم حاصل کریں، اور مائیں گھروں کو روشنی سے سجائیں۔ مگر اگر ہم چپ رہے ، لاپرواہی کی نیند سو گئے ، اور نیک نیتی کو خیرات سمجھ کر رد کر دیا، تو آج کی یہ چیخ کل کی نسلوں کے لیے صدا بن جائے گی۔آئیے ، اپنے ٹوٹے ہوئے معاشرے کی دوبارہ تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس ظلم کی اندھیری رات کو روشنی میں بدلنے کے لیے ہمیں صرف انصاف، شفاف پالیسی، اور عوامی شعور کی ضرورت ہے ورنہ یہ مہنگائی کا طوفان ہمیشہ ہمارے گھروں کو گرا دے گا، اور خاک نشین انسان اپنی عزت و وقار کے ساتھ مرجھا جائیں گے ۔آج کا انسان قدیم غاروں کی دنیا میں لوٹ رہا ہے ۔تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔خدارا حکومت گیس کی فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ گیس ہماری اپنی ملکی معدنیات ہے ۔ہمیں بچپن میں معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا تھا۔وطن کی مٹی گواہ رہنا۔
٭٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: بجلی اور گیس کی قیمتوں ایل پی جی رہے ہیں کی قیمت کے لیے دیا ہے کر دیا گیس کی

پڑھیں:

ناسا زندگی کے آثار تلاش کے لیے 20 سیاروں پر منی ٹیلی اسکوپ بھیجے گی

ناسا نے خلا میں ایک منی ٹیلی اسکوپ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو زمین سے دور 20 سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کرے گی۔ یہ ٹیلی اسکوپ وزن میں 716 پاؤنڈ اور چوڑائی میں 17 انچ کی ہوگی اور عام خلائی دوربینوں کے مقابلے میں کہیں چھوٹی ہے۔ ناسا آئندہ سال اس ٹیلی اسکوپ کو لانچ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا روور کی اہم کامیابی، مریخ پر ’منی لائٹننگ‘ کی موجودگی ثابت

اس نئی ٹیلی اسکوپ کو پانڈورا کا نام دیا گیا ہے جو منتخب 20 ایکسوپلینٹس کا مشاہدہ کرے گی۔ ہر سیارے کو 24 گھنٹے تک مسلسل اسٹڈی کیا جائے گا اور یہی عمل 10 بار دہرایا جائے گا۔

مشن کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا ان دور دراز دنیاؤں میں زندگی کے لیے مناسب حالات موجود ہیں یا نہیں، اور ساتھ ہی ان سیاروں کے ماحول کے بارے میں اہم معلومات جمع کرنا بھی اس مشن کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا نے دور افتادہ سیارے پر زندگی کے ٹھوس آثار ڈھونڈ نکالے

مشن آپریشنز کی نگرانی کرنے والے سائنسدان اور پروفیسر ڈینیئل اپائی کے مطابق یہ تمام سیارے پہلے بھی اسٹڈی ہو چکے ہیں، لیکن مختلف سطحوں اور مختلف کامیابی کے ساتھ۔ پانڈورا کی اصل طاقت مسلسل مشاہدات اور بار بار کے ری وِزٹس میں ہے، جس سے ایک مکمل اور واضح تصویر بنائی جاسکے گی۔

انہوں نے بتایا کہ صرف 20 سیارے منتخب کرنا انتہائی مشکل تھا۔ انہوں نے گرم ستاروں کے گرد گھومنے والے سیارے بھی منتخب کیے اور ٹھنڈے ستاروں کے گرد گھومنے والے بھی، بڑے گیس جائنٹ بھی اور چھوٹے سب نیپچون طرز کے سیارے بھی۔

یہ بھی پڑھیں: نظام شمسی میں زمین سے 65 گنا بڑا سیارہ دریافت

ابتدا میں فہرست میں 100 سے زائد امیدوار سیارے موجود تھے، جن میں سے مرحلہ وار کمی کی گئی۔

پانڈورا ان ستاروں کے نظاموں میں پانی کے بخارات اور ہائیڈروجن تلاش کرے گی، جو اس بات کا اشارہ ہوسکتے ہیں کہ کسی سیارے پر پانی موجود ہے یا پھر وہ اپنے ستارے کی حرارت سے حد سے زیادہ گرم ہورہا ہے۔

واضح رہے کہ اس مشن کا بجٹ 20 ملین ڈالر ہے، جو 10 ارب ڈالر کی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news زندگی سیارے منی ٹیلی اسکوپ ناسا

متعلقہ مضامین

  • غریب موٹر سائیکل والے پر چالان کیے جا رہے ہیں طاقتور کو آپ کچھ کہہ نہیں سکتے ہیں؛اسد عمر
  • حکمرانوں کے متضاد فیصلوں نے غریب کا جینا دوبھر کر دیا ہے، پاکستان عوامی تحریک
  • عوام مہنگائی اور بیروز گاری سے پریشان، غریب مر رہا ہے، شیخ رشید 
  • کراچی؛ غریب آباد میں ڈاکو کی فائرنگ سے پولیس اہلکار زخمی
  • ناسا زندگی کے آثار تلاش کے لیے 20 سیاروں پر منی ٹیلی اسکوپ بھیجے گی
  • رسائی کا بحران: معذور افراد کی باعزت زندگی کا سفر مظفرآباد میں ادھورا
  • افغان طالبان رجیم کے تحت انسانی حقوق کی پامالیاں اور بڑھتی غربت، افغان عوام مشکلات کا شکار
  • حیدرآباد، تجاوزات کیخلاف عوامی حلقوں میں تشویش کا اظہار
  • امیتابھ ہماری شادی کو زندگی کی سب سے بڑی غلطی کہیں گے، جیا بچن کا اعتراف