Juraat:
2025-12-05@08:54:44 GMT

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

محمد آصف

اختیارات کی تقسیم جدید جمہوری طرزِ حکمرانی کا بنیادی ستون ہے ۔ اس نظریے کے مطابق ریاست کی تینوں شاخیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے الگ مگر باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ طاقت کا ارتکاز کسی ایک ادارے کے ہاتھ میں نہ ہونے پائے اور شہریوں کے حقوق ایک غیر جانب دار اور خودمختار عدلیہ کے ذریعے محفوظ رہیں۔ پاکستان کے تناظر میں اختیارات کی تقسیم کی تاریخ
نہایت پیچیدہ اور نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے ۔ قیامِ پاکستان سے آج تک عدلیہ کی آزادی کا سفر سیاسی عدم استحکام، آئینی بحرانوں اور بار بار آنے والی فوجی آمریتوں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اس تاریخ کو سمجھنا پاکستان کی جمہوری ترقی اور ادارہ جاتی توازن کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے ۔
1947 میں پاکستان نے برطانوی کالونی کے دور کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو اپنے عبوری آئینی ڈھانچے کے طور پر اپنایا، مگر یہ قانون جدید جمہوری چیک اینڈ بیلنس اور عدلیہ کی حقیقی آزادی فراہم نہیں کرتا تھا۔ ملک کے ابتدائی برسوں میں قیادت کو ریاست کی تنظیم، مہاجرین کی آباد کاری، اور معاشی مسائل نے گھیر رکھا تھا، جس کے سبب مضبوط آئینی اداروں کی تعمیر پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جا سکی۔ عدلیہ ان سالوں میں محدود کردار ادا کر رہی تھی، اور اسے وہ آئینی اختیارات حاصل نہ تھے جو اسے مکمل طور پر خودمختار بنا سکتے تھے ۔ اسی سیاسی ناپختگی کے دور میں ملک کی پہلی بڑی آئینی اور عدالتی آزمائش سامنے آئی، جس نے مستقبل کی سول ملٹری سیاست کا رخ متعین کیا۔
مولوی تمیز الدین کیس (1954) پاکستان کی آئینی تاریخ کا پہلا بڑا موڑ تھا۔ جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیا تو اس غیر آئینی اقدام کو سپریم کورٹ نے ، چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں، درست قرار دے دیا۔ عدالت نے اس فیصلے کو ”نظریہ ضرورت”کے نام پر جواز فراہم کیا، جس نے مقننہ کی بالادستی اور عدلیہ کی خودمختاری کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس فیصلے نے ایک خطرناک مثال قائم کی یہ کہ غیر آئینی اقدامات بھی ”ضرورت”کے تحت جائز قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہی نظریہ بعد کی فوجی مداخلتوں کے لیے قانونی سہارا بنتا رہا اور اختیارات کی تقسیم مستقل طور پر متاثر ہوتی رہی۔1958، 1977اور 1999کی فوجی بغاوتوں نے پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو بار بار نقصان پہنچایا، اور ہر دور میں عدلیہ کے سامنے یہ امتحان آیا کہ وہ جمہوریت کا ساتھ دے یا طاقتور قوتوں کے دباؤ میں آئے ۔ اکثر مواقع پر عدلیہ نے نظریۂ ضرورت کے تحت فوج کے اقدامات کو جائز قرار دیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز
مشرف تینوں ادوار میں عدالتوں نے مارشل لا کو قانونی حیثیت دی، جس سے عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھے اور اختیارات کی تقسیم کمزور
ہوئی۔ تاہم عدلیہ ہمیشہ کمزور نہیں رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ عدلیہ نے کئی مواقع پر اپنی خودمختاری کااظہار بھی کیا۔ 1973 کا آئین عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔ اس آئین نے عدلیہ کو ایک الگ اور بااختیار ستون کے طور پر تسلیم کیا، اس کے اختیارات واضح کیے ، اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ کو اصل دائرہ اختیار عطا کیا۔ یوں عدلیہ پہلی بار ایک آئینی محافظ کے طور پر سامنے آئی۔1990کی دہائی میں جب بار بار منتخب حکومتیں برطرف ہو رہی تھیں، عدلیہ نے کبھی کبھی انتظامیہ کے خلاف کھڑے ہوکر اپنی خودمختاری دکھائی۔ 1993 میں سپریم کورٹ نے تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال کر کے حکومتِ وقت کو چیلنج کیا، جو عدلیہ کے خودمختار کردار کی ایک اہم مثال تھی۔ مگر اس کے باوجود عدالتی ادارے سیاسی دباؤ سے پوری طرح آزاد نہ ہو سکے ۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے اہم موڑ 2007 کی وکلاء تحریک تھی۔ جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفیٰ طلب کیا اور انہوں نے انکار کردیا، تو پورے ملک میں وکلاء اور سول سوسائٹی نے ایک تاریخی تحریک شروع کر دی۔ یہ تحریک نہ صرف چیف جسٹس کی بحالی پر منتج ہوئی بلکہ پہلی بار عدلیہ عوامی مزاحمت کی علامت بن کر ابھری۔ اس تحریک نے ثابت کیا کہ پاکستانی سماج عدلیہ کی آزادی کو ایک بنیادی جمہوری ضرورت کے طور پر تسلیم کر چکا ہے ۔ بحالی کے بعد عدلیہ نے مزید فعال کردار اختیار کیا اور از خود نوٹسز، عوامی مفاد کی درخواستوں اور حکومتی اہلکاروں کے احتساب کے ذریعے اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ کچھ حلقوں نے اسے عدلیہ کی مضبوطی قرار دیا، جبکہ بعض نے اسے جوڈیشل اوور ریچ کہہ کر تنقید کی کہ عدلیہ بعض اوقات مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کرتی ہے ۔ اس بحث سے قطع نظر، یہ دور عدلیہ کے نئے اعتماد اور بڑھتے ہوئے سماجی اثر کا عکاس تھا۔ عدلیہ کی آزادی کو آئینی طور پر مضبوط کرنے میں 18ویں ترمیم نے اہم کردار ادا کیا۔ اس ترمیم کے ذریعے عدالتی تعیناتی کا نیا طریقہ کار ترتیب دیا گیا، جس میں عدالتی کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی شامل ہوئیں، اور یوں انتظامیہ کے براہِ راست اثرات کو محدود کر دیا گیا۔ یہ ترمیم اختیارات کی علیحدگی کو مضبوط کرتی ہے اور عدلیہ کو ایک زیادہ خودمختار ادارہ بناتی ہے ۔
اگرچہ عدلیہ نے گزشتہ دہائیوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، مگر چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ خاص کر 26 ویں اور پھر 27 ویں ترمیم سے مذید چیلنجز بڑھے ہیں ۔ سیاسی پولرائزیشن، طاقتور اداروں کا دباؤ، عدالتی تاخیر، مقدمات کا انبار اور بعض اوقات خود عدلیہ پر سیاسی جھکاؤ کے الزامات یہ تمام عوامل عدالتی آزادی کے سفر کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ حقیقی اختیارات کی تقسیم کے لیے صرف آئینی تحفظات کافی نہیں، بلکہ ادارہ جاتی پختگی، سیاسی استحکام اور جمہوری ثقافت کی بھی ضرورت ہے۔ بالآخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی تاریخ جدوجہد، ناکامیوں، کامیابیوں اور ارتقا کا ملا جلا سفر ہے ۔ 1954 کے کمزور فیصلوں سے لے کر وکلاء تحریک کی کامیابیوں تک، اور 18ویں ترمیم سے لے کر عدلیہ نے خود کو ایک زیادہ باوقار ادارے کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جبکہ موجودہ عدالتی فعالیت 26 ویں اور پھر 27 ویں ترمیم نے کئی قسم کے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے ۔ اور کئی وکلا نے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کرار دیا ہے ۔ اختیارات کی تقسیم نہ صرف آئینی اصول ہے بلکہ جمہوریت کی بقا اور ریاستی توازن کے لیے بنیادی ضرورت بھی ہے ۔ عدلیہ کی آزادی وہ ضمانت ہے جو بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے ، حکومتی طاقت کو محدود کرتی ہے اور ایک منصفانہ و بااعتماد معاشرہ تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اختیارات کی تقسیم عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ ویں ترمیم کے طور پر ضرورت کے عدلیہ نے عدلیہ کے کرتی ہے کو ایک کے لیے

پڑھیں:

حکومت بسنت منانے پر پھر ڈٹ گئی، پنجاب کائٹ فلائینگ آرڈیننس 2025 جاری

 (ویب ڈیسک ) ڈور پھرنے سے جاں بحق ہونے کے واقعہ کے 40روز بعد پنجاب حکومت پھر بسنت منانے پر ڈٹ گئی۔

 خونی کھیل کے باعث چالیس روز قبل لاہور میں اکیس سالہ نوجوان موت کے گھاٹ اتر گیا ،جاں بحق ہونے کے چالیس روز بعد پنجاب کائٹ فلائینگ آرڈیننس 2025 جاری ہوگیا  ۔

 کائٹ فلائینگ آرڈیننس کے مطابق پنجاب میں پتنگ بازی ڈپٹی کمشنرز کی اجازت سے مشروط ہو گئی جب کہ پتنگ سازی اور پتنگ فروخت کے لئے رجسٹریشن کروانا لازمی قرار ہوگا، پتنگ باز تنظیموں کےلئے رجسٹریشن بھی کروانا ہوگی۔

صدر مملکت ، وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ کا 7 خوارج ہلاک کرنے پر سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین

 آرڈیننس میں بتایا گیا کہ رجسٹریشن کروانے کے بعد پتنگیں بنانے اور فروخت کرنے کا لائسنس ہوگا، 2001 کا پتنگ بازی پابندی آرڈیننس مکمل طور پر منسوخ کردیا گیا، سابق آرڈیننس کے تحت کیے گئے تمام اقدامات کو درست قرار دیا گیا۔

آرڈیننس حکومت اور ڈپٹی کمشنرز کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ مخصوص مقامات، مخصوص دنوں، اور مقررہ وقت اور غیر خطرناک مواد کے ساتھ محدود پیمانے پر پتنگ بازی کی اجازت دے سکیں، مگر غیر خطرناک مواد کی آرڈیننس میں تشریح ہی نہ کی گئی ہے۔

شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی دو کاروائیاں، 7 خوارج ہلاک

 پنجاب حکومت کے آرڈیننس میں پولیس کے بے پناہ اختیارات دیے جا رہے ہیں ,جس کے مطابق سب انسپکٹر رینک کا پولیس افسر بغیر وارنٹ گرفتاری کر سکے گا اور اُسے کسی بھی مقام پر داخل ہو کر سرچ کرنے کے اختیارات حاصل اور ممنوعہ سامان قبضے میں لے سکے گا۔

علاوہ ازیں حکومت ضرورت پڑنے پر کسی بھی ادارے یا ایجنسی کو یہی اختیارات تفویض کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بیس کیمپ کی حکومت کا بنیادی مقصد تحریکِ آزادیِ کشمیر کو اجاگر کرنا ہے، فیصل ممتاز راٹھور
  • منگلا کے کمیشن سے پہلا چیف آف ڈیفنس فورسز بننے کا سفر، حافظ سید عاصم منیر کی کامیابیوں پر نظر
  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں کئی اہم  عدالتی کارروائیاں منسوخ
  • حکومت بسنت منانے پر پھر ڈٹ گئی، پنجاب کائٹ فلائینگ آرڈیننس 2025 جاری
  • پنجاب حکومت خونیں کھیل بسنت منانے پر پھر ڈٹ گئی
  • بلدیاتی اداروں کا مستقبل
  • عمران خان نے تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی ختم کرکے اختیارات سلمان اکرم راجہ کو دے دیے
  • بانی سے ملاقاتوں کے حوالے سے عدالتی آرڈرز موجود ہیں۔ علیمہ خان
  • پینشن کی عدم ادائیگی پر سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت