لبنان کو بین الاقوامی پشت پناہی کی ضرورت ہے، نواف سلام
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں لبنانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہئے تاکہ وہ اپنے معاندانہ اقدامات کو روکنے کیلئے کئے گئے وعدوں پر عمل کرے۔ اسلام ٹائمز۔ آج لبنان میں تعینات اقوام متحدہ کے امن دستے "یونیفل" کے مشن کا اختتام ہو گیا۔ اس مناسبت سے لبنانی وزیراعظم "نواف سلام" نے کہا کہ ہمیں یونیفل کی ماموریت کے اختتام پر پیدا ہونے والے خلاء سے بچنے کے لئے عالمی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اسرائیلی خلاف ورزیوں کا مقابلہ کرنے کا ذکر کیا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہئے تاکہ وہ اپنے معاندانہ اقدامات کو روکنے کے لئے کئے گئے وعدوں پر عمل کرے۔ نواف سلام کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب لبنان کے صدارتی دفتر نے اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کے وفد نے "جوزف عون" سے ملاقات میں یقین دہانی کروائی کہ وہ بین الاقوامی قراردادوں کے نفاذ کے ذریعے لبنان میں استحکام کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ہاتھ میں ہتھیاروں کا کنٹرول اور لبنانی فوج کی مدد ہماری ترجیح ہے۔ دوسری جانب مذکورہ ملاقات میں جوزف عون نے کہا کہ لبنان، بین الاقوامی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ انہوں نے اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لئے فوج کی مستحکم حمایت کی اپیل بھی کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے۔ نیز صیہونی فورسز مکمل طور پر لبنانی سرزمین سے باہر نکل جائیں۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
لبنان اور اسرائیل کے درمیان پہلی براہ راست سویلین بات چیت، خطے میں بڑی سفارتی پیش رفت
یروشلم: لبنان اور اسرائیل کے شہری نمائندوں نے کئی دہائیوں بعد پہلی بار براہ راست مذاکرات کیے ہیں، جس کی تصدیق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے کی ہے۔
یہ ملاقات اقوام متحدہ کی امن فورس کے صدر دفتر ’’ناقورہ‘‘ میں ہوئی، جہاں دونوں ممالک کے درمیان نومبر 2024 کے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کے تحت بات چیت جاری ہے۔
اب تک لبنان اور اسرائیل کے درمیان رابطے صرف فوجی افسران کے ذریعے ہوتے تھے، لیکن اس بار دونوں ملکوں نے پہلی مرتبہ شہری نمائندے شامل کیے، جسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی ترجمان شوش بدرسیان نے کہا کہ یہ ملاقات ’’لبنان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور اقتصادی تعاون کا راستہ ہموار کرنے کی ابتدائی کوشش‘‘ ہے اور یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔
امریکی سفارتخانے کے مطابق امریکہ کی خصوصی ایلچی مورگن اورٹاگس نے بھی مذاکرات میں شرکت کی، جبکہ واشنگٹن طویل عرصے سے لبنان پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
سفارتخانے نے شہری نمائندوں کی شمولیت کو اس میکانزم کے لیے مثبت قدم قرار دیا ہے، جس کا مقصد ’’سلامتی، استحکام اور دیرپا امن‘‘ قائم کرنا ہے۔
لبنان کے صدر جوزف عون کے دفتر نے بتایا کہ لبنان کی نمائندگی سابق سفیر سیمون کرم نے کی جبکہ اسرائیل نے بھی اپنی ٹیم میں ایک غیر فوجی رکن شامل کیا ہے۔ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ لبنان کو ابراہام معاہدوں میں شامل ہونا چاہیے، جن کے تحت کئی عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے ہیں۔ 1983 میں بھی لبنان اور اسرائیل نے براہ راست مذاکرات کیے تھے، تاہم اُس وقت طے پانے والا معاہدہ کبھی نافذ نہ ہو سکا۔