لبنان پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے رکن حسن فضل اللہ نے مشہد میں ایشیائی پارلیمانی فورم کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ سیاسی سازشوں اور جنگ کی دھمکیوں سے لبنانی عوام کو جھکنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان کے رہنماء اور رکن پارلیمنٹ حسن فضل اللہ نے آج صبح مشہد میں منعقد ہونے والے ایشیائی پارلیمانی فورم کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ انہوں نے اس اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: "عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور ماضی کے اختلافات اور ناراضگیوں کو ختم کر دینا سب کے فائدے میں ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "عرب اور اسلامی ممالک میں ہر قسم کی قربت قابل تعریف ہے، کیونکہ ان تمام ممالک کے سر پر ایک ایسا خطرہ منڈلا رہا ہے، جو بہت قریب ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے خطے کے خودمختار ممالک پر جارحیت جیسا کہ ایران، قطر، شام اور یمن میں انجام پایا ہے، نیز لبنان پر اس کے مسلسل جارحانہ اقدامات اور غزہ میں نسل کشی کی جنگ، اس خطرے کا واضح ثبوت ہیں۔"

حسن فضل اللہ نے کہا: "آج جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ان جنگوں اور اس دباو کا مقابلہ کرنا اور ڈٹ جانا ہے، جو خطے کے ممالک کے خلاف جاری ہیں اور ہمیں بھی ان مشکل لمحات میں گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں، کیونکہ غاصب صیہونی رژیم کو مراعات دینے کا واحد نتیجہ اس کی گستاخی میں مزید اضافے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ لیکن صیہونی رژیم جس قدر بھی جارحیت اور بربریت کا مظاہر کر لے، اس کے باوجود مستقبل خطے کی اقوام کے حق میں ہوگا۔" حزب اللہ لبنان کے رہنماء اور رکن پارلیمنٹ نے کہا: "ہم لبنان سے آئے ہیں اور بہت سے زخم کھانے اور درد سہنے کے باوجود اپنی عزت اور وقار کی حفاظت کر رہے ہین۔ ہم یہاں آئے ہیں، تاکہ اس ایشیائی پارلیمانی فورم میں شرکت کریں، جو ایران کے مقدس شہر مشہد میں منعقد ہو رہا ہے۔ ہمارے صلاح مشورے مختلف مشترکہ مسائل جیسے سکیورٹی، امن، ترقی اور باہمی تعاون کے حل میں بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔ یہ اجلاس چھ ماہ پہلے منعقد ہونا تھا لیکن صیہونی رژیم کی ایران پر فوجی جارحیت نے اسے تاخیر کا شکار کر دیا ہے۔"

حسن فضل اللہ نے مزید کہا: "صیہونی دشمن کی سرگرمیاں اس کی جارحانہ فطرت کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں خطے کی اقوام کی حاکمیت، خودمختاری اور آزادی کو دھچکہ پہنچانے اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کمزور کرنے کے لیے انجام پا رہی ہیں۔ ہم اس پارلیمانی فورم کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر ایران پر غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کی شدید مذمت پر مبنی اپنے موقف کو دہراتے ہیں۔" انہوں نے لبنان پر صیہونی رژیم کی مسلسل جارحیت کے بارے میں کہا: "نیتن یاہو کی سربراہی میں مجرم صیہونی کابینہ لبنان میں عام شہریوں، ان کے اموال اور سویلین انفرااسٹرکچر کو مسلسل جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے اور یوں لبنان کے خلاف جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔" حزب اللہ لبنان کے اعلیٰ سطحی رہنماء حسن فضل اللہ نے کہا: "نیتن یاہو کی کابینہ نے اس وقت لبنانی عوام کے خلاف ایک سیاسی سازش شروع کر رکھی ہے، جس کے تحت وہ فوجی جارحیت اور دھمکیوں کے ذریعے انہیں ڈرا دھمکا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا چاہتے ہیں، لیکن یہ تمام ہتھکنڈے لبنانی عوام کو جھکنے پر مجبور نہیں کرسکتے اور وہ اپنے ملک کی حاکمیت اور خودمختاری سے چشم پوشی نہیں کریں گے۔"

انہوں نے مزید کہا: "ہمارے ملک کا مطالبہ صیہونی دشمن کی جارحیت ختم ہو جانے، لبنان کی سرزمین آزاد ہو جانے، لبنانی قیدیوں کی آزادی اور صیہونی دشمن کی جارحیت کا نشانہ بننے والے علاقوں کی تعمیر نو پر مبنی ہے، تاکہ لبنانی عوام آزادی اور وقار سے زندگی بسر کرسکیں۔" یاد رہے کہ ایران کے شہر مشہد میں ایشیائی پارلیمانی فورم کی سیاسی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں مختلف ایشیائی ممالک سے 15 وفود نے شرکت کی ہے۔ ان میں پاکستان، فلسطین، آذربائیجان، بحرین، کامبوج، چین، قبرس، قطر، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان شامل ہیں۔ ایران کے پارلیمانی وفد کے سربراہ محسن زنگنہ کے بقول اس بین الاقوامی اجلاس میں 9 قراردادوں پر غور کیا جائے گا اور فلسطینی عوام کی حمایت میں ایک خصوصی نشست بھی منعقد کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایشیائی پارلیمانی فورم حزب اللہ لبنان کے حسن فضل اللہ نے صیہونی رژیم کی لبنانی عوام اجلاس میں منعقد ہو انہوں نے اور اس

پڑھیں:

اسرائیل کا ڈرائونا خواب کیا ہے؟

اسلام ٹائمز: اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آبادکاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب سو فیصد حقیقی اور نظریاتی بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہوسکتی ہے۔ یہی وہ ڈرائونا خواب ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

غاصب صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل جو 1948ء میں فلسطین پر قائم کی گئی تھی، ہمیشہ سے ایک ڈرائونے خواب کا سامنا کر رہی ہے۔ اس خواب کی مختلف وجوہات ہیں، جن کو متعدد صیہونی تجزیہ نگاروں اور محققین نے بھی بیان کیا ہے۔ ان تمام وجوہات کی طرف جانے سے قبل یہ بات بھی اہم ہے کہ کیونکہ اسرائیل ایک ایسے ناجائز طریقہ سے قائم کیا گیا کہ جس میں دوسروں کے وطن پر قبضہ کیا گیا اور اپنے وطن کا اعلان کرکے مقامی لوگوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کیا گیا، تاہم یہ ایک ایسا بنیادی خطرہ بن گیا کہ جو ہمیشہ اسرائیل کو یاد دلواتا ہے کہ تمھاری بنیاد ہی غلط ہے اور غلط بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت کبھی نہ کبھی تو گرتی ہی ہے۔ لہذا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا سب سے بھیانک اور ڈرائونا خواب یہی ہے کہ کبھی نہ کبھی اسرائیل کو ختم ہونا ہوگا۔

یہی ڈرائونا خواب حالیہ دنوں میں زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے، کیونکہ سات اکتوبر کے بعد اس وقت ہر صیہونی آبادکار اور خاص طور پر غاصب صیہونی حکومت کا وزیراعظم نیتن یاہو بھی اس کرب میں مبتلا ہے اور اسرائیل کبھی بھی بے چینی سے نجات نہیں پاسکے گا۔ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں کو ہمیشہ ایک مستقل اور وجودی نوعیت کی گھبراہٹ لاحق رہتی ہے، یعنی یہ کہ کیا وہ (اسرائیل) یا اس کے عہدیدار باقی رہیں گے۔؟ یا پھر یہ کہ اسرائیل ختم ہو جائے گا۔؟ کیا سو سال بعد، بیس سال بعد، یا حتیٰ کہ پانچ سال بعد بھی وہ موجود ہوگا یا نہیں۔؟ یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے، جو اندر ہی اندر نیتن یاہو کو بھی کھائے جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ترقی یافتہ ہے۔ کس چیز میں ترقی یافتہ ہے۔؟ اس کے تمام ہتھیار امریکی اور مغربی ممالک سے آئے ہیں۔ حقیقت میں اسرائیل تو صرف ایک بہت بڑی چھاؤنی نما مرکز یا خطّے میں مغرب کا تیار شدہ فوجی اڈہ ہے۔ اسی وجہ سے وہاں حقیقی ترقی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ حقیقی ترقی تو یہ ہے کہ شہری کو یہ احساس ہو کہ وہ ایسے علاقے میں زندگی گزار رہا ہے، جہاں اسے قبول کیا گیا ہے اور اسے خوش آمدید کہا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو ہر صیہونی آبادکار رات کو اس خوف سے سوتا نہیں ہے کہ کب اسرائیل ختم ہو جائے۔ یعنی صیہونی آباد کار ایک ڈرائونے خواب کے ساتھ سوتے ہیں اور ان کی زندگیاں بے چین ہوچکی ہیں۔

غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود 1948ء میں عمل میں آیا، مگر ابتدا سے ہی یہ غاصب ریاست ایک ایسے ماحول میں وجود میں آئی، جسے خود اسرائیلی ماہرین مسلسل عدمِ تحفظ کی فضا کہتے ہیں۔ یہ احساس صرف بیرونی خطرات تک محدود نہیں بلکہ داخلی سیاست، demography، مذہبی اختلافات، عالمی سفارتی تنہائی، اور تاریخی محرکات بھی شامل ہیں۔ نتیجتاً اسرائیل کے اندر یہ خدشہ وقتاً فوقتاً ابھرتا جا رہا ہے کہ صیہونیوں کے لئے بنائی گئی یہ غاصب ریاست کسی بھی وقت شدید بحران یا انہدام کی طرف جا سکتی ہے۔ صیہونیوں کے لئے یہ ڈرائونا خواب متعدد وجوہات کی بنا پر ہے، جن میں سے اکثر و بیشتر صیہونی رہنمائوں نے خود تشکیل دی ہیں۔

مثال کے طور پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ابتدائی لیڈروں نے ریاستی بقا کے لیے مسلسل خطرے کا بیانیہ تشکیل دیا، جسے فوج، میڈیا اور تعلیمی نظام نے تقویت دی۔ اب یہی خود کا بیانیہ حقیقت کی صورت دھار چکا ہے۔ غاصب صیہونیوں سمیت عہدیداروں اور صیہونی رہنمائوں کے ڈرائونے خواب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل ایک انتہائی محدود رقبے پر قائم ہے، جہاں وسیع آبادی اور کم strategic depth کے باعث کسی بڑی جنگ میں پورا ملک محاذ بن جاتا ہے۔ اسی لیے اسرائیلی ماہرین اسے پتلے گلے والی بوتل قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ جنگ میں بھی دیکھی گئی ہے۔

اسی طرح غاصب صیہونی حکومت چونکہ ایک قابض اور ناجائز ریاست ہے، تاہم اس کے پڑوس کے ممالک بھی اس کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ امن کے معاہدے کیے گئے ہیں، لیکن فلسطینی تنازعہ حل نہ ہونا، لبنان اور شام کے محاذ اور ایران کے ساتھ کشیدگی سمیت عرب عوام کی شدید مخالفت جیسے عوامل اسرائیل میں یہ خوف بڑھاتے ہیں کہ اگر حالات بگڑ گئے تو بقا مشکل ہوسکتی ہے۔ لہذا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ تقویت اختیار کر رہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو پیش آنے والے طوفان اقصیٰ کے واقعے نے اسرائیلی سوچ کو بنیادی طور پر ہلا دیا ہے۔ طوفان اقصیٰ نے اسرائیل کے سکیورٹی بھرم کو خاک میں ملا دیا۔

اسرائیل کو یقین تھا کہ دفاعی نظام، خفیہ ایجنسیاں اور سپر پاور اتحاد اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں، لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ اسرائیل مکڑ کے جالے سے زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔ لہذا 7 اکتوبر نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور مکمل طور پر توڑکر رکھ دیا۔ عالمی سطح پر تنہائی نے بھی اسرائیل کو ایک ڈرائونے خواب میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب اسرائیل کو کبھی نہ کبھی ختم ہونا پڑ سکتا ہے۔ یورپ میں بڑے پیمانے پر احتجاج، امریکہ کی نئی نوجوان نسل کی اسرائیل مخالف رائے، اقوامِ متحدہ میں تنقید، عالمی عدالتوں کے مقدمات، یہ سب اسرائیل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔ معاشی خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مسلسل جنگوں، ہجرت، سرمایہ کاری کی کمی اور معاشرتی دباؤ نے اسرائیلی معیشت کو کمزور کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں صیہونی آبادکاروں کا قبرص اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کر جانا، اس ڈرائونے خواب کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ صیہونی غاصب ریاست کو ایک نہ ایک دن نابود ہونا ہے۔ دنیا یک قطبی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔اسرائیل کے لئے یہ ایک اور ڈرائونا خواب ہے۔ امریکہ کی کمزور ہوتی طاقت اور چین، روس، ایران، سمیت دیگر ممالک کے نئے کردار اسرائیل کے لیے نئے چیلنجز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت جو غزہ، لبنان، شام، عراق اور یمن میں موجود ہے، اس مزاحمت کے اتحاد نے بھی اسرائیل کے لیے وجودی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آبادکاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈرائونا خواب سو فیصد حقیقی اور نظریاتی بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہوسکتی ہے۔ یہی وہ ڈرائونا خواب ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی حکمران ہر گز لبنانی عوام کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکتے، حزب اللہ لبنان
  • شہید نصراللہ کے تشییع جنازہ پر بمباری کی امریکی تجویز بے نقاب
  • شہباز سرکار کی پیٹرول پر ٹیکسوں کی بھرمار،عوام 167 روپے کا پیٹرول 263 میں خریدنے پر مجبور
  • امریکی نیشنل گارڈز پر فائرنگ کے ملزم کا طالبان حکومت یا عوام سے تعلق نہیں: افغان وزیرخارجہ
  • عافیہ امریکی شہری ہیں ،سزا بھی وہیں ہوئی، امریکی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
  • عافیہ امریکی شہری ہیں سزا بھی وہیں ہوئی، امریکی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
  • لبنان میں حزب اللہ کیطرف سے پوپ کا والہانہ استقبال
  • اسرائیل کا ڈرائونا خواب کیا ہے؟
  • لبنان امریکی ڈکٹیشن کے سامنے کبھی نہ جھکے گا, حزب اللہ