دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
2025 اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر دہشت گردی کے واقعات میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔ گزشتہ سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں کے ممکنہ بڑے حملے کو ناکام بنا دیا
اس طرح ایک بڑی تباہی ٹل گئی۔ اس واقعے میں کم از کم تین سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ کئی دہشت گرد مارے گئے۔ ایک خودکش حملہ
آور نے عمارت کے داخلی دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑایا، جبکہ اس وقت سینکڑوں اہلکار ایف سی ہیڈکوارٹر کے اندر موجود تھے۔یہ حملہ اسی
نوعیت کے اس حملے سے مشابہ تھا جو رواں ماہ کے آغاز میں وانا کیڈٹ کالج پر کیا گیا تھا، جہاں دہشت گرد کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی مار
دیے گئے تھے۔ جہاں تک پشاور حملے کے ذمہ داروں کا تعلق ہے، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں افغان شہری ملوث تھے، جب کہ بعض
تجزیہ کاروں نے جماعت الاحرار جو کالعدم ٹی ٹی پی کا دھڑا ہے کی شمولیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔اگر واقعی جماعت الاحرار ملوث ہے اور
اس کے اشارے موجود ہیں تو یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس گروہ نے متعدد خونی حملے کیے ہیں، جن میں جنوری 2023 کا پشاور پولیس لائنز سانحہ بھی شامل ہے۔
صوبائی دارالحکومت کے وسط میں ایک محفوظ تنصیب کو نشانہ بنا لینا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سیکورٹی
فورسز کو خفیہ معلومات کے حصول اور انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں میں نمایاں بہتری لانا ناگزیر ہے۔ دہشت گرووں کی جانب سے
پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والایہ حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا
خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ملک کی سلامتی اور امن کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک عمارت یا چند افراد پر نہیں
تھا، بلکہ یہ پاکستان کی ریاست، اس کے اداروں اور اس کی سالمیت پر حملہ تھا۔دہشت گردوں کے عزائم ہمیشہ سے یہی رہے ہیں کہ وہ خوف
پھیلائیں، ریاست کو کمزور دکھائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، مگر اس بار بھی، ہمیشہ کی طرح، ہمارے سیکیورٹی
اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے نہ صرف حملے کو محدود کیا بلکہ تینوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے دشمن کے ارادے خاک میں ملا
دیے۔یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ3 مسلح دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے حساس ادارے کے قریب ت کیسے پہنچ گئے، اگرچہ
سیکورٹی فورسز نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے عناصر شہر کے اندر تک کیسے داخل ہوئے؟
موٹر سائیکل کی برآمدگی، دستی بموں اور کلاشنکوفوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ نہایت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔پاکستان میں دہشت
گردی کی نئی لہر کا براہِ راست تعلق افغانستان کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ افغانستان کی سرزمین
پچھلے کئی برسوں سے پاکستان مخالف گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کر رہی
ہے۔افغانستان کی عبوری حکومت نے دنیا سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے
گی، لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے حملوں کی
شدت اور اسلحے کی جدید اقسام کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اب محض چند چھوٹے
گروہوں کا کھیل نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک، تربیت یافتہ عناصر اور ریاست مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھانے والی قوتیں
سرگرم ہیں افغانستان اور بھارت کا تعلق اس معاملے میں بھی بار بار زیرِ بحث آ رہا ہے۔
یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت خطے
میں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور افغانستان اس کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی
اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور بھارت کی جانب سے وہاں کیے گئے سرمایہ کاری کے نام پر ایسے ڈھانچے قائم کیے گئے جن کا مقصد
پاکستان مخالف کارروائیوں کو سہولت دینا تھا۔ آج بھی، جب خطے کی صورتحال بدل چکی ہے، بھارتی نیٹ ورک مختلف روپوں میں فعال ہیں
اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے کی
مجموعی امن و استحکام کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ اپنا دامن خیرسگالی سے بھرا رکھا۔ لاکھوں
افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر افغان امن مذاکرات کی حمایت تک، پاکستان نے ہر موڑ پر خیر خواہی ثابت کی لیکن افغان عبوری
حکومت کی جانب سے اس کا جو بدلہ دیا جا رہا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی، پاکستان مخالف دھڑے مضبوط
ہونے، اور افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے جیسے اقدامات نہ صرف اعتماد کے رشتے کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے
کے عزائم رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہے گا تو وہ خود بھی طویل المدتی نقصان سے نہیں بچ سکے گا۔ دہشت گرد کسی کے وفادار نہیں
ہوتے، وہ صرف تباہی کی زبان سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں وقت پر لگام نہ ڈالی گئی تو ان کا رخ بغاوت اور خونریزی کی طرف ہی ہوتا ہے، جس
سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔بعض حکام نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ دہشت گردوں کو اندر سے معلومات فراہم کی گئی ہوں اس پہلو
کی مکمل تفتیش ضروری ہے۔رواں سال دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے؛ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے
زیادہ متاثر رہے ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق ستمبر تک 950 سے زائد حملوں میں 2,400 سے زیادہ افراد جان سے جا چکے تھے۔ اگر اس
خطرناک رجحان کا رخ پلٹنا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر مؤثر انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔افغان طالبان
پر یہ شبہ اب تقویت پکڑ رہاہے کہ وہ بعض شدت پسند عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں، یہ معاملہ کابل سے بہتر تعلقات کے سامنے سب سے
بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے افغان حکام پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے۔ مگر ہمیں صرف دوسروں کے
قدم اٹھانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اپنی سیکورٹی صلاحیتیں اور بارڈر مینجمنٹ مضبوط کرنا ضروری ہے۔ عسکری و سول اداروں کو مل کر قبل اس کے کہ یہ مزید خون بہائے اس دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنا ہوگا۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے رہے ہیں کے لیے رہا ہے کی طرف
پڑھیں:
دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل
ہم نائن الیون کے بعد سے مسلسل دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے آخری دور حکومت میں اسے بڑی حد تک کنٹرول کرلیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں خود کش حملوں اور بڑے بم دھماکوں سے ہی نہیں بلکہ مساجد یا پبلک مقامات پر ہونے والے فائرنگ کے واقعات بھی تقریبا ختم ہوگئے تھے۔
مگر پھر ملک پر مسلط کیا گیا ’عالم اسلام کا سب سے ہینڈسم رہنما‘ وہ ہینڈسم جو پر امن سیاسی جدوجہد والے رہنماؤں کی عزت تارتار کرنا اور ان کا تمسخر اڑانا فرض سمجھتا تھا مگر دہشتگردوں کے لیے اس کے دل میں شرف انسانیت کا پورا فلسفہ موجزن ہوجاتا۔ سو اس نے طے کیا کہ ان کو مین اسٹریم کرنا ہے۔
مین اسٹریم کرنا تو محض بہانہ تھا۔ ورنہ واقعات کی ٹائم لائن سے واضح تھا کہ بڑی بغاوت کے لیے مسلح فورس کا بندوبست ہو رہا ہے۔ آنے والوں نے اپنے تیور سے بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ مین اسٹریم ہونے نہیں آئے بلکہ عزائم کچھ اور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیو پالیٹکس اور مذہبی عینک
ماضی کے واقعات یاد دلانا یا ہینڈسم اعظم کو موضوع بحث لانا اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں۔ زیر نظر سطور میں اس سے زیادہ اہم معاملے پر بات کرنی مقصود ہے۔ یہ معاملہ ہے اس اسکیم کو سمجھنا جس کے تحت دہشتگرد تنظیمیں وجود میں آتی ہے۔ اور بہت سے کیسز میں کامیابی سے فعال بھی رہتی ہیں۔ ہم کامیابی سے فعال اس لیے کہہ رہے ہیں کہ کسی دہشتگرد تنظیم کے لیے اپنی کامیاب موجودگی ثابت کرنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ دس بیس روز میں کوئی ایک واردات کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ جبکہ سیکیورٹی فورسز کے لیے یہ بات ناکافی ہوتی ہے کہ وہ ہفتے میں 10،20 دہشتگرد ٹھکانے لگا دے۔ کیونکہ جب بھی دہشتگردی کا واقعہ ہوگا عوام میں یہ سوال اٹھے گا کہ سیکیورٹی ادارے کیا کر رہے ہیں؟
دہشتگرد تنظیمیں کس اسکیم کے تحت وجود میں آتی ہیں؟ اور وہ کیونکر ایک طویل عرصے تک کامیاب رہتی ہیں؟ یہ سوالات یوں اہم ہیں کہ ان کے جوابات سمجھے بغیر آپ مسئلے کی گہرائی نہیں سمجھ سکتے۔ یوں مسئلے کا کوئی حقیقی اور مستقل حل بھی نہیں نکل پاتا۔ ہم چونکہ 1987ء سے اکتوبر 1997ء تک عسکری تنظیموں کا حصہ رہے ہیں سو ان تنظیموں کی ساخت، ان کے انداز فکر اور پیچھے موجود عوامل کا چشم دید مشاہدہ اور گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اپنے اسی تجربے کی روشنی میں کچھ حقائق کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
دنیا کی کوئی بھی عسکری تنظیم یوں وجود میں نہیں آتی کہ کچھ ہم خیال لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے کچھ مقاصد کے حصول کے لیے عسکری تنظیم بنالی۔ ایسا قطعا نہیں ہوتا۔ ہر عسکری تنظیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی انٹیلی جنس ایجنسی ہوتی ہے۔ وہی اس کی اصل بانی ہوتی ہے۔
انٹیلی جنس ایجنسیز کے توسط سے ممالک کو ان تنظیموں کی ضرورت یوں پیش آئی کہ دوسری جنگ عظیم سے چند برس قبل یہ اصول طے کرلیا گیا تھا کہ اب بذریعہ جنگ کسی ملک کا کوئی حصہ قبضہ کرنے سے قابض کا قبضہ لیگل تصور نہ ہوگا۔ Kellogg–Briand Pact (1928) اور League of Nations Assembly Resolution on Non-Recognition, March 1932 کی مدد سے یہ پیشرفت ہوئی تھی۔ جب اقوام متحدہ بنی تو اسی اصول کی روشنی میں نئے جنگی قوانین بھی تشکیل پا گئے۔ یہ سب چونکہ اس مغرب نے کیا تھا جس کی یہ منافقت ہم سب بارہا دیکھ چکے کہ اپنے ہی بنائے قوانین کو بائی پاس کرنا اس کی عادت ثانیہ ہے۔ چونکہ اب ممالک یا ان کے جغرافیے کے کچھ حصے پر بذریعہ جنگ قبضہ غیر قانونی قرار دیدیا گیا تھا۔ سو جس امریکا نے یہ سب کروایا تھا اس نے جلد ہی اپنے لیے ‘بائی پاس‘ بھی تخلیق کرلیا۔ یہ بائی پاس تھا ممالک پر فوج کی جگہ مقامی عسکری تنظیموں کے ذریعے قبضہ۔
مشہور زمانہ ’بے آف پگ آپریشن‘ اس کی سب سے بدنام مثال ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے کینیڈی دور کی بالکل ابتدا میں سی آئی اے نے کیوبا پر قبضے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ اس مقصد کے لیے کیوبن شہریوں کو امریکا میں عسکری تربیت فراہم کی گئی اور 17 اپریل 1961 کو یہ آپریشن لانچ ہوگیا۔ تقریبا 1400 دہشتگرد کشتیوں کی مدد سے کیوبا کی بے آف بگ پر اترے۔ جہاں ان کے استقبال کو فیدل کاسترو کی انقلابی فورس موجود تھی۔
صرف 3 دن میں انہوں نے بھاڑے کی اس فورس کو بھون ڈالا اور 19 اپریل 1961 کو خس کام جہاں پاک ہوگیا۔یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ذلتوں میں سے ایک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صدر کینیڈی اس ناکامی پر قدر جذباتی ہوئے کہ انہوں نے کہہ دیا ’میں سی آئی اے کے پرزے کرکے ہوا میں ڑادوں گا‘ اور یہی نیک جذبہ ان کے قتل کا محرک بنا۔
فیدل کاسترو کی کمیونسٹ حکومت کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ سو بے آف پگ آپریشن نے کے جی بی کے ہیڈکوارٹر میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ وہ سمجھ گئے کہ اب ممالک پر عسکری تنظیموں کی مدد سے قبضے ہوں گے۔ سو ان کا جوابی وار امریکا کی دکھتی رگ پر آیا۔ کے جی بی نے فلسطینی تنظیموں کو مسلح کرنا شروع کردیا۔ بالخصوص مشہور زمانہ لیلی خالد کی کمیونسٹ تنظیم ’پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین‘ کی خصوصی سرپرستی کی۔
مزید پڑھیے: انقلاب، ایران اور پاکستان
کے جی بی اس قدر جارحانہ انداز سے سامنے آئی کہ اس نے طیارہ ہائی جیکنگ کو مستقل ٹرینڈ بنوا دیا۔ 1968 سے 1986 تک طیارہ ہائی جیکنگ کے تقریبا 28 واقعات ہوئے۔ جن میں سے 8 لیلی خالد کی تنظیم نے کیے۔ خود لیلیٰ نے بھی 2 ہائی جیکنگز میں حصہ لیا۔ ایک کامیاب جبکہ دوسری ناکام ہوئی اور لیلی گرفتار ہوگئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ لیلیٰ خالد عیسائی تھیں۔
بے آف پگ میں سی آئی اے اور فلسطینی عسکریت میں کے جی بی کے 2 حوالے ہم نے بس بطور مثال دیئے ہیں۔ فی الحقیقت ان دونوں ایجنسیز نے یہ کام دنیا بھر میں اس قدر پھیلا دیا تھا کہ دیگر ممالک نے بھی یہ راہ اختیار کرلی۔ مثلا انڈیا کی جانب سے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کا ستعمال وغیرہ۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عسکری تنظیمیں جارحانہ خارجہ پالیسی رکھنے والے ممالک کے لیے باقاعدہ ’فارن پالیسی ٹول‘ بن گئیں۔ یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ سی آئی اے اور کے جی بی کے اقدامات سے قبل ہی لاطینی امریکا اور افغانستان میں عسکری تنظیمیں وجود میں آگئی تھیں مگر یہ بس دہشتگردی کے لیے تھیں۔ ممالک کے تختے الٹنا ان کے اہداف میں شامل نہ تھا۔
جب آپ اس تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو پھر یہ دعویٰ فضول ہوجاتا ہے کہ چونکہ آئی ایس آئی نے افغان جہاد میں عسکری تنظیموں کی سرپرستی کی لہذا اس کے نتیجے میں ہمارا ملک دہشتگردی کا شکار ہوگیا۔ غلطی افغان تنظیموں کی سرپرستی اور ٹریننگ نہ تھی۔ بلکہ کچھ اور تھی جسے ہم ابھی واضح کرتے ہیں مگر یہ بات اصولی طور پر ذہن میں بٹھا لیجیے کہ آئی ایس آئی نے کوئی انوکھا کام نہ کیا تھا۔ باقی دنیا کی طرح ہی عسکری تنظیموں کو خارجہ پالیسی ٹول کے طور پر استعمال کیا تھا۔
کسی کو اچھا لگے یا برا مگر اس لمحہ موجود میں بھی یہ ٹول دنیا کے مختلف ممالک استعمال کر رہے ہیں۔ جس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، انڈیا اور روس سب شامل ہیں۔ سو آپ اس ٹول سے یک طرفہ طور پر دست بردار نہیں ہوسکتے۔ دست برداری کا نتیجہ ہم نائن الیون کے بعد اچھی طرح بھگت چکے۔
سوال یہ ہے کہ ہم سے غلطی کیا ہوئی؟ وہ غلطی جس کے نتیجے میں پاکستان دہشتگردی کی لہر کا آسانی سے شکار ہوگیا؟ غلطی یہ تھی کہ جب سوویت یونین کے خلاف جنگ آخری مراحل کی طرف بڑھ رہی تھی تو اچانک فیصلہ ہوگیا کہ یہی اسکیم مقبوضہ کشمیر میں ٹرائی کرنی چاہیے اور جب اس پر عملدرآمد شروع کیا گیا تو مہلک ترین غلطی یہ کی گئی کہ پاکستانی شہریوں کو بسوں میں بھر بھر کر افغانستان ٹریننگ کے لیے پہنچا یا گیا۔ اور انہی پاکستانیوں کو آگے چل کر مقبوضہ کشمیر بھیجا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ان تنظیموں کے دفاتر، جلسے اور چندے شروع ہوگئے۔ جس سے ملک کا ماحول ہی عسکریت کے حق میں چلا گیا۔
ہمارے ادارے اس طرف توجہ ہی نہ دے سکے کہ سی آئی اے نے بے آف پگ اور سوویت یونین نے فلسطین میں اپنے شہریوں کو استعمال نہیں کیا تھا۔ سی آئی اے نے کیوبن اور کے جی بی نے فلسطینیوں کو استعمال کیا تھا۔ یہی انڈیا نے مکتی باہنی کے معاملے میں بھی کیا تھا۔
مزید پڑھیں: آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ
چنانچہ ہماری اس مہلک غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پلاسٹکی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی پورے معاشرے کی سطح پر قابل قبول ہی نہیں بلکہ ہیرو تسلیم ہوگئے۔ جب آپ اپنے شہریوں کو استعمال کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے جو نائن الیون کے بعد پاکستان میں نکلا۔ یہ بات درست ہے کہ اس میں وہی لوگ ملوث نہ تھے جو کشمیر کاز سے وابستہ رہے تھے۔ یہ بالکل ہی نئے لوگ تھے مگر ان کو پنپنے کے لیے ماحول تو پہلے سے سازگار تھا۔ جو ماحول کشمیری تنظیموں سے بنا تھا وہی ٹی ٹی پی کے کام آیا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ پاکستان میں محض اتفاقا ایسا ہوگیا تھا۔ یہی حالیہ سالوں میں روس میں بھی ہوا۔ جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جب آپ اپنے شہریوں پر مشتمل مسلح تنظیم بنانے کی غلطی کریں گے تو اس کا خمیازہ آپ کے اپنے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
یفگنی پریگوژن والا واگنر گروپ یاد ہے جو یوکرین میں استعمال ہوا تھا؟ یہ کوئی باقاعدہ نظریاتی تنظیم نہیں، بلکہ ایک بزنس اسکیم تھی۔ یہ گروپ 2014 میں شامی باغیوں کے خلاف بنایا گیا۔ لیکن جب روس یوکرین جنگ کی طرف گیا تو انہیں بھی کال کرلیا۔ بخموت کی فتح اسی گروپ نے حاصل کی تھی۔ چنانچہ اس کا نشہ پریگوژن کو ایسا چڑھا کہ وہ سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغامات کے ذریعے اس وقت کے روسی وزیر دفاع ہی نہیں بلکہ اعلی فوجی کمانڈ کی بھی تذلیل کرنے لگا۔
بات یہیں تک نہ رہی بلکہ اس نے کچھ گھنٹوں کے لیے روس کے رستاف میں واقع سدرن ملٹری ڈسٹرک ہیڈکوارٹر پر بھی قبضہ کیا جس سے صدر پیوٹن کو عالمی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑے ممالک کی گرفت بھی بڑی ہوتی ہے۔ سو پیوٹن نے جلد ہی اس مسئلے سے یوں جان چھڑا لی کہ پریگوژن ’قضائے الہی سے‘ طیارہ حادثے میں مارا گیا اور واگنر گروپ کو روس کے سخت گیر ملٹری کمانڈر سرگئی سرویکن کے سپرد کرکے افریقہ بھجوادیا۔ یہ گروپ اب افریقہ میں القاعدہ وغیرہ کے خلاف متحرک ہے اور اسے باقاعدہ ملٹری قالب میں بھی ڈھالا جا رہا ہے۔ جس کے بعد یہ واگنر گروپ نہیں بلکہ رشین ملٹری کی فارن کور بن جائے گی۔ رشین میڈیا نے اسے الریڈی ’افریقہ کور‘ کا نام دیدیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر
اس ساری تفصیل کا نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں صرف یہ چیلنج درپیش نہیں کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشتگرد تنظیموں کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ بلکہ 2 مزید چیلنجز بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں اپنے ملک سے وہ ماحول ختم کرنا ہوگا جو پلاسٹکی ایوبیوں کے لیے سازگار ہے۔ جبکہ ان ممالک سے بھی نمٹنا ہے جو ان کے پیچھے موجود ہیں۔ صرف افغانستان نہیں انڈیا کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ وہ انڈیا جہاں ہندو اتنی آسانی سے بکنے کو تیار ہوتا ہے کہ ایک کی قیمت جیب میں رکھ کر جاؤ تو اسی قیمت میں تین مل جاتے ہیں۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں ہم کیا کہہ رہے ہیں؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں