Express News:
2025-11-26@00:58:06 GMT

دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی

اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT

ایف سی ہیڈ کوارٹر پشاور پر 3 دہشت گردوں نے حملے کی کوشش کی، دہشت گردی کی اس کارروائی میں 3 جوان شہید اور 11 زخمی ہوئے، جوابی کارروائی میں تینوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے مطابق تینوں حملہ آور ایک ہی موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ دہشت گردوں کے پاس کلاشنکوف اور 8 سے زائد دستی بم موجود تھے۔ پولیس نے دہشت گردی میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی تحویل میں لے لی ہے۔

 پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والا دہشت گرد حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ملک کی سلامتی اور امن کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک عمارت یا چند افراد پر نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان کی ریاست، اس کے اداروں اور اس کی سالمیت پر حملہ تھا۔

دہشت گردوں کے عزائم ہمیشہ سے یہی رہے ہیں کہ وہ خوف پھیلائیں، ریاست کو کمزور دکھائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، مگر اس بار بھی، ہمیشہ کی طرح، ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے نہ صرف حملے کو محدود کیا بلکہ تینوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے دشمن کے ارادے خاک میں ملا دیے۔

یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ تین مسلح دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے حساس ادارے کے قریب تک پہنچ گئے، اگرچہ سیکیورٹی فورسز نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے عناصر شہر کے اندر تک کیسے داخل ہوئے؟ موٹر سائیکل کی برآمدگی، دستی بموں اور کلاشنکوفوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ نہایت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک شدہ دہشت گردوں کے جسمانی اعضا ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹری بھجوائے جا چکے ہیں، تاکہ ان کی شناخت، ان کے نیٹ ورک اور ان کے ممکنہ سہولت کاروں تک پہنچا جا سکے۔ اس عمل کا مقصد صرف اس حملے کی ذمے داری طے کرنا نہیں بلکہ اس پوری کڑیاں توڑنا ہے جو دہشت گردی کے دھاگے کو مضبوط کرتی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا براہِ راست تعلق افغانستان کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ افغانستان کی سرزمین پچھلے کئی برسوں سے پاکستان مخالف گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت نے دنیا سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے حملوں کی شدت اور اسلحے کی جدید اقسام کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اب محض چند چھوٹے گروہوں کا کھیل نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک، تربیت یافتہ عناصر اور ریاست مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھانے والی قوتیں سرگرم ہیں۔

 افغانستان اور بھارت کا تعلق اس معاملے میں بھی بار بار زیرِ بحث آ رہا ہے۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت خطے میں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور افغانستان اس کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور بھارت کی جانب سے وہاں کیے گئے سرمایہ کاری کے نام پر ایسے ڈھانچے قائم کیے گئے جن کا مقصد پاکستان مخالف کارروائیوں کو سہولت دینا تھا۔ آج بھی، جب خطے کی صورتحال بدل چکی ہے، بھارتی نیٹ ورک مختلف روپوں میں فعال ہیں اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے کی مجموعی امن و استحکام کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ اپنا دامن خیرسگالی سے بھرا رکھا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر افغان امن مذاکرات کی حمایت تک، پاکستان نے ہر موڑ پر خیر خواہی ثابت کی لیکن افغان عبوری حکومت کی جانب سے اس کا جو بدلہ دیا جا رہا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی، پاکستان مخالف دھڑے مضبوط ہونے، اور افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے جیسے اقدامات نہ صرف اعتماد کے رشتے کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے عزائم رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہے گا تو وہ خود بھی طویل المدتی نقصان سے نہیں بچ سکے گا۔ دہشت گرد کسی کے وفادار نہیں ہوتے، وہ صرف تباہی کی زبان سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں وقت پر لگام نہ ڈالی گئی تو ان کا رخ بغاوت اور خونریزی کی طرف ہی ہوتا ہے، جس سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔

پاکستان کے اندر موجود سہولت کار اس جنگ کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ یہ عناصر کبھی مذہب کا سہارا لیتے ہیں، کبھی سیاست کا اور کبھی معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز ملک کی سرحدوں کی حفاظت تو کر سکتی ہیں، مگر اندرونِ ملک موجود ایسے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو ایک مشترکہ حکمت عملی درکار ہے۔ جب تک ان سہولت کاروں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، دہشت گردی کے خاتمے کا خواب ادھورا رہے گا۔ ریاست کو نہایت سختی کے ساتھ یہ پیغام دینا ہوگا کہ جو پاکستان کے دشمنوں کی مدد کرے گا وہ بھی اتنا ہی مجرم ہے جتنا ہتھیار اٹھانے والا دہشت گرد۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک سامنے سے وار کرتا ہے اور دوسرا پشت سے، مگر دونوں ہی قومی سلامتی کے مجرم ہیں۔

سیکیورٹی لیپسز کا مسئلہ بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کا ایک ہی موٹر سائیکل پر مسلح ہو کر حساس اداروں کے قریب تک پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں نگرانی، چیکنگ اور احتیاط میں کمی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست ہر لمحے ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی، مگر حساس تنصیبات، سرکاری عمارات اور اہم مقامات پر نگرانی کا نظام مضبوط ہونا چاہیے۔ سی سی ٹی وی کیمرے، جدید ٹیکنالوجی، بائیو میٹرک سسٹمز، بہتر تربیت یافتہ سیکیورٹی اہلکار اور مربوط انٹیلی جنس کا نیٹ ورک اس وقت کی بنیادی ضرورت ہیں۔

قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی بھی نہایت اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج یا پولیس نہیں لڑسکتی، یہ پورے ملک کی جنگ ہے۔ جب قوم تقسیم کا شکار ہوتی ہے تو دہشت گرد مضبوط ہوتے ہیں اور جب قوم متحد ہوتی ہے تو دشمن کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ قومی سلامتی ایسے معاملات میں سیاست سے بالاتر ہوتی ہے۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر دہشت گردی کے معاملے میں ایک آواز ہونا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

 اس حملے کی تحقیقات صرف اس واقعے تک محدود نہیں رہنی چاہییں۔ دہشت گرد کہاں سے آئے؟ کس نے انھیں سہولت دی؟ کس نے انھیں راستے دکھائے؟ کون ان کے نظریات کو ہوا دیتا رہا؟ کون ان کے لیے ذرایع فراہم کرتا رہا؟ جب تک ان تمام سوالوں کے جوابات نہیں ملتے، پاکستان کے اندر امن مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے گا۔ ریاست کو فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے، سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور پاکستان دشمن عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔

افغانستان کی حکومت کو بھی اپنا کردار دیکھنا ہوگا۔ اسے اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے، اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنی ہوگی اور پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، جو ہمیشہ اس کا خیر خواہ رہا ہے۔ بصورتِ دیگر خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی، جس کا نقصان صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کو بھی بھرپور بھگتنا پڑے گا۔ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر یقین رکھنا چاہیے کہ پاکستان اس جنگ میں سرخرو ہوگا، کیونکہ یہ وطن لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا، اور آج بھی اس کی حفاظت کے لیے ہمارے جوان جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے افغانستان کی دہشت گردی کے موٹر سائیکل پاکستان کے کہ پاکستان نیٹ ورک رہے ہیں کے خلاف رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

خیبرپختونخوا حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس میں امن و امان پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں الجھ پڑے، امن و امان کی ابتر صورتحال کا ذمہ دار  صوبائی حکومت نے وفاق جبکہ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کو حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے، وفاق دہشت گردی کے خاتمے کا حل مذاکرات سے نکالے جبکہ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا امن وامان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے اگر حکومت امن قائم نہیں کرسکتی تو مستعفی ہوجائے۔

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے خطاب کے دوران ہی اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر اجلاس یکم دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔

خیبر پختونخواہ اسمبلی اجلاس کے دوران امن و امان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی ارکان ڈاکٹر امجد ، نیک محمد، عجب گل، ریاض خان، فضل حکیم نے ایف سی ہیڈکوارٹر دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ امن وامان پر بات کرتے ہیں ہمارا مقصد کسی ادارے کو نشانہ بنانا نہیں ہم ذمہ داری کی نشاندہی کرتے ہیں، ہم سب کا سوال ہے سرحد پار سے دہشت گرد کیسے آتے ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 38 سو سے 41 سو تک دہشت گرد ہیں، سرحد پار سے دہشت گردوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے، سیکورٹی ایجنسیاں تحریک انصاف کی بے عزتی مقدمات کے اندراج میں لگی ہوئے ہیں، جب  آگ پھیلتی ہے تو اس کی لپیٹ میں سب آتے ہیں۔

حکومتی ارکان نے کہا کہ دہشت گردی سے عام عوام اور سیکورٹی فورسز کے جوان بھی متاثر ہورہے ہیں ، دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں 57 ہزار خواتین بیوہ ہوچکی ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ بچے یتیم اور دس ہزار لوگ معذور ہیں، ہم پوچھنا چاہتے ہیں اسی خطے کو کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے؟۔

حکومتی ارکان نے کہا کہ ہم بات کرتے ہیں تو نوٹس ملتے ہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، اس صوبے میں آپریشن ہوتے ہیں لیکن فائدہ کچھ نہیں تو پھر مذاکرات کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ یہ صوبہ دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہے گا، 2013 سے قبل صوبے پر کس کی حکومت تھی، 66 سالوں میں ایسے مسائل کو ایوان میں نہیں اٹھایا گیا۔

نواز لیگ کے ایم پی اے کے خلاف اسلام آباد اور حیات اباد تھانے میں منشیات کے مقدمے درج ہیں، وفاقی حکومت نے شراب کے لائسنس جاری کیے، کیا قبائل میں منشیات کی پیداوار اب سے ہے، 2018 سے قبل وفاق کی عمل داری تھی۔

اپوزیشن ارکان سردار شاہجہاں، مخدوم زادہ آفتاب حیدر،  جلال خان نے کہا کہ این اے 18 ہری پور کے ضمنی الیکشن صاف اور شفاف ہوئے، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، فارم 47 کا فائدہ کس کو ہوا؟

انہوں نے کہا کہ اس صوبے میں فارم 47 سے تحریک انصاف حکومت بنارہی ہے، ہمارے سیکیورٹی ادارے سرحد کو محفوظ بنائے ہوئے ہیں انہوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، جب ملک سلامت ہوگا ہم سیاست کریں گے ہماری حالت وہ ہوگی فلسطین اور کشمیری مسلمانوں کا ہے۔

اپوزیشن اراکین نے کہا کہ خاکی وردی کا دفاع کرنا ہوگا۔ جلال خان نے کہا کہ میرے اوپر سیون اے ٹی اے کی ایف آئی ار نہیں ہوئی، سی ایم کے بھتیجے پر منشیات کے پرچے ہیں امن و امان پر سیاست کی جارہی ہے، اس میں ہم سب جل رہے ہیں امن وامان صوبے کی ذمہ داری ہے امن قائم نہیں کرسکتے تو استعفے دیں ساڑھے سات سو ارب روپے وفاق سے آئے صوبائی حکومت حساب دیں۔

انہوں نے کہا ہک خیبرپختونخوا حکومت نے چوروں کا ٹولہ بیٹھا ہوا ہے، ہری پور میں صاف و شفاف الیکشن ہوئے، ہری پور کی عوام نے فیصلہ دے دیا ہے کہ عمران خان کے نام پر چورن نہیں بیچ سکتے، دہشت گردی کی وجوہات بےروزگاری، مہنگائی اور تعلیم ہے، کیا صوبائی حکومت نے 2013 سے بے روزگاری کے خاتمے،  مہنگائی کے خاتمے اور تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا ہے؟

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ امن کے دشمن کون ہیں سب کو معلوم ہے، جو خود فارم 47 سے جیت کر آئے اس پر افسوس کی کیا جاسکتا ہے، وفاقی حکومت کے حوالے سے  آئی ایم ایف کی رپورٹ شرمناک ہے، آئی ایم ایف کو ہم وفاقی حکومت کے دوست سمجھتے ہیں ان کی رہورٹ شرمناک پے،  ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیسے  دیے گئے اس کا حساب مانگا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بجلی کے خالص منافع سمیت ہمارا حق نہیں دیا جارہا ہے، وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نقصان اس صوبے کو ہورہا ہے، ابھی ہم مارشل لاء کے بدترین دور سے بھی گزررہے پیں،  پیپلزپارٹی والے فخر سے کہتے ہیں ہم نے آئین دیا نواز لیگ کے ساتھ ملکر آئین کو دفن کردیا گیا۔

وزیر قانون کا خطاب جاری تھا کہ جلال خان نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر دومنٹ کے لیے گھنٹیاں بجائی گئیں کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس یکم دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے ،قیاس آرائیوں سے گریزکریں ،ترجمان پاک فوج
  • خیبرپختونخوا حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
  • ہم شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، پاکستان ہمیشہ اعلانیہ حملہ کرتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • وزیراعظم کا بنوں میں سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی پر خراجِ تحسین
  • یورپی یونین کا دہشت گردی کے خلاف اعلامیہ
  • پشاور ایف سی ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں کا حملہ قابلِ مذمت ہے، علامہ نثار قلندری
  • دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کلیدی ستون ہے،سہیل آفریدی
  • زیارت: دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام، 5 گرفتار
  • بنوں میں 3 ماہ کے دوران 140 دہشتگردوں کے حملے ناکام بنائے گئے