یورپی یونین کا دہشت گردی کے خلاف اعلامیہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے ساتویں دور کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا، اعلامیے میں افغانستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے، اپنی سرزمین سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے، یہ پیش رفت پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان ساتویں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے موقع پر سامنے آئی جو برسلز میں منعقد ہوا۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے دارالحکومت میں ایف سی ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں تینوں دہشت گرد مارے گئے۔ جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے درزندہ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں کالعدم ٹی ٹی پی کے تین اہم کارکنان ہلاک ہوگئے۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے امریکی افواج کے انخلا کے وقت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، مگر زمینی حقائق اس وعدے کی مکمل تکذیب کرتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانے، ان کی ٹریننگ، نقل و حرکت اور حملوں کا منصوبہ بندی افغانستان کے مختلف علاقوں سے ہوتی رہی ہے۔
متعدد آزادانہ بین الاقوامی رپورٹس اور انٹیلی جنس معلومات یہ واضح کرتی رہی ہیں کہ ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور القاعدہ کے دھڑے نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں بلکہ طالبان کی کمزور حکمرانی اور اندرونی تقسیم نے انھیں مزید جگہ فراہم کی ہے۔ پاکستان نے بارہا شواہد فراہم کیے، اعلیٰ سطح مذاکرات کیے اور افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، مگر اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایسے حالات میں یورپی یونین کا مشترکہ اعلامیہ نہ صرف پاکستان کے لیے سفارتی تقویت رکھتا ہے، بلکہ یہ طالبان حکومت کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اگر وہ عالمی برادری کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو ان کی بین الاقوامی تنہائی مزید گہری ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ اگرچہ بیرونی عناصر ہماری مشکلات کو بڑھاتے ہیں، مگر داخلی کمزوریاں بھی کم ذمے دار نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے۔ ضربِ عضب، ردالفساد اور مختلف مقامی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی گئی، مگر یہ جدوجہد مستقل مزاجی چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی انتشار، معاشی بحران اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی نے دہشت گردوں کے لیے وہ خلا پیدا کیا ہے جہاں وہ دوبارہ اپنے نیٹ ورک منظم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے درازندہ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ٹی ٹی پی کے تین اہم کارندوں کی ہلاکت یقیناً ایک اہم کامیابی ہے، مگر اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ عناصر یہاں تک پہنچے کیسے؟ ان کے سہولت کار کہاں ہیں؟ ان کے لیے اسلحہ، بارود اور پناہیں فراہم کرنے والے کون ہیں؟ دہشت گردی کو صرف ایک یا دو کارروائیوں سے ختم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے لیے طویل المیعاد اور مربوط حکمت عملی درکار ہے۔
پاکستان اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی اور پیچیدہ لہرکا سامنا کر رہا ہے، ایسی لہر جس کے تانے بانے افغانستان اور بھارت سے جڑے ہونے کے ٹھوس شواہد بارہا سامنے آتے رہے ہیں۔ پشاور میں ایف سی ہیڈکوارٹر پر ہونے والا تازہ ترین خودکش حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یہ واقعہ نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد عناصر نہ صرف اپنے نیٹ ورک کو منظم کر رہے ہیں بلکہ ان کی پاکستان میں دراندازی اور کارروائیوں کی صلاحیت بدستور برقرار ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان ساتویں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے بعد جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں افغانستان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عملی اقدامات کرے اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے مؤقف کی کھلی تائید اس امر کا اظہار ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی سمجھتی ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی بدامنی کا اثر سرحدوں سے بہت دور تک پہنچتا ہے اور پاکستان مسلسل اس کا پہلا اور سب سے بڑا نشانہ بنتا رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے بھی ملتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے پراکسی جنگ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ بھارتی میڈیا اور حکومتی حلقوں کی جانب سے پاکستان مخالف بیانیے کو جس شدت کے ساتھ فروغ دیا گیا ہے، اس نے خطے کے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر میں بھارت کا کردار یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اور یورپی یونین کے مشترکہ اعلامیے سے یہ موقع پیدا ہوا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے اپنی تشویش کو عالمی فورمز پر زیادہ قوت کے ساتھ پیش کرے۔
یورپی یونین کا یہ اعتراف کہ افغانستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں، پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی بھی ہے اور ایک ایسا اخلاقی جواز بھی جس کی بنیاد پر وہ دیگر عالمی قوتوں کو ساتھ ملا کر افغان حکومت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ یورپی یونین نہ صرف پاکستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے بلکہ افغانستان کے حوالے سے عالمی پالیسی سازی میں بھی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر پاکستان، یورپی یونین، چین، سعودی عرب اور وسطی ایشیائی ممالک ایک مشترکہ پالیسی تشکیل دیں تو طالبان حکومت کو دہشت گرد تنظیموں پر کاری ضرب لگانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ قومی ایکشن پلان پر مکمل اور غیر مشروط عملدرآمد ناگزیر ہو چکا ہے۔ مدارس کی نگرانی، شدت پسند بیانیوں کی روک تھام، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے نیٹ ورکس کا سدباب اور انٹیلی جنس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بارڈر مینجمنٹ مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ کے باوجود دہشت گردوں کی آمدورفت ثابت کرتی ہے کہ صرف باڑ کافی نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی، بائیومیٹرک نظام، اسمگلنگ نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی اور سرحدی آبادیوں کی باقاعدہ اسکریننگ کی بھی ضرورت ہے۔
افغانستان کو یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ ملک میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ افغان حکومت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ خطے میں امن و استحکام صرف پاکستان کی ذمے داری نہیں۔ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی علاقائی سطح پر ہی ممکن ہے۔ افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا اگر افغان سرزمین پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہوتی رہی تو طالبان حکومت نہ صرف عالمی تنہائی کا شکار ہوگی بلکہ افغانستان کے اندر بھی بدامنی مزید بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہش مند ہے، مگر یہ تعلقات یک طرفہ نہیں ہو سکتے۔ دوطرفہ اعتماد کی بنیاد اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف حقیقی اور نتیجہ خیز کارروائی کرے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ دہشت گردی کی نئی لہر ہمارے اداروں، سماج، معیشت اور آنے والی نسلوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ یورپی یونین کا مشترکہ اعلامیہ یقیناً ایک مثبت قدم اور پاکستان کے مؤقف کی تائید ہے، مگر یہ مسئلے کا حتمی حل نہیں۔ اصل حل پاکستان کے اندر موجود کمزوریوں کے خاتمے، قومی سطح پر مکمل اتحاد، مربوط حکمت عملی اور بلا تفریق کارروائی میں پوشیدہ ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ریاست، حکومت، ادارے اور عوام ایک صفحے پر آئیں، ورنہ دہشت گردی کی یہ لہر آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان مزید کسی کمزوری، کسی غفلت یا کسی تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ جنگ ہم نے پہلے بھی لڑی ہے، اس بار بھی لڑنی ہے، لیکن اس بار اسے مکمل طور پر جیتنا ہوگا، کیونکہ یہی ہمارے مستقبل، ہماری سلامتی اور پورے خطے کے امن کی ضمانت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور یورپی یونین کے مشترکہ اعلامیہ یورپی یونین کا پاکستان کے لیے افغانستان کے کہ افغانستان طالبان حکومت دہشت گردی کی دہشت گردی کے افغان حکومت صرف پاکستان ان کے لیے کہ افغان ا گیا ہے سکتی ہے کے خلاف کے ساتھ
پڑھیں:
غزہ بھیجی جانیوالی امداد کو سیاسی نہیں بنانا چاہئے، یورپی یونین
اپنے ایک خطاب میں حجّہ لحبیب کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے ضروری انسانی امداد، غزہ کی سرحدوں پر موجود ہے لیکن صیہونی رژیم بہت محدود مقدار میں اس امداد کو غزہ میں داخلے میں کی اجازت دے رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یورپی یونین کی ڈزاسٹر مینجمنٹ کی کمشنر "حجّہ لحبیب" نے کہا کہ غزہ کو بھیجی جانے والی امداد کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے اور اسے فوجی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں کیا۔ اس موقع پر حجّہ لحبیب نے واضح کیا کہ صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی میں صرف تھوڑی سی امداد کے داخلے کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے غزہ میں انسانی صورت حال کی خرابی کے بارے میں بھی خبردار کیا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ حالیہ طوفان اور موسم سرما کے قریب آنے کے بعد فلسطینی، سردی، خشک سالی و بھوک سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین کی اس اعلیٰ عہدیدار نے زور دے کر کہا کہ ہماری جانب سے ضروری انسانی امداد، غزہ کی سرحدوں پر موجود ہے لیکن صیہونی رژیم بہت محدود مقدار میں اس امداد کو غزہ میں داخلے میں کی اجازت دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پٹی میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق انسانی امداد کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔