برسلز میں 21 نومبر کو پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان اسٹریٹجک مکالمے کا ساتواں دور منعقد ہوا، جس کا مشترکہ اعلامیہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے جاری کیا۔ اجلاس کی صدارت پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور یورپی یونین کی اعلیٰ نمائندہ برائے خارجہ امور کایا کالاس نے کی۔اجلاس میں پاکستان اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات، 2019 کے اسٹریٹجک انگیجمنٹ پلان کے تحت تعاون، اور مستقبل کے مشترکہ اہداف پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ دونوں جانب سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سیاسی، معاشی، انسانی حقوق، تجارت، مہاجرت، ترقیاتی منصوبوں اور یورپی یونین کے گلوبل گیٹ وے فریم ورک کے تحت تعاون مزید بڑھایا جائے گا۔اعلامیے کے مطابق دونوں فریقوں نے ایراسمس منڈس اور ہورائزن یورپ جیسے تعلیمی پروگراموں کے ذریعے علم اور تحقیق کے تبادلوں کو مزید بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ ساتھ ہی خوراک، توانائی کے بحران اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے نئے چیلنجز پر مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔بات چیت میں یورپی یونین نے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی مسلسل اہمیت کا اعتراف کیا، جو پاکستان اور یورپی یونین کے معاشی تعلقات کا بڑا ستون سمجھا جاتا ہے۔دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے اصولوں، عالمی امن، کثیرالجہتی نظام، اور قانون کی حکمرانی کے تحت بین الاقوامی تنازعات کے حل پر زور دیا۔اجلاس میں غزہ کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور یورپی یونین نے صدر ٹرمپ کے جامع منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاقِ رائے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ تمام فریق جنگ بندی پر عمل کریں، معاہدے کے تمام مراحل بروقت مکمل ہوں اور غزہ میں تعمیرِ نو اور انسانی امداد تک رسائی یقینی بنائی جائے۔ دونوں نے دو ریاستی حل کی حمایت بھی دہرائی۔

پاکستان اور یورپی یونین نے اکتوبر 2025 میں پاک افغان سرحدی کشیدگی کے تناظر میں علاقائی امن اور بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیا۔ دونوں نے افغان عبوری حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔اعلامیہ میں افغانستان کی بگڑتی معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ افغانستان میں امن، استحکام اور ایک جامع سیاسی عمل ہی خطے کے مفاد میں ہے۔ یورپی یونین نے اس بات کو سراہا کہ پاکستان گزشتہ 40 سال سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، اور کہا کہ کسی بھی واپسی کا عمل محفوظ، باوقار اور عالمی قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔آخر میں دونوں فریق اس بات پر متفق ہوئے کہ اسٹریٹجک مکالمے کا آٹھواں دور اسلام آباد میں منعقد کیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: پاکستان اور یورپی یونین اور یورپی یونین کے یورپی یونین نے بات چیت

پڑھیں:

پاکستان، یورپی یونین کا جی ایس پی پلس اسکیم کے ذریعے تجارتی تعلقات مضبوط بنانے پر زور

اسلام آباد(ویب ڈیسک)دفتر خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور یورپی یونین (ای یو) نے یورپی بلاک کی جی ایس پی پلس اسکیم کے ذریعے تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے، تاکہ پائیدار معاشی ترقی، برآمدات میں تنوع، روزگار کے مواقع اور باہمی فائدے کی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان ساتویں اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے موقع پر سامنے آئی، جو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں منعقد ہوا، اجلاس کی مشترکہ صدارت نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار اور یورپی یونین کی نائب صدر کاجا کالاس نے کی، اس سے ایک روز قبل، ڈار نے برسلز میں ’چوتھے ای یو انڈو پیسیفک فورم‘ کے راؤنڈ ٹیبل سے بھی خطاب کیا تھا۔

جی ایس پی پلس کا درجہ پاکستان کو یورپی منڈیوں میں برآمدات پر ڈیوٹی فری یا انتہائی کم ڈیوٹی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس نے پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات کے تمام پہلوؤں کا ’جامع جائزہ‘ فراہم کیا، جو حالیہ اعلیٰ سطح کے روابط اور ادارہ جاتی تعاون سے پیدا ہونے والی مثبت پیش رفت پر آگے بڑھ رہا ہے۔

دونوں فریقین نے ملاقات کے دوران مشترکہ اقدار، اقوام متحدہ کے چارٹر، کثیرالجہتی نظام اور باہمی احترام و تعاون کے اصولوں پر مبنی ’وسیع البنیاد، کثیر جہتی اور مستقبل کی شراکت داری‘ کے عزم کو دہرایا۔

بیان کے مطابق ’مکالمے نے علاقائی اور عالمی امور، جیسے جنوبی ایشیا، افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر جغرافیائی سیاسی پیش رفت پر تبادلہ خیال کا موقع بھی فراہم کیا‘۔

مزید برآں، دونوں نے امن، استحکام، پائیدار ترقی اور عالمی چیلنجز (جیسے موسمیاتی تبدیلی اور رابطوں) کے لیے مشترکہ حکمت عملیوں کی اہمیت پر زور دیا۔

پاکستان اور یورپی یونین نے اسٹریٹجک انگیجمنٹ پلان (2019) کے تحت تعاون کو مضبوط بنانے، جاری مذاکرات کو آگے بڑھانے اور مستقبل میں مشترکہ تعاون کے نئے مواقع تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

بحری خطرات
نائب وزیراعظم نے بحری سلامتی کے اہم موضوع پر اپنا بیان بھی دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’آج کے بحری خطرات کثیر جہتی اور سرحدوں سے ماورا ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم قزاقی، دہشت گردی، اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر بندرگاہوں کے بنیادی ڈھانچے کو درپیش سائبر خطرات، سمندری آلودگی، اور ساحلی علاقوں کو متاثر کرنے والے موسمیاتی خطرات تک کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں‘۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان ایک ساحلی ملک ہے جو اہم بین الاقوامی بحری راستوں اور بحیرہ عرب کے سنگم پر واقع ہے، جو اس کا ’پانچواں پڑوسی‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیرہ عرب پاکستان کی قومی سلامتی، علاقائی رابطوں، معاشی مضبوطی، غذائی و توانائی تحفظ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے گوادر تک ہمارے بندرگاہی شہر وسطی ایشیا کے غیر ساحلی خطے کو عالمی تجارتی نظام سے جوڑنے والے دروازے ہیں، اسی لیے پاکستان، بحری سلامتی اور معاشی ترقی کو ایک دوسرے کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بحری شعبے میں مضبوط تعاون، آگاہی، معلومات کا تبادلہ اور قبل از وقت انتباہی نظام درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔

نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ ایک محفوظ، مضبوط اور پائیدار بحری خطہ باہمی اعتماد، شفافیت اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ سمندر تعاون اور مشترکہ خوشحالی کے علاقے بنے رہیں، اور ہم بحری خطے میں کسی بھی قسم کی خارجیت یا بالادستی پر مبنی انتظامات سے دور رہیں۔

ڈار نے زور دیا کہ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے قانونِ سمندر، علاقائی و دوطرفہ قانونی فریم ورکس اور بین الاقوامی روایتی قوانین کے تحت تعاون بڑھایا جائے، اور سمندری وسائل کو ’انسانیت کے مشترکہ ورثے‘ کے طور پر دانشمندانہ طریقے سے استعمال کیا جائے۔

پُرامن ذرائع
اسحٰق ڈار نے کہا کہ بحری تنازعات کو بین الاقوامی قانون کے مطابق پرامن ذرائع سے حل کیا جانا چاہیے، رابطوں (کنیکٹیوٹی) کو لچک (ریسائلنس) کے ساتھ جوڑنا چاہیے، اور اہم بنیادی ڈھانچے اس طرح تیار کیے جائیں کہ ان میں متبادل نظام موجود ہوں تاکہ کسی ایک خطے میں رکاوٹ کا اثر پوری دنیا پر نہ پڑے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بہترین طریقوں کو ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ کسی ایک علاقے میں پیدا ہونے والی خلل پوری دنیا میں پھیل نہ جائے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بحری ترقی کو بین الاقوامی تعاون اور تکنیکی حلوں پر استوار ہونا چاہیے۔

نائب وزیراعظم نے بتایا کہ ’پاکستان نے اپنے جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر کو مضبوط کیا ہے، جس میں سیٹلائٹ مانیٹرنگ اور سپارکو کی مدد سے اے آئی پر مبنی جہازوں کی ٹریکنگ کو شامل کیا گیا ہے، ہم اس حوالے سے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مزید تعاون کے خواہاں ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اہم بحری ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی، ریگولیٹری تعاون اور استعداد کار میں اضافہ کے حوالے سے یورپی یونین اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرنے کا منتظر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اپنے ملک میں دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کارروائی کرے، پاکستان،یورپی یونین
  • افغانستان دہشتگردی کے خاتمے میں عملی کردار ادا کرے، پاکستان اور یورپی یونین کا مطالبہ
  • پاکستان اور یورپی یونین کا 7واں اسٹریٹجک ڈائیلاگ، دوطرفہ تعاون مزید مضبوط کرنے پر اتفاق
  • پاکستان، یورپی یونین کا جی ایس پی پلس اسکیم کے ذریعے تجارتی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • دہشت گردی پر جلد قابو پا لیں گے، وزیر دفاع
  • دہشت گردی اور افغانستان
  • برسلز میں پاکستان اور یورپی یونین کے مابین اسٹریٹجک ڈائیلاگ
  • پاکستان اور یورپی یونین کے مابین اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا ساتواں دور برسلز میں منعقد
  • دہشت گردی کا مشترکہ چیلنج