Jasarat News:
2025-11-23@07:07:12 GMT

کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف جاتی ہے اور جب صحافت زوال آمادہ ہوجاتی ہے تو قوم بھی زوال آمادہ ہوجاتی ہے۔ 1930ء اور 1940ء کی دہائی میں برصغیر کی مسلم صحافت زندہ و بیدار تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں برصغیر کی ملت اسلامیہ بھی زندہ و بیدار تھی۔ وہ انگریزوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی تھی اور ہندوئوں کو للکار رہی تھی۔ مگر 1958ء کے بعد پاکستانی صحافت جرنیلوں اور ان کے پالتو سیاست دانوں کا آلہ ٔ کار بن گئی۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ 1971ء میں جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا اور پاکستان کے جرنیل پاکستان بنانے والے بنگالیوں کو کچل رہے تھے تو ملک کے ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی اردو ڈائجسٹ کے اداریے میں فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جھوٹ کی دو اقسام ہیں جھوٹ اور حد سے بڑھا ہوا مبالغہ۔ جھوٹ کی مثال تو الطاف حسن قریشی ہیں۔ حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کی مثال محمود شام ہیں۔ ان کے حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کا ثبوت ان کا ایک حالیہ کالم ہے جس میں انہوں نے بچے کھچے اور جرنیلوں کے بوٹوں سے روندے ہوئے پاکستان کو ’’عظیم مملکت‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔

’’کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تا کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا، حالانکہ وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور زمین میں نشانات بنانے کے اعتبار سے بہت بڑھ کر تھے تو جو کچھ وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آیا۔ (مضامین قرآن حکیم۔ مرتبہ زاہد ملک۔ صفحہ 627۔ سورۃ المومن آیت 82)

تاریخ برہم ہے۔ جغرافیہ دانتوں میں زبان دبائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے ہوئے ہے۔ ہم شروع سے یہ تجزیہ کرتے آئے ہیں کہ قائداعظم صرف ایک سال زندہ رہے۔ اس لیے پاکستان مستحکم نہیں ہوسکا۔ بہت سی مشکلات سر اُٹھاتی رہیں۔ ان کے دست راست قائد ملت لیاقت علی خان بھی تین سال بعد قتل کردیے گئے۔ اس لیے حالات بہتر نہ ہوسکے۔ ہم شخصیات پر اعتبار کرتے ہیں۔ فراموش کردیتے ہیں کہ شخصیات تو سب فانی ہیں، آنی جانی ہیں۔ ہر ایک کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کوئی بھی آخری امید نہیں ہوسکتی۔ نہ جانے کتنی آخری امیدیں منوں مٹی تلے دبی ابدی نیند سورہی ہیں۔ پھر بھی یہ عظیم مملکت چل رہی ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 13 نومبر 2025ء)

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے پاکستان ایک ’’عظیم مملکت‘‘ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر اللہ کا سایہ تھا۔ انسانی تاریخ میں صرف دو ریاستیں اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھیں۔ ایک ریاست مدینہ اور دوسری پاکستان۔ چنانچہ پاکستان جب صرف ایک تصور تھا تو بھی اس پر خدائے ذوالجلال کا سایہ تھا۔ پاکستان تو 1947ء میں تخلیق ہوا مگر اقبال سے بھی بہت پہلے اللہ تعالیٰ پاکستان کا خیال ممتاز ناول نگار عبدالحلیم شرر کے قلب پر القا کرچکا تھا۔ یہ 1890ء کی بات ہے جب عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ میں برصغیر کے اندر ایک علٰیحدہ اسلامی ریاست کا خیال پیش کیا۔ یہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے 40 سال پہلے کی بات ہے۔ مگر عبدالحلیم شرر کا یہ خیال لوگوں کی توجہ حاصل نہ کرسکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کا خیال 1917ء میں یوپی کے خیری برادران کے قلب پر القا کیا اور انہوں نے برصغیر میں ایک الگ اسلامی ریاست کا خیال پیش کیا۔ لیکن اس مرتبہ بھی یہ خیال عوامی تخّیل یا Public Imagination کا حصہ نہ بن سکا۔ یہاں تک کہ 1930ء آگیا اور اقبال نے یوپی کے شہر الٰہ آباد میں جا کر اپنے خطبہ الٰہ آباد میں برصغیر کے اندر ایک الگ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا۔ اب قیام پاکستان کا وقت چونکہ قریب آچکا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ اقبال کے تصور کو عوام کے تخیّل کا حصہ بنادیا بلکہ اس تصور نے خود ’’قوم پرست‘‘ اقبال کو ’’اسلام پرست‘‘ اقبال میں ڈھال دیا۔ دوسری طرف اس تصور نے ایک قومی نظریے کے علمبردار ’’محمد علی جناح‘‘ کو ’’دوقومی نظریے کا ترجمان‘‘ بنا کر ’’قائداعظم‘‘ میں ڈھال دیا۔ چنانچہ پاکستان کا نظریہ بھی عظیم تھا۔ پاکستان کا تصور بھی عظیم تھا۔ پاکستان کا قائد بھی عظیم تھا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد بھی عظیم تھی۔ یہاں تک پاکستان کے عظیم مملکت ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔

20 ویں صدی میں نظریے کی طاقت بے پناہ تھی۔ ایک طرف نظریے نے پاکستان کے نام دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کی۔ دوسری طرف اس سے پہلے سوشلزم کے نظریے نے روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔ تیسری جانب اسی نظریے نے چین کو بھی سوشلسٹ انقلاب سے ہمکنار کیا۔ روسی انقلاب صرف روس تک محدود نہ رہا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس انقلاب نے پوری زندگی کو بدل ڈالا۔ روس اور چین میں کوئی بیروزگار نہ رہا۔ کوئی بے گھر نہ رہا۔ اس نظریے نے روس چین کے پورے معاشرے کو مفت تعلیم فراہم کی۔ مفت علاج کی سہولتیں مہیا کیں۔ روس کے انقلاب نے روس کو سوویت یونین میں ڈھال کر دنیا کی دوسری سپر پاور بنادیا۔ اسی طرح چینی انقلاب نے آج چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی صورت دے دی ہے۔

پاکستان کا نظریہ روس اور چین کے نظریے سے ایک کروڑ گنا بڑا تھا اور یہ نظریہ پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پالتو سیاست دانوں نے ملک کے بنیادی نظریے سے غداری کی اور اس نظریے کو ریاست اور معاشرے پر حاکم نہ بنے دیا۔ اس کے برعکس جنرل ایوب نے پاکستان پر سیکولر ازم تھوپ دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن سے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوا دیا۔ انہوں نے معاشرے پر ایسے عائلی قوانین مسلط کردیے جو اسلام کی ضد تھے۔ انہوں نے اس تصور ہی کو پنپنے نہ دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی ایجاد تھے۔ وہ سیاست میں آئے تو انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ تخلیق کر ڈالا۔ حالانکہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے انہوں نے پاکستان کو لبرل بنانے کی کوشش کی۔ جنرل ضیا الحق کا اسلام صرف سیاسی فائدے کے لیے تھا اور اس نے معاشرے کے باطن پر رّتی برابر بھی اثر نہ ڈالا۔ میاں نواز شریف اور ان کے خانوادے کا نظریہ اسلام تو کیا سیکولر ازم بھی نہیں ہے۔ یہ پورا خاندان ’’پنجابیت‘‘ میں ڈوبا ہوا ہے۔ میاں نواز شریف نے اسلامی جمہوریہ اتحاد کے زمانے میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ آج مریم نواز خود کو ’’اسلام کی بیٹی‘‘ یا ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے بجائے ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہلانا پسند کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے زمانے سے آج تک کبھی ’’سندھیت‘‘ سے بلند نہیں ہوسکی۔ چنانچہ نظریۂ پاکستان ملک و قوم کے لیے کوئی ’’تخلیقی قوت‘‘ یا قوم کے اتحاد و یگانگت کا آلہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مملکت کو عظیم کہا جاسکتا ہے جو اپنے نظریے ہی سے بیگانہ ہوگئی ہو؟

قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان بنایا تھا۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو ایک ’’آزاد قوم‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جرنیلوں اور ان کے آلہ ٔ کار سیاست دانوں نے 1958ء سے آج تک پاکستان کو امریکا کا غلام بنایا ہوا ہے۔ جنرل ایوب نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنایا۔ انہوں نے امریکا کو ’’بڈھ بیر‘‘ میں ایسا ہوائی اڈا فراہم کیا جہاں سے امریکا سوویت یونین کی نگرانی کرتا تھا۔ جنرل ایوب نے پاکستان کی معیشت کو عالمی بینک کی غلامی میں دینے کے عمل کا آغاز کیا۔ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ آج بھی پاکستان امریکی Dictation پر چل رہا ہے۔ ہماری معیشت 130 ارب ڈالر سے زیادہ قرضوں کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ کیا ایسے ملک اور ایسی معیشت کو آزاد قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پاکستان کو ’’عظیم مملکت‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟

یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ چین نے 40 برسوں میں 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ بھارت نے 40 سال میں 25 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے اور روس نے 30 کروڑ کی نئی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے قوم کا یہ حال کیا ہوا ہے کہ 10 کروڑ افراد خط ِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ مڈل کلاس پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ آبادی کے 80 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔ معاشرے کے 80 فی صد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو انہیں کوئی ماہر ڈاکٹر فراہم نہیں ہوپاتا۔ 40 فی صد آبادی ناخواندہ ہے، پونے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مملکت کو ’’عظیم‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟

ہمارے زمانے میں جمہوریت کو معاشرے کی ’’صحت‘‘ کا بیرومیٹر کہا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں جمہوری سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی ’’جمہوری پارٹی‘‘ موجود نہیں۔ آزاد معاشروں میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں کوئی انتخاب بھی آزادانہ نہیں ہوا۔ 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی مگر جرنیلوں نے فارم 47 کے ذریعے پی ٹی آئی کو ہرا دیا اور نواز لیگ اور ایم کیو ایم کو جتا دیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب ہوگئی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کو ہرا کر کراچی پر پیپلز پارٹی کا میئر مسلط کردیا۔ صحافت کی آزادی کا یہ حال ہے کہ جنرل عاصم منیر کے خلاف کہیں ایک تنقیدی جملہ نہ شائع ہوسکتا ہے نہ نشر ہوسکتا ہے۔ محمود شام اس کے باوجود فرما رہے ہیں کہ پاکستان عظیم مملکت ہے؟۔

شاہنواز فاروقی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی ریاست نے پاکستان پاکستان کی عظیم مملکت پاکستان کو پاکستان کے پاکستان کا جنرل ایوب جاسکتا ہے اور ان کے بھی عظیم نظریے نے انہوں نے میں کوئی کا خیال ہیں کہ

پڑھیں:

دہشت گردی اور افغانستان

ترجمان دفترخارجہ طاہر اندرابی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کی معاونت ختم نہ ہونے تک افغانستان کے ساتھ تجارت بند رہے گی۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی بندش اور تجارت معطلی کی پالیسی برقرار ہے کیونکہ افغان طالبان دہشت گرد گروہوں کو سپورٹ کررہے ہیں اور افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے۔

طالبان کو ان افغان شہریوں کو روکنا ہوگا جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ تجارت بند کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے‘ انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان نے پاکستان کے تاجروں اور تجارت پر حملے کیے، پاکستان اپنے شہریوں کی زندگی کی قیمت پر افغانستان کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ کئی ممالک نے پاک افغان ثالثی کی بات کی ہے، افغانستان میں ہمارا سفارت خانہ اور افغانستان کا یہاں سفارت خانہ کھلا ہے، دونوں سفارت خانوں سے مواصلاتی چینل کھلے ہوئے ہیں۔طاہر اندرابی نے کہاکہ پاک بھارت جنگ پر امریکی کانگریس کی تحقیقی رپورٹ اوپن سورس معلومات پر مبنی ہے۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی ہونے کے بارے میں اقوام عالم بھی تصدیق کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ میں ڈنمارک کے سفیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے اور افغانستان کی حکومت اس تنظیم کی مکمل طور پر سہولت کاری کر رہی ہے۔

اس حوالے سے کئی بار پاکستان بھی ثبوت افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت کو مہیا کر چکا ہے،لیکن اس کے باوجود طالبان کی عبوری حکومت نے اس مسئلے کے حل کی جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ طالبان کے موجودہ سیٹ اپ میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں ۔

افغانستان باقاعدہ طور پر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی پشتو بیلٹ میں پاکستان مخالف پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ماضی میں بھی افغان حکمران پشتونستان اسٹنٹ پھیلانے میں ملوث تھے اور موجودہ طالبان رجیم بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

افغانستان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مسلسل بے چینی اور بے امنی موجود رہی ہے۔ کئی لوگ منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پشتو بیلٹ مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں چلی آ رہے ہیں۔

اگلے روز بھی خیبرپختونخوا کے ضلع بنو ںکے علاقے ہوید درئی دڑیز میں امن کمیٹی کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے میں 7افرادشہید اور ایک زخمی ہوگیا ، امن کمیٹی کے سربراہ قاری جلیل موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔

دریں اثناء سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا میں دو مختلف کارروائیوں کے دوران بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج کے 13 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، آئی ایس پی آر کے مطابق فورسز نے ضلع لکی مروت کے علاقے پہاڑ خیل میں خوارج کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہمراہ مشترکہ کارروائی کی۔

اس دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور 10 خوارج مارے گئے ،فورسز نے علاقے کو کلیئر کرتے ہوئے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا ، دوسری کارروائی ڈیرہ اسماعیل خان میں کی گئی جہاں سیکیورٹی فورسز نے 3 دہشت گرد کو ہلاک کردیا۔ 

آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک دہشت گرد بھارت کی سرپرستی میں فورسز ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معصوم شہریوں پر حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے،آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ عزم استحکام کے تحت ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور رفتار سے کارروائیاں جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب اے پی پی کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے بنوں میں امن کمیٹی کے دفتر پر فتنہ الخوارج کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ 

وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو حملے کے ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ایسی بزدلانہ کارروائیاں فتنہ الخوارج کے پاکستان میں بد امنی کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرتی ہیں اور یہ کسی قیمت پر پاکستانیوں کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھی بنوں کے علاقے میں امن کمیٹی کے دفتر پر فتنہ الخوارج کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وجوہات کے بارے میں تو بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور رباب اختیار اس حوالے سے بہت کچھ جانتے بھی ہیں۔ پاکستان میں برسوں سے جس قسم کی سوچ اور مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھایا گیا ہے ،اس کے نتیجے میں انتہا پسندی اور تنگ نظری میں اضافہ ہوا ہے۔

جس بھی معاشرے میں انتہا پسندی اور تنگ نظری ایک طرز عمل اور نظریے کی شکل میں پروان چڑھے گی تو اس کے نتیجے میں سوائے لڑائی جھگڑے اور انارکی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

سرد جنگ کی ضروریات کے تحت افغانستان اور پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل طبقے کو طاقتور بنانے کا جو عمل شروع کیا گیا تھا ،اس کے نتیجے میں جو جاری نظام تھے، اس میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔

کالے دھن کی فراوانی ہونے لگی ، پاک افغان سرحد کو کھلا چھوڑ دیا گیا ،اس وجہ سے غیر قانونی تجارت جن میں منشیات اسمگلنگ ‘اسلحے کی تجارت اور آٹو موبائل گڈز کی اسمگلنگ نے عروج حاصل کیا ہے۔ اس طریقے سے ایک ایسا طبقہ دولت مند بن گیاجس کی پرورش ہی غیرقانونی انداز میں ہوئی تھی۔

اب یہ طبقہ قانون کی عملداری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔یہ لوگ آئین اور قانون سے ماورا ہو کر کام کرنا چاہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لیے مسلح لشکروں کی پشت پناہی کرتے ہیں ،انھیں فنانشل مدد فراہم کرتے ہیں اور انھیں قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ہتھیار بند لشکروں کو محفوظ پناہ گاہ میسر آ گئی۔ ٹی ٹی پی ،داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں بغیر کسی خوف و خطر آپریٹ کر رہی ہیں ۔ افغانستان تقریباً ڈھائی لاکھ مربع میل رقبے کا ملک ہے۔ہتھیار بند گروہوں کے پاس اتنا بڑا رقبہ اپنی نقل و حرکت کے لیے مل جائے تو انھیں اور کیا چاہیے۔ 

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشن کر رہی ہے۔ البتہ پاکستان میں بعض ایسے لوگ اور طبقے موجود ہیں جو پس منظر میں رہ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ،اس کے باوجود پاکستان کے ادارے بڑی جانفشانی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں صورت حال خاصی خراب ہے۔یہاں مسلح گروہ ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں،اس لڑائی کے دوران بے گناہ شہریوں کو قتل کیا جاتا ہے ‘خیبرپختونخوا میں امن کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔خیبرپختونخوا کے عوام امن کے لیے کئی بار مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے راستے میں رکاوٹیں کونسی ہیں اور کہاں ہیں ‘اس حوالے سے بھی ارباب اختیار کو بہت سے حقائق کا علم ہے۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کا حق ہے کہ انھیں جان و مال کا تحفظ مہیا کیا جائے۔

انھیں کاروبار کرنے کی آزادی حاصل ہو لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں۔پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔پاکستان موجودہ حالات میں اپنی سرحدوں پر بے لگام قسم کی آمدورفت جاری نہیں رکھ سکتا۔

ترجمان دفتر خارجہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جب تک افغانستان دہشت گردوں کی سہولت کاری اور سرپرستی نہیں چھوڑتا اس وقت تک تجارت بحال نہیں ہو سکتی۔ افغانستان کی حکومت متبادل تجارتی راستے تلاش کر رہی ہے،وہ ایسا تاثر دے رہی ہے جیسے اسے پاکستان سے تجارتی راہداری کی ضرورت نہیں ہے۔

حالانکہ یہ سارا غلط پراپیگنڈا ہے۔افغانستان کے لیے پاکستان کے سوا باقی تمام تجارتی روٹ اول تو ناقابل استعمال ہیں اور اگر انھیں استعمال کیا بھی جاتا ہے تو اس کے خراجات بہت زیادہ ہیں۔

افغانستان کی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ متبادل تجارتی راستے تلاش کرے۔لیکن حقائق یہی ہیں کہ وہ جب تک دہشت گردی کی سرپرستی نہیں چھوڑتا تو اس وقت تک اسے کسی بھی ملک سے تجارتی راستہ ملنا بہت مشکل ہے۔ دنیا کا کوئی ملک بغیر کسی قاعدے ،جانچ پڑتال اور سیکیورٹی کو تجارتی روٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
 

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت عہدہ چھوڑیں گے تو انہیں حاصل استثنیٰ بھی ختم ہوجائے گا، راجا پرویز اشرف
  • دہشت گردی اور افغانستان
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان کی ضرورت ہیں، فرح عظیم شاہ
  • خوارج کے خلاف مربوط کارروائیاں قومی سلامتی کو مزید مضبوط بنا رہی ہیں؛ صدرِ مملکت
  • صدرِ مملکت کا بنوں میں مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں، صدر مملکت نے سرفراز بگٹی سے ملاقات سے انکار کر دیا
  • صدر آصف علی زرداری کا لبنان کے یومِ آزادی پر پیغام، لبنانی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عزم کا اعادہ
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ججز نے سپریم کورٹ  میں درخواست دائرکرنےکی کوشش کی جو  صحیح  فورم نہیں، وزیر مملکت برائے قانون
  • سلطنت عمان کا قومی دن، صدر مملکت کا سلطان ہیثم کے نام اہم پیغام