نائجیریا کے کیتھولک اسکول سے سینکڑوں بچے اغوا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
نائجیریا کے سینٹ میریز نامی کیتھولک اسکول پر مسلح افراد نے حملہ کرکے سینکڑوں بچوں اور اساتذہ کو اغوا کرلیا ہے۔
ابتدائی اطلاعات تھیں کہ تقریباً 215 طالب علم اور 12 اساتذہ اغوا ہوئے ہیں۔ بعدازاں کرسچن ایسوسی ایشن آف نائجیریا نے ان اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 303 طلبہ مع 12 اساتذہ اغوا ہوئے ہیں۔
ان میں بچے 10 سال سے 18 سال کی عمر کے بتائے گئے ہیں۔ بعض طلبہ نے فرار کرنے کی کوشش کی جس میں سے تقریباً 88 طالب علم فرار کی کوشش کے دوران اغوا کاروں کے ہاتھ لگ گئے۔
حملہ صبح سویرے ہوا، بین الاقوامی ذرائع کے مطابق حملہ آور موٹرسائیکل اور پک اپ گاڑیوں پر آئے تھے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ اغوا کار تقریباً 3 گھنٹے تک اسکول میں رہے اور انہوں نے ڈورمیٹری کی مختلف گیٹوں سے حملہ کیا۔ ایک سیکیورٹی گارڈ کو گولیاں لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہوا۔
نائجیریا کی سکیورٹی فورسز اور ٹیکٹیکل یونٹس کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ مغویوں کو تلاش کیا جائے۔ نائجر اسٹیٹ کے گورنر نے تمام اسکول خاص طور پر بورڈنگ اسکولز کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ مزید حملوں کو روکا جاسکے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی وزیر دفاع کی نائجیریا کے سیکیورٹی مشیر سے خفیہ ملاقات
ابوجا: امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے نائجیریا کے قومی سلامتی کے مشیر ملاّم روحباؤدو سے خفیہ ملاقات کی ہے جو ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مغربی افریقی ملک میں مسیحی برادری کے خلاف مبینہ مظالم کے حوالے سے فوجی کارروائی کی دھمکیاں دی تھیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات پینٹاگون میں ہوئی مگر اسے میڈیا سے مکمل طور پر مخفی رکھا گیا اور سرکاری شیڈول پر بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔
امریکی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ گفتگو نائجیریا میں جاری تشدد، بین المذاہب کشیدگی اور ممکنہ امریکی ردعمل کے حوالے سے تھی۔
خیال رہےکہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا تھا کہ اگر نائجیریا کی حکومت نے مسیحیوں کے قتل عام کو نہ روکا تو امریکا نہ صرف تمام امداد روک دے گا بلکہ گنز اَ بلیزنگ انداز میں فوجی مداخلت بھی کرسکتا ہے۔
واضح رہےکہ نائجیریا میں مذہبی تنازعات اور نسلی کشیدگی کا معاملہ پیچیدہ ہے، عالمی مانیٹرنگ گروپس، جن میں ACLED بھی شامل ہے، گزشتہ برسوں میں وہاں دسیوں ہزار شہری مارے جا چکے ہیں اور ہلاکتوں میں مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔