وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان کا شکایتی بیان، بھارتی دفاعی صنعت پر شدید عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
مودی کا ’’میک اِن انڈیا‘‘ دفاعی خواب بری طرح زمین بوس ہوگیا جبکہ بھارتی فوج وقت پر اسلحہ نہ ملنے کی کھلے عام شکایات کرنے لگی۔
بھارتی دفاعی صنعت کی سرد مہری نے سی ڈی ایس کو میڈیا پر آ کر قوم پرستی کی دہائی دینے پر مجبور کر دیا۔
بھارتی جریدے دی پرنٹ کے مطابق سی ڈی ایس انیل چوہان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی منافع کمانے والی کاوشوں میں کچھ قومیت اور حب الوطنی کی توقع رکھتے ہیں۔ دفاعی اصلاحات یک طرفہ عمل نہیں، صنعت کو اپنی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ہوگا۔
انیل چوہان نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ معاہدہ کر کے اور وقت پر ڈیلیور نہ کریں، یہ ہماری صنعتی صلاحیت کا نقصان ہے۔ آپ کو اپنی مقامی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ہوگا، اس کا تعلق قومی سلامتی سے ہے۔
بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا کہنا تھا کہ بہت سی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ان کے مصنوعات 70 فیصد مقامی ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔
کرپٹ مودی کے دور اقتدار میں بھارتی دفاعی کمپنیاں اربوں کے حکومتی فنڈز لینے کے باوجود جدید ہتھیار وقت پر دینے میں ناکام ہیں۔ بھارتی سی ڈی ایس کی تنقید خود بھارتی فوج کی داخلی بدانتظامی اور ناقص پلاننگ کی گواہی دے رہی ہے۔
بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی مایوسی نے خطے میں ناکام ملٹری ماڈرنائزیشن اور اندرونی کھوکھلے پن کا پردہ چاک کر دیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دنیا کے 70 فیصد کاربن اخراج کے ذمہ دار 10 ممالک کو 85 فیصد گرین فنانس ملتا ہے، مصدق ملک
اسلام آباد:وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ دنیا کے 10 ممالک 70 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار ہیں لیکن اسی کے ساتھ عالمی گرین فنانس کا 85 فیصد بھی انہی کو ملتا ہے، برفانی ذخائر کا بحران دراصل انصاف اور حقوق کا معاملہ ہے۔
وفاقی وزیر مصدق ملک نے برازیل کے شہربیلیم میں جاری اقوامِ متحدہ کے 30ویں سالانہ عالمی موسمیاتی کانفرنس کوپ30 کے موقع پر منعقدہ پاکستان کی تقریب رایوسفیئر ایڈاپٹیشن اینڈ ڈیزاسٹر میں خصوصی ویڈیو پیغام کے ذریعے خطاب کیا۔
مصدق ملک نے ہندوکش–قراقرم–ہمالیہ کے برفانی ذخائر کے تحفظ کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہیں دنیا کی سفید چھتیں قرار دیا، جو جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگی، معیشت، زراعت اور ماحولیات کا بنیادی سہارا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس 13 ہزار گلیشیئرز موجود ہیں جو دریائے سندھ کے نظام کو پانی فراہم کرتے ہیں اور ملکی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔
وفاقی وزیر نے نشان دہی کی کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں گلیشیائی جھیل پھٹنے کے واقعات اور دیگر تباہ کاریاں جنم لے رہی ہیں جو معیشت اور انسانی آبادیوں کے لیے سنگین خطرات پیدا کر رہی ہیں۔
عالمی موسمیاتی ناانصافی پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ دنیا کے 10 ممالک 70 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار ہیں لیکن اسی کے ساتھ عالمی گرین فنانس کا 85 فیصد بھی انہی کو ملتا ہے، برفانی ذخائر کا بحران دراصل انصاف اور حقوق کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کاربن اخراج کے ذمہ دار ممالک پر زور دیا کہ وہ حساس خطوں میں رہنے والی آبادیوں کے لیے موافقت اور تحفظ کے اقدامات میں اپنا حصہ ڈالیں اور کوپ 30 میں اس ایجنڈے کو ترجیحی بنیاد پر آگے بڑھایا جائے۔
مصدق ملک نے پاکستان کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ حکومت نے این ڈی سی 3.0 کے ذریعے عالمی سطح پر ایک واضح اور مضبوط موسمیاتی پالیسی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تقریب میں ترکیہ اور آذربائیجان کے نائب وزرائے ماحولیات، ڈائریکٹر جنرل اور نیپال، بھوٹان، یونیسکو، یو این ڈی پی اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے سینئر نمائندوں نے بھی اظہار خیال کیا۔