معاشرے میں اصلاحی کوششیں نتیجہ خیز کیوں نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251116-03-7
شاہنواز فاروقی
ہمارا یونیورسٹی کے زمانے کا ایک شعر ہے۔
نظامِ زیست کی حرمت بحال کرتے رہو
کوئی بھی بزم ہو اُٹھ کر سوال کرتے رہو
ایک زمانہ تھا کہ ہماری اردو تنقید زندہ سوالات سے بھری ہوئی تھی۔ محمد حسن عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد تھے اور ان کی تنقید میں سوالات کی فراوانی تھی۔ وہ سوال اُٹھا رہے تھے کہ مشرق کیا ہے؟ مغرب کیا ہے؟ مشرق کیوں زندہ ہے؟ مغرب کیوں مر رہا ہے؟ سلیم احمد عسکری صاحب کے شاگرد تھے ان کی تنقید کا مرکزی حوالہ بھی سوالات تھے۔ سلیم احمد کی ایک کتاب کا نام ہے غالب کون؟ دوسری کتاب کا نام ہے محمد عسکری آدمی یا انسان؟ اس زمانے میں صحافت میں بھی بڑے لوگ موجود تھے اور ان کے کالم بنیادی سوالات سے لبریز تھے۔ واصف علی واصف نوائے وقت میں علم کے دریا بہا رہے تھے۔ سلیم احمد جسارت اور حریت میں سوالات کو زبان دے رہے تھے۔ جنگ میں وارث میر اور ڈان میں صفدر میر اپنے اپنے سوالات لیے بیٹھے تھے۔ مگر اب نہ ادب میں کوئی زندہ سوال اُٹھا رہا ہے نہ ہی کالموں میں کہیں اچھے سوالات نظر آتے ہیں۔ اس فضا میں ہمارے ممدوح خورشید ندیم نے کمال کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں اہم سوال اُٹھایا ہے۔ انہوں نے ’’اصلاحی کوششیں نتیجہ خیز کیوں نہیں‘‘؟ کے عنوان سے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ جیسے مشاہدہ سماج کی جو تصاویر سامنے رکھتا ہے‘ ان میں مناسبت اور ربط تلاش کر نا مشکل ہو جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں‘ یہ کہنا محال ہوتا ہے کہ یہ سب تصاویر کسی ایک سماج کی ہیں۔
آئے دن ایسے لوگوں سے ملاقات ہو تی ہے جو شب وروز سماج کی تعمیر اور خدمت میں لگے ہیں۔ ان کے پاس بے شمار وسائل ہیں‘ انسانی بھی اور مادی بھی۔ یہ وسائل معاشرہ فراہم کر رہا ہے۔ ایدھی‘ الخدمت‘ اخوت‘ شوکت خانم کس کس کا نام لوں۔ یہ افسانے نہیں‘ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم بچشم ِ سر دیکھتے ہیں۔ ان اداروں کی خدمات کا دائرہ تو پاکستان کی سرحدوں سے باہر تک پھیل چکا۔ یہ چند نام تو وہ ہیں جو ملکی سطح پر معروف ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان گنت ادارے ہیں جو مختلف سطحوں پر کام کر رہے ہیں۔ تعلیم‘ صحت اور فلاح وبہبود کے ان گنت پہلو ہیں جن پر کام جا ری ہے۔ یہ بھی فرضی ادارے نہیں ہیں۔ سطحِ زمین پر ان کے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایسے کام نہ صرف تعداد میں بہت ہیں‘ ان میں تسلسل اور استحکام بھی ہے۔ میں لاہور کے ایک ادارے ’’آبرو‘ ‘سے کم وبیش بیس برس پہلے واقف ہوا تھا۔ ایک خاتون نے اپنے گھر کے گیراج میں ان بچوں کی تعلیم کا آغاز کیا جن کی مائیں لوگوں کے گھروں میں کام کر تی تھیں اور وہ سارا دن آوارہ پھرتے تھے۔ انہوں نے ایسی مائوں کو آمادہ کیا کہ وہ صبح اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جایا کریں اور جاتے وقت لیتی جائیں۔ یہاں ان کو کتابیں‘ بستہ اور دوپہر کا کھانا بھی ملے گا۔ چند برس پہلے میں نے اپنی آنکھوں سے اس ادارے کی ایک چار منزلہ عمارت فیروزپور روڑ پر دیکھی جہاں ایسے بچوں کے لیے ایک ہائی اسکول قائم ہے۔ یہی نہیں‘ یہاں بھینسیں بھی رکھی گئی ہیں تاکہ محروم گھروں کے بچوں کو پینے کا خالص دودھ ملے۔ میں ایسی بہت سے مثالیں دکھا سکتا ہوں جو اجتماعی سطح پر ہو رہی ہیں۔ رہی انفرادی کاوشیں تو وہ بھی کم نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے رشتہ داروں اور ملازمین کا خیال رکھتے ہیں‘ ان کی خوشی غمی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں‘ ان کی تعداد بھی بہت ہے۔
میری پریشانی یہ ہے کہ خیر کے اتنے کام آخر سماج کی عمومی حالت پر اثر انداز ہوتے کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ سماج‘ معلوم ہوتا ہے شر کی گرفت میں ہے۔ بُری خبروں کی بھرمار ہے۔ صرف قتل کے واقعات شمار کرنا چاہیں تو حیرت آپ کو گھیر لے۔ کرپشن ہے‘ وعدہ خلافی ہے‘ بے ایمانی ہے۔ انتہا پسندی ہے‘ سوئے ظن ہے‘ کن کن اخلاقی رزائل کا نام لوں‘ ہم میں سب پائے جاتے ہیں۔ نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ سماجی ماحول پر شدت کے ساتھ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اصلاح کی یہ غیر معمولی کاوشیں نتیجہ خیز کیوں نہیں ہیں؟‘‘ (روزنامہ دنیا، 11نومبر2025ء)
خورشید ندیم نے صرف سوال نہیں اُٹھایا انہوں نے اس سوال کے دو جوابات بھی مہیا کیے ہیں ان کا پہلا جواب یہ ہے کہ ہماری معاشرتی تربیت غلبے اور بغاوت کی نفسیات پر ہوئی ہے اس لیے یہ نفسیات ’’اصلاح‘‘ کو قبول نہیں کرتی۔ ان کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہماری آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ اصلاح کی ہر کوشش غیر موثر دکھائی دیتی ہے۔ خورشید ندیم کا پہلا جواب سو فی صد غلط ہے۔ پاکستانی معاشرے کو غلبے اور بغاوت کی نفسیات چھو کر بھی نہیں گزری۔ ہم اس نفسیات کے زیر اثر ہوتے تو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف اور جنرل عاصم منیر جیسے جرنیل طویل عرصے تک ہماری گردنوں پر سوار تھوڑی رہتے۔ نہ ہی پاکستانی قوم نواز شریف، شہباز شریف، الطاف حسین اور بے نظیر بھٹو جیسے نام نہاد سول حکمرانوں کو سر پر بٹھاتی۔ دیکھا جائے تو اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد سے آج تک ریاست اپنا کام نہیں کررہی۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر سال ’’معاشرہ‘‘ فلاحی کاموں پر 480 ارب روپے خرچ کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ اور خیرات کرنے والوں کی فراوانی ہے۔ مگر معاشرے کی ’’ضروریات‘‘ بہت زیادہ ہیں۔ ان ضروریات کی تسکین کے لیے ریاست جب تک اپنا کردار ادا نہیں کرے گی کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔ ذرا اندازہ تو کیجیے کہ پاکستان کی 24 کروڑ آبادی میں 10 کروڑ افراد خط ِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ معاشرے کے پونے تین کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے تو کیا معاشرہ یہ کرسکتا ہے کہ وہ 10 کروڑ غریبوں کا پیٹ بھرے اور انہیں روزگار مہیا کرے؟ کیا معاشرہ پونے تین کروڑ بچوں کو اسکول بھیجنے کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ خورشید ندیم کا یہ خیال بھی درست نہیں کہ ہماری بہت بڑی آبادی اصل مسئلہ ہے جو بہت سے وسائل کو بھی ناکافی بنادیتی ہے۔ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے اور چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے، مگر چین نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے صرف 40 سال میں 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ آج سے 40 سال پہلے چین عالمی سطح پر علم اور تحقیق میں کہیں موجود نہیں تھا آج ریاست کی کوششوں سے یہ صورت حال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تحقیقی مقالے امریکا یا یورپ کے ماہرین کے نہیں چینی ماہرین کے شائع ہوتے ہیں۔ بھارت کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھارت نے گزشتہ 40 سال میں 30 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے اور 25 کروڑ لوگوں کی ’’مڈل کلاس‘‘ پیدا کی ہے۔ آج سے چالیس سال پہلے بھارت کی معیشت پہلی 20 بڑی معیشتوں میں بھی شامل نہیں تھی آج بھارت کی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تھا تو روس ایک ’’پسماندہ‘‘ ملک تھا مگر لینن اور اسٹالن نے صرف 30 سال میں سوویت یونین کو دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور بنادیا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد روس میں کوئی شخص بیروزگار نہیں تھا۔ کوئی شخص تعلیم سے محروم نہیں تھا۔ ہر شخص کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم تھیں، ایران میں خمینی کا انقلاب آیا تو ایران کی کایا کلپ ہوگئی۔ لبرل اور سیکولر ایران ’’مذہبی‘‘ ہوگیا۔ تعلیم عام ہوگئی۔ بیروزگاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور ایران خطے کی ایک بڑی طاقت بن کر اُبھر آیا۔ مگر پاکستان کو تخلیق ہوئے 78 سال ہوگئے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ 24 کروڑ میں سے 10 کروڑ لوگ خط ِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ 60 فی صد آبادی تعلیم سے محروم ہے۔ 70 فی صد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو انہیں ’’ماہر ڈاکٹر‘‘ دستیاب نہیں ہوتا۔ 80 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کراچی ہر سال وفاق کو 3000 ارب سے زیادہ کما کر دیتا ہے۔ صوبے کو وہ وسائل کا 95 فی صد فراہم کرتا ہے۔ ملکی برآمدات کا 50 فی صد کراچی میں تیار ہوتا ہے۔ لیکن کراچی بوند بوند پانی کو ترس رہا ہے۔
کراچی کی 80 فی صد سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کراچی کے اکثر علاقوں میں گٹر اُبل رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کا 60 فی صد کچرا سڑکوں پر پڑا رہ جاتا ہے۔ مگر نہ کسی جرنیل کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ جرنیلوں کے سیاسی کتے اور ’’سیاسی طوائفیں‘‘ اہل ِ کراچی کے لیے کچھ کرتی ہیں۔
ریاست کی طاقت کیا چیز ہوتی ہے اس کا تجربہ ہم خود پاکستان میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو لبرل اور سیکولر تھے، چنانچہ معاشرہ بھی لبرل اور سیکولر تھا۔ خواتین نیم عریاں لباس میں ٹی وی پر یلغار کرتی تھیں، رقص و موسیقی عام تھی۔ اس کے برعکس جنرل ضیا الحق مذہبی تھے۔ چنانچہ ان کے دور میں معاشرہ تیزی کے ساتھ مذہبی ہوا۔ ریاست پاکستان افغان جہاد میں کودا تو پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے ’’جہاد کلچرل‘‘ عام ہوگیا۔ عربی کی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے معاشرے کی حکمران اور بالادست طبقات خراب ہوتے ہیں اور پھر عوام ان کی نقل کرتے ہیں۔ حکمران اور بالادست طبقات سیکولر اور لبرل ہوں تو عوام بھی سیکولر اور لبرل ہوجاتے ہیں اور حکمران اور بالادست طبقات مذہبی ہوں تو عوام بھی مذہبی رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہوا۔
ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا مذہبی شعور سطحی اور سرسری ہے۔ اس میں گہرائی اور گیرائی نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں دین کی اصل روح کو اختیار نہیں کیا جارہا صرف ’’ظاہر داری‘‘ یا ’’ظاہر پرستی‘‘ سے کام چلایا جارہا ہے۔ مثلاً مردوں میں جو شخص ڈاڑھی رکھ لتیا ہے وہ پکا مذہبی سمجھا جانے لگتا ہے اور عورتوں میں جو عورت پردہ کرنے لگتی ہے اس کو بہت زیادہ مذہبی اور متقی باور کیا جانے لگتا ہے۔ بلاشبہ ڈاڑھی رکھنا سنت ہے اور پردہ اسلام کا ایک حکم ہے لیکن مذہب میں اصل تقاضا ’’خدا مرکز‘‘ یا God Centric زندگی بسر کرکے دکھانا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ خدا ہر مسلمان کی ترجیح اوّل بن جانا چاہیے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر کرنے والے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ جہاں تک ہماری عملی زندگی کا تعلق ہے تو اسے دوسری سطح پر ’’سیرت مرکز‘‘ ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے مذہبی شعور کو سیرت طیبہ کی ہوا تک نہیں گی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے دین کو ’’بقدرِ عشق‘‘ اور دنیا کو ’’بقدر ضرورت‘‘ اختیار کیا۔ لیکن پاکستان کیا پوری امت مسلمہ نے اس کلیّے کے برعکس دنیا کو ’’بقدرِ عشق‘‘ اور دین کو ’’بقدر ضرورت‘‘ اختیار کیا ہوا ہے۔ چنانچہ معاشرے میں جو اصلاحی کوششیں ہورہی ہیں وہ بے نتیجہ ثابت ہورہی ہیں یا ان سے صرف ظاہر داری پیدا ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم سیرتِ طیبہ کے ماڈل کو کب اختیار کریں گے؟
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کی یہ ہے کہ ہم کہ ہماری انہوں نے نے اپنے سماج کی رہا ہے کا نام ہے اور کروڑ ا
پڑھیں:
بدلتی ہوئی مسلم دنیا اور پاکستان
اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ یہ دینی اداروں اور مدارس کے دنیا کے سب سے بڑے نیٹ ورک کا گھر ہے۔ اس کے باوجود اس نے ریاست اور معاشرے کی اصلاح کے بارے میں مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی بحث میں نسبتاً چھوٹا کردار ادا کیا ہے۔ اب مسلم ریاستوں بالخصوص خلیجی عرب ممالک میں سیاسی اور بنیادی تبدیلی کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
مسلم ریاستوں اور معاشروں کو اس وقت جیواسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل توازن، جمہوری اصلاحات اور سماجی، سیاسی اور نظریاتی تبدیلی کے راستے پر بہت سے چیلنجزکا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ اقدامات ریاستوں کو تیزی سے اصلاحات کی طرف لے جا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر ان ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سافٹ امیج تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جس کا آغاز آج سے پانچ سال قبل 13 اگست 2020 کو ہوا تھا، اسرائیل، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور امریکا نے سہ فریقی معاہدے کا اعلان کیا تھا، جسے ’’ ابراہیم ایکارڈز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس کے بعد 15 ستمبر 2020 کو بحرین اور اسرائیل کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا۔ بحرین، متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ، اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حتمی معاہدے پر دستخط کیے جس سے اسرائیل اور دونوں خلیجی ریاستوں کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
پاکستان 40,000 مدارس، 500 سرکاری اور نجی مذہبی اداروں، مذہبی گروہوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایک وسیع نیٹ ورک والا ملک ہونے کے باوجود ایسے ذہن پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلم معاشروں میں موجودہ بحثوں میں حصہ لے سکیں۔
ایک پختہ یقین ہے کہ مذہبی اداروں میں استعمال ہونے والے طریقے، ان کے تنظیمی ڈھانچے اور سخت سوچ کی وجہ سے جدیدیت کے عمل میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم، یہ ایک بہت گہرا مسئلہ ہے جس کے لیے ریاست اور معاشرے میں اس حوالے سے گہرائی سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ مسلم دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور علمی اور نظریاتی بحثیں کس طرح ریاست اور معاشرے کو تبدیل کر رہی ہیں۔
سعودی عرب اسلام کی جائے پیدائش ہے اور مسلم ممالک اور جہادی تنظیموں کا بڑا معاشی حامی رہا ہے، جہاں اسکالرز اب بحث کر رہے ہیں کہ آیا اسلامی قانون کے تحت مرتد کی سزا موت ہو یا نہ ہو۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حتمی فیصلے جاری کرنے کے اختیار کے ساتھ خود کو ولی العمر یا ریاست کا سرپرست یا محافظ قرار دیا ہے۔
کچھ مغربی مبصرین نے مذہبی رسومات کے خاتمے کے لیے ان کے جرات مندانہ اقدامات کے لیے انھیں مصطفیٰ کمال اتاترک سے تشبیہ دی ہے، لیکن اب تک پاکستان ایسے ذہنوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلم معاشروں میں موجودہ بحث میں حصہ لے سکیں۔
تب سے انڈونیشیا اسلامی فقہ پر جاری بحث میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ندوۃ علماء، دنیا کی سب سے بڑی سول سوسائٹی کی تحریک، خلافت کے تصور کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک قومی ریاست کے تصورکی وکالت کرتی رہی ہے۔
اس نے اسلامی فقہ سے کافر کے تصور کو ختم کرنے اور اسے شہریت کے تصور سے تبدیل کرنے کا فتویٰ یا حکم بھی جاری کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ ندوۃ علماء نے سخت گیر ہندو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے بھی بات چیت شروع کر دی ہے جس میں ہندوستانی مسلم تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
تیونس میں اسلام پسند جماعت ’’ انھادہ‘‘ کو اکثر پوسٹ اسلامسٹ تحریک کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس نے سیاسی سوچ میں بڑی تبدیلی کی ہے۔ پارٹی خاص طور پر خواتین کے حقوق سمیت انفرادی آزادیوں کی حامی ہے۔
اس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی مخالفت کرے گا جو کسی خاص مذہبی طرز زندگی کو مسلط کرتے ہیں۔ اس کے رہنما، غنوچی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ لوگوں کو زیادہ مذہبی بنانے کی کوشش کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
یہ مسلم معاشروں میں جاری مباحث کی چند مثالیں ہیں۔جو مذہبی سوچ کو بدل رہے ہیں۔ یہ بحثیں مذہب کی ’’ سیکولرائزیشن‘‘ کی طرف لے جا سکتی ہیں، لیکن اس عمل کو مغربی اثرات سے اسلامی فکر کو پاک کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اٹھارویں صدی میں شروع ہوا اور اس نے سیاسی اسلام کی تحریکوں کو جنم دیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے جنھوں نے اپنے نظریات کی اصلاح پر بحث شروع کی تھی وہ زیادہ مذہبی ہوتے جا رہے ہیں لیکن سیاسی نظریات کے بوجھ سے خود کو آزاد کر رہے ہیں، وہ اب بھی ریاست کو ایک مذہب کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
جیسا کہ یہاں پیش کی گئی مثالیں ظاہر کرتی ہیں، عرب ممالک نے خاص طور پر ریاست، سول سوسائٹی اور سیاسی تحریک کے بارے میں بحث شروع کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی بحث شروع کرنا اب بھی مشکل ہے۔
آئینی طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق اس کے زیادہ تر قوانین اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ مذہبی جماعتیں اب بھی ملک میں شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
ملک کی سیاسی معیشت ان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کی بنیاد ’’خلافت‘‘ ریاست کا تصور ہے۔ ایسی بہت سی جماعتیں ایک مسلم معاشرہ کا تصور بھی نہیں کر سکتیں جو مکمل یا جزوی طور پر ایک قومی ریاست کے ماڈل پر چل رہی ہو۔
کیا پاکستانی علماء آر ایس ایس کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور ہندو مت کے اندر بدلتی تقسیم کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے؟ پاکستانی اور ہندوستانی مسلم اسکالرز کے درمیان ان کے مشترکہ راستوں اور الہام کے ذرائع کے باوجود بہت کم تعامل ہے۔
رفتہ رفتہ دونوں ممالک کے مذہبی ادارے اپنی اپنی سیاسی مجبوریوں اور ریاستی دباؤ کے تحت ایک دوسرے سے ہٹ گئے ہیں۔ ریاستی اداروں نے اپنے نظریات کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس نے پاکستان میں مذہبی قوم پرستی کو جنم دیا۔
مسلم دنیا میں تبدیلیاں صرف مذہبی اداروں میں ہونے والی تبدیلیوں اور اندرونی سماجی تبدیلیوں تک محدود نہیں ہیں۔ اب ان کی عکاسی ریاستوں کی خارجہ پالیسیوں میں ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام۔ اسے ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
اب یہ ممالک اصلاحات کی راہ پر گامزن ہیں، اپنی عالمی مصروفیت کے آپشنز کو لچکدار بنا رہے ہیں۔ جو ممالک لچکدار نہیں ہیں وہ نہ صرف مشکلات کا شکار ہیں بلکہ اب وہ غیر متعلقہ ہوتے جا رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں میں بیک وقت سیاست، معاشرت اور مذہبی نظریات میں اصلاحات ہو رہی ہیں۔ ہمیشہ ابتدا میں ایسی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ تو آتی ہے لیکن آخرکار یہ اصلاحات ناگزیر ہو جاتی ہیں۔