Express News:
2025-11-15@23:14:09 GMT

کتابو ں سے رومانس

اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT

’’ کون سی کتاب پڑھ رہے ہو آج کل بیٹا؟‘‘ میںنے سامنے بیٹھے بچے سے سوال کیا، اس نے لگ بھگ پچیس منٹ کے بعد اپنے فون سے سر اٹھایا تھا، وہ مسلسل فون پر انگلیاں چلا رہا تھا۔

’’میں؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، ’’میں کوئی کتاب نہیں پڑھ رہا ہوں ‘‘۔’’ آپ نے اس سے پہلے آخری کتا ب کب پڑھی تھی؟‘‘ میں نے اگلا سوال کیا۔ ’’ اپنے کورس کی کتابیں ہی پڑھی ہوں گی۔‘‘ 

اس نے سوچنے کے بعد کہا۔’’کورس کے علاوہ کوئی آخری کتاب کون سی پڑھی ہو گی؟‘‘ میںنے ایک اور سوال کیا۔’’ وہ تو اب یاد بھی نہیں، شاید سات آٹھ سال کا ہوں گا تب کوئی کتاب پڑھی ہو گی۔‘‘ اس نے بتایا۔’’ اخبار پڑھتے ہو بیٹا؟‘‘’’ نہیں، فوری اور بلا تردد جواب آیا۔

’’ تو دنیا کے بارے میں باخبر کیسے رہتے ہیں آپ بیٹا؟‘‘۔’’ یہ ہے نا… ‘‘ اس نے فون دکھایا، ’’ اس میں پوری دنیا ہے‘‘۔ ’’ کیا آپ اس پر کتابیں اور اخبارپڑھتے ہو؟‘‘۔’’

نہیں ، اس پر تو میں عموماً گیمز وغیرہ کھیلتا ہوں، ریلیں دیکھتا ہوں، فیس بک، سنیپ چیٹ، ایکس، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک دیکھتا ہوں ، ان کے ذریعے ہر طرح کی معلومات مل جاتی ہیں۔ اگر کسی کو دلچسپی ہو تو وہ اس پر کتابیں بھی ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘

اس نے میری معلومات میں اضافہ کیا تھا یا شاید مجھے جتلایا تھا کہ میں کس دور میں رہ رہی تھی، اس قسم کے ترقی یافتہ دور میں بھی۔’’ ہوں… ‘‘ میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

’’ کیا آپ کتابیں پڑھتی ہیں؟‘‘ اس نے سوال کیا ۔ ’’ بہت … جنون کی حد تک، کتا ب پڑھے بغیر نیند نہیں آتی اور اخبار پڑھے بغیر لگتا ہے کہ صبح نہیں ہوئی‘‘۔

’’ کیا آپ کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا ۔’’ ہے، بالکل ہے-‘‘ میں نے فورا کہا۔’’ تو کیا آپ کتابیں اور اخبار فو ن پر پڑھتی ہیں‘‘؟ ’’ ہر گز نہیں، فون پر بھی کچھ پڑھنے کا کچھ مزہ ہے، اتنی چھوٹی سی اسکرین پر آنکھیں چندھیا چندھیا کر کیسے پڑھا جا سکتا ہے۔

پہلے ہی نظر کمزور ہو گئی ہے اور آپ کی عمر کے نوجوانوں کو بھی اسی لیے کم عمری میں عینکیں لگ گئی ہیں‘‘۔ ’’ آپ اسمارٹ فون پر پھر کیا کیا ایپ استعمال کرتی ہیں؟‘‘۔’’ میں؟ میرے پاس ایک دو گیمز ہیں جو میں کھیلتی ہوں، موسم کا حال دیکھتی ہوں، کالیں اور میسج کرتی ہوں، وقت دیکھتی ہوں، نمازوں کے اوقات، فیس بک اور انسٹا گرام اور گوگل بھی کبھی کچھ معلومات کے لیے چیک کرنے کے لیے استعمال کرتی ہوں‘‘۔

میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے اسمارٹ فون سے کتنی ہی چیزیں چیک کر لیتی ہوں ۔ ’’ یہ بھی کوئی ایسے کام ہیں جس کے لیے آپ نے اتنا مہنگا اسمارٹ فون رکھا ہوا ہے، اس سے زیادہ تو اسمارٹ فون ہم لوگو ں کے ملازمین استعمال کر لیتے ہیں‘‘ ۔

میں اکثر آج کل کے نوجوانوں سے، بات چیت میں حسب عادت سوال پوچھ لیتی ہوں کہ وہ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ جب یہ سوال آج کل کے نوجوانوں سے پوچھو تو زیادہ ترکہتے ہیں کہ کوئی بھی نہیں.

 

میں حیرت سے دیکھتی ہوں اور اگلا سوال کرتی ہوں کہ آخری کتاب کب اور کون سی پڑھی تھی، اس کے جواب میں علم ہوتا ہے کہ کسی نے سالوں سے کوئی نئی کتاب نہیں پڑھی اور زیادہ تر، لگ بھگ نوے فیصد نوجوانوں کا جواب ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ ، پوری زندگی میں کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔

نوجوانوں میں اور ہم میں عمر کی تفریق اور خیالات کے تضادکی وجہ سے فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان سے بات کرنے کے لیے مجھے تو یہ سوال پوچھنے کی اس لیے عادت ہے کہ ہماری عمر کے اس دور میں یہ سوال عام بھی ہوتا تھا اور متوقع بھی، اس دور میں اخبار اور کتاب ہی معلومات کا ذریعہ بھی تھیں اور تفریح بھی۔

ہم ایک کتاب یا رسالہ پڑھ کر بلکہ چاٹ کر ختم کرتے تھے اور دوسرے کو شروع کر دیتے تھے، سب بہن بھائی اس لت میں مبتلا تھے اور ہر نئی کتاب ہمارے ہاتھوں میں گردش کرتی پائی جاتی، ایک پڑھتے پڑھتے وقفہ کرتا تو دوسرا اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتا۔

ہمارے پاس اپنے پیسے کا بہترین مصرف ہوتا تھا کہ اپنے لیے کتابیں خرید لیں، بہن بھائیوں کو آپس میں تحائف دینے کے لیے بھی ہمیں کچھ نہیں سوچنا پڑتا تھا کیونکہ ہمارے آپسیں تحائف بھی کتابیں ہی ہوتی تھیں۔ یہ عادت ایسی چپکی ہوئی ہے کہ آج تک اس نے جان نہیں چھوڑی، نہ لیپ ٹاپ پرکچھ پڑھنے کا مزہ آتا ہے، نہ فون پر، نہ ٹیبلیٹ پر اور نہ ہی کنڈل پر۔

نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی ہر موقع پر نئی کتاب تحفتاً دینے کی پختہ عادت ہے۔ جب اپنی آرڈر کی ہوئی کتابیں گھر بیٹھے مل جائیں یا دکان سے خرید کر لائیں تو پھر دل جلد از جلد فرصت کے محات ڈھونڈتا ہے، جب وقت ملے اور کتاب کو کھول کر اسکے نئے نکور اوراق کی خوشبو کو نتھنوں سے اتارا جائے اور ان پر ہاتھ پھیر کر کاغذکی خستگی کو محسوس کیا جائے۔

کتابوں کی دکان پر جا کر دل اسی طرح اب بھی دھڑکتا ہے جس طرح چھوٹے بچوں کا کھلونوں کی دکان پر جا کر۔ گھر میں جہاں جہاں بیٹھنے کی جگہیں ہیں، وہاں وہاں وہ کتابیں رکھی ہوتی ہیں جو میرے زیر مطالعہ ہوتی ہیں۔ جوں جوں لگتاہے کہ ساری کتابیں پڑھی جا چکی ہیں، ساتھ ہی نئی خریداری کی فہرست بننا شروع ہو جاتی ہے۔

کتا ب کا رومانس سب سے اچھا رومانس ہے کہ وہ آپ سے توجہ کے علاوہ کچھ نہیں مانگتی۔ کتنا بھی طویل انتظار کیو ں نہ ہو، کتاب کے ہوتے آپ کی ساری کوفت ختم ہو جاتی ہے اور گھنٹے منٹوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کتابوں کے صفحات کی پہلی بارکھلنے کی خوشبو، ادھ کٹے صفحات کو کاغذ تراش سے کاٹنے کا عمل، کتاب میں رکھنے کے لیے نت نئے اور پر کشش بک مارک کی خریداری، رات دیر تک پڑھ کر سرہانے تلے کتاب رکھ کر سوجانا اور خوابوں میں اسی کتاب کے جزیروں میں گھومنا، کتاب ادھار لے کر پڑھنا، ا چھی اور قیمتی کتابوں کے لیے کئی مہینوں تک رقم جوڑ جوڑ کر رکھنا یا بہن بھائیوں کا مل کر چندہ کرکے کتاب خریدنا اور پھر باریاں طے کرنا کہ کون پہلے کتاب پڑھے گا۔

ہم تو کورس کی کتابوں کو بھی گھول گھول کر پڑھتے اور کئی کئی بار پڑھتے تھے کہ زبانی یاد ہو جاتی تھیں۔ آج کل کے بچے اس رومانس کو کیا جانیں اور اس سے اگلی نسل تو شاید کتاب کو ایک انٹیک چیز سمجھے گی، حیران ہو گی کہ اس کا مصرف کیا تھا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسمارٹ فون کتاب پڑھ سوال کیا فون پر کیا آپ کون سی کے لیے

پڑھیں:

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251115-03-4

 

عارف بہار

ساڑھے تین دہائیاں قبل ہم نے پاکستان کے سیاسی حالات پر لکھنے کا آغاز کیا تو شاید ابتدائی ہی تحریر وں میں علامہ اقبال کا یہ مصرع لکھا ہوگا کہ ’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘۔ برسوں بعد آج بھی پاکستان کے حلیے رنگ ڈھنگ منصوبہ بندی آگے بڑھنے کی تمنا اور مسائل سلجھانے کی حکمت عملی کا جائزہ لیں تو یہی مصرع یاد آتا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے وقت تھم کر رہ گیا ہو۔ پرانے اخبارات کی فائلیں کھنگالیں تو اندازہ ہوتا ہے بیتی ہوئی دہائیوں کا نہیں کل کا اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ایڈہاک ازم اور کسی وقتی ناگزیر ِاعظم کی چھاؤں میں تھوڑی دیر سستانے کے لیے پالیسیاں تشکیل پاتی ہیں۔ پھر وقت کا دھارا بہہ جاتا ہے اور اپنے دور کا ناگزیر اعظم منظر سے ہٹ جاتا ہے تو اس کی ساری پالیسیاں ردی کی ٹوکری میں ڈال جاتی ہیں اور نئے نعروں اور نئے خوابوں کا ٹھیلہ سج جاتا ہے۔ پاکستانی اس ٹھیلے کے گرد جمع ہو کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ان کی منزل آگئی مگر حقیقت میں ان کی منزل کچھ اور دور ہو چکی ہوتی ہے۔

خدا جانے کس بدبخت نے پاکستان کو بے سمتی کی بددعا دی تھی کہ ہم قومی طور پر اپنی سمت ہی بھول بیٹھے ہیں۔ وقت ِ قیام سجدے میں گرجاتے ہیں اور سجدے کے وقت قیام کے لمحات طویل کر تے چلے جاتے ہیں۔ نظریۂ ضرورت ہمار قومی نظریہ ہے۔ ضرورت کے تحت قانون بنانا قانون بدلنا فیصلہ کرنا ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ حد تو یہ قرارداد مقاصد کے تحت ہم یہ طے کر بیٹھے کہ اس ملک کے خدوخال اسلامی اقدار پر مبنی ہیں۔ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اسی سوچ کا آئینہ دار تھا۔ پھر ایک مقام پر اس ملک کی سیاسی قیادت نے سرجوڑ کر ایک ایسا آئین تشکیل اور ترتیب دیا کہ جس کا مجموعی رنگ اسلامی اور پارلیمانی تھا۔ کبھی اس آئین کی قطع وبرید کا عمل جاری رہا تو کبھی کوئی صاحب یہ کہتے پائے گئے کہ آئین منسوخ نہیں ہوا بلکہ معطل ہوا ہے۔ اپنے دور کے یہی ناگزیر اعظم فرماتے تھے کہ آئین کیا ہوتا کاغذ کا ایک ٹکڑا۔ یوں قوم کی اجتماعی دانش کا نتیجہ یعنی آئین پاکستان ہمیشہ سے بازیچہ ٔ اطفال ہی بنا رہا۔ یہ وہی آئین ہے جس کے بارے میں قادیانیوں کے پچھلے روحانی پیشوا مرزا طاہر کے یہ الفاظ آج بھی انٹرنیٹ پر سنے جا سکتے ہیں کہ ’’پاکستان اور موجود آئین ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ آئین باقی رہا تو پاکستان باقی نہیں رہے گا‘‘۔

آئین پاکستان کے ساتھ ان کی یہ پرخاش تو قابل فہم تھی ہی مگر طاقت کے کھلاڑیوں کو بھی اس آئین سے ہمیشہ جلن سی محسوس ہوتی رہی۔ ہونا بھی چاہیے کہ مہذب معاشروں میں آئین کھیل کے اصول اور مختلف مراکز کے درمیان مختلف دائرے قائم کرتا ہے۔ کسی کو کسی دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں اس آئین کی تشکیل کا یہ کمال کیسے ہوگیا؟ شاید یہ وہ مختصر دور تھا جب معاملات پر سیاست دانوں کا کچھ کنٹرول تھا اور ان سے بڑے طاقت کے کھلاڑی کچھ تنہا اور کچھ تھکے تھکے سے دکھائی دیتے تھے۔ فاول پلے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے طاقت کے بے آئین کھیل میں ہم نے ون یونٹ تشکیل دے دیا۔ مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان وسائل میں حصہ بقدر جثہ وصول نہ کر سکے۔ حق مانگنے والوں کے حق کے انکار کے لیے ہم کس حد تک جاتے ہیں ون یونٹ کے قیام کے پیچھے ذہنیت سے اس اندازہ ہو سکتا ہے۔

جدید اور مہذب ریاستیں کچھ اداروں اور علامتوں سے تشکیل پاتی ہیں۔ ریاستوں کو بس چلانا ہی مقصود ہو تو اس کے لیے یوں بھی کسی ضابطے قاعدے یا دستور العمل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ بس اپنے دور کے حاکم کا فرمان ہی اس کا دستور العمل ہوتا ہے۔ ریاستیں عوام اور مختلف النوع اداروں کے قیام سے وجود پاتی ہیں۔ ایسی ریاستیں جنہیں گھڑا گیا ہوا تراشا گیا ہو، بنایا گیا ہو کھیل کے آداب کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسی ریاستوں میں ایڈہاک ازم اور تجربات کو مستقل پالیسی کے طور پر اپنایا نہیں جاتا۔ اس کا خمیازہ اکہتر میں ہم بھگت چکے ہیں۔ آج کے پاکستان میں ادارے ایک ایک کرکے منہدم ہورہے ہیں اور انہدام کی ہر آواز کے ساتھ ہم سجدۂ شکر بجالاتے ہیں کہ ملک مضبوط ہوگیا۔ صحافت کو ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا تھا۔ ایک روز یہ ستون دھڑام سے گرگیا اور اس کی جگہ واٹس ایپ صحافت نے لی ہم نے سمجھا کہ پاکستان مضبوط ہوگیا۔ پھر ایک روز عوام کے فیصلے کے نتیجہ اغوا ہوگیا اور یوں ریاست کا دوسرا ستون مقننہ گرگیا اور عوامی مینڈیٹ کی جگہ فارم سینتالیس کا نظام آیا ہم نے پھر سکھ کا سانس لیا کہ اب عوامی مینڈیٹ کا رُخ اور رنگ بدلنے کا ہنر ہمیں آگیا اور اس سے ملک مضبوط ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں جو انتظامیہ قائم ہوئی وہ بھی گرا ہوا ستون تھا۔ آخر میں عدلیہ کا ستون بھی گرگیا اور اب پاکستان کو مضبوط اور محفوظ بنانے کا سفر تمام ہوا اور یوں ہماری ریاست اداروں کے ملبے پر مضبوط سے مضبوط تر اور خوب سے خوب تر کے سفر پر گامزن ہے۔

عارف بہار

متعلقہ مضامین

  • دنیا کو انسانوں کی ضرورت ہے، سپرپاورز کی نہیں
  • سوڈان میں مفادات کی جنگ، انسانیت کی شکست
  • خامہ خرابیاں
  • کون اللہ میاں
  • کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
  • آئینی دور
  • آئینی عدالت اور عدلیہ کی آزادی
  • کابل سے اسلام آباد تک
  • خدارا ملک و قوم پر رحم کرو!