Express News:
2025-11-13@22:32:07 GMT

آئینی دور

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

حضرت عمر فاروقؓ کا عہد خلافت تاریخ اسلام کا سنہری دور حکومت کہلاتا ہے۔ انھوں نے جہاں ایک طرف فتوحات حاصل کر کے اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع کیا، وہیں انھوں نے ایسا نظام حکومت تشکیل دیا جہاں ہر فرد کے حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔ عدل، انصاف اور احتساب کا ایسا مثالی نظام بنایا کہ آج تک اس کی کوئی نظیر دنیا کا کوئی دوسرا حکمران پیش نہ کر سکا۔

دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم ہر دو مورخین نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ایک یہودی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب "The Hundred" میں تاریخ انسانی کی 100 عظیم ترین شخصیات میں حضرت عمر فاروقؓ کی خدمات کو نمایاں طور پر لکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں ہر فرد کو تنقید اور طلب حقوق کی آزادی دے رکھی تھی۔ ایک دفعہ آپؓ نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ’’ لوگو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں، تو کیا کرو گے؟‘‘ یہ سنتے ہی ایک شخص نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور کہا ’’ تمہارا سر اڑا دوں گا۔‘‘ آپؓ نے آزمانے کے لیے اسے ڈانٹ کر کہا’’ تو امیرالمومنین کی شان میں گستاخی کر رہا ہے۔ تجھے پتا نہیں کہ تُو کس سے بات کر رہا ہے؟‘‘ اس شخص نے اسی جرأت سے جواب دیا’’ ہاں، ہاں میں آپ سے مخاطب ہوں۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’رب کا شکر ہے کہ اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں گے۔‘‘

تاریخ کے اوراق میں ایک مشہور واقعہ ملتا ہے کہ ایک دفعہ آپ مسلمانوں سے خطاب کرنے اٹھے تو ایک بدو کھڑا ہوا اور کہا کہ ’’ میں نہ آپؓ کی بات سنتا ہوں اور نہ ہی اطاعت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے استفسار کیا کہ ’’کیوں؟‘‘ بدو بولا ’’ یمن سے جو چادریں آئی تھیں اس میں سے ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی تھی، اور اس ایک چادر سے آپؓ کی قمیص نہیں بن سکتی، مگر آپؓ نے اس چادر کی قمیص زیب دن کی ہوئی ہے، یقینا آپ نے اپنے حصے سے زائد کپڑا لیا ہے‘‘ اس کا جواب میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ’’ اس کا جواب میرا بیٹا دے گا۔‘‘ آپؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ’’واقعی میرے ابا جان کی قمیص ایک چادر میں نہیں بنتی تھی، (آپؓ خاصے قدآور تھے) میں نے اپنے حصے کی چادر انھیں دی تھی، اس طرح ان کی قمیص بنی۔‘‘

ہمارے دین اسلام کی آفاقی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ حاکم وقت اپنی رعایا کے حقوق کا محافظ ہے، ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنا حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول صادق ہے کہ’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی مرا تو عمرؓ سے اس کا سوال کیا جائے گا۔‘‘ گویا اسلام میں کسی حکمران اور صاحب اختیار حکومتی عہدیدار کو کسی بھی حوالے سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

بعینہ ایک عام شخص بھی حکمرانوں سے باز پرس کر سکتا ہے اور اس کے قول و عمل کے حوالے سے سوال اٹھا سکتا ہے اور حکمران کو ہر صورت جواب دینا پڑے گا۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں قائد اعظم کے متعدد فرمودات ریکارڈ پر ہیں کہ جب بھی ان سے سوال کیا جاتا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو آپ کا جواب ہوتا کہ ’’ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کا دستور بنانے والا، ہمارا دستور تو 13 سو سال پہلے بن گیا، پاکستان میں جو بھی آئین ہوگا قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن و سنت کے دستور کی عملی شکل نافذ کردی ہے جس کے مطابق کسی سرکاری عمال کو اپنے ہر عمل کا عوام کو جواب دینا ہوگا، کوئی سرکاری اہلکار قانون سے مبرا نہیں، بلا تفریق سب کا احتساب قرآن و سنت کی روح کے مطابق لازم و ملزوم ہے اور سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے کوئی قانون سے بالا نہیں اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کا عہد خلافت ہمارے لیے مثال، قرآن و سنت ہمارا دستور اور قائد اعظم کے فرمودات ہمارے پیش نظر لیکن قائد کے پاکستان میں آج کے زعما بڑی شدت سے تاحیات اپنے اعمال کی گرفت سے استثنیٰ کے طلب گار ہیں۔ کیا انھیں نبی کریمؐ کی وہ حدیث یاد نہیں کہ ’’ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ جب ان کا کوئی امیر چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔‘‘

لگتا ہے اکابرین حکومت اسلام کی آفاقی تعلیمات بھول گئے، قرآن و سنت کو مساجد و مدرسوں تک محدود کردیا اور قائد اعظم کے فرمودات کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اسی جلد بازی میں بحث و مباحثہ کے بغیر ایوان بالا سے 27 ویں آئینی ترمیم جبری پاس کروا لی، اب قومی اسمبلی سے بھی منظور کروا لی گئی ہے۔ اپوزیشن کا احتجاج بے معنی اور بعض آئینی و قانونی ماہرین کے اعتراضات اور سوالات تشنہ تعبیر رہیں گے۔

78 سالوں سے وطن عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے، طاقتوروں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے تحفظ کے لیے آئین میں من مانی ترامیم کیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا، کہا جا رہا ہے کہ 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گئی ہے۔ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔ تاحیات استثنیٰ سے احتساب کا تصور ختم ہو جائے گا۔ کیا آنے والے حکمران اسے قبول کر لیں گے یا ایک نیا آئینی پنڈورا باکس کھل جائے گا؟ کاش کہ ہمارے حکمران اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سمجھ لیتے اور حضرت عمرؓ کے عہد زریں سے رہنمائی حاصل کر لیتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق کی قمیص نے اپنے رہا ہے

پڑھیں:

چرچل کا انجام، زرداری کا انعام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-5

 

عبید مغل

وہ لمحہ جب لندن کی فضا میں دھواں، چیخیں اور بموں کی گونج تھی۔ تب اْس کے الفاظ اہل ِ برطانیہ کے دلوں میں حوصلے کے چراغ جلا رہے تھے۔ وہ ونسٹن چرچل تھا۔ ایک ایسا سیاستدان جس نے اپنی زبان کو تلوار، اور اپنے عزم کو ڈھال بنا لیا۔ جب ساری دنیا سمجھ چکی تھی کہ نازی لشکر برطانیہ کو نگل جائے گا، تب اْس نے کہا: ’’ہم ساحلوں پر لڑیں گے، کھیتوں میں لڑیں گے، مگر ہار نہیں مانیں گے!‘‘ اْس کے یہ الفاظ لندن کی ویران گلیوں میں گونجے۔ ملبے تلے دبے لوگ بھی ایک دوسرے سے کہنے لگے: ’’ہم ہار نہیں مانیں گے!‘‘ چرچل نے اپنی قوم کو ہار سے بچا لیا، مگر وہ خود ووٹ کی طاقت سے ہار گیا۔

جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تو برطانیہ بچ گیا، مگر 26 جولائی 1945ء کے عام انتخابات نے وہ منظر دکھایا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یعنی برطانوی عوام نے اپنے ہیرو کو سلام تو کیا، مگر اقتدار اس سے چھین لیا۔ لیبر پارٹی کا کلیمنٹ ایٹلی وزیراعظم بنا اور چرچل اپنے گھر لوٹ گیا۔ خاموش، مگر سر بلند۔ یہ واقعہ جمہوریت کی معراج تھا۔ برطانوی قوم نے بتادیا کہ ہیرو کا احترام الگ، قانون کی بالادستی الگ ہے۔ جمہوریت تاج نہیں جو کسی کے سر پر ہمیشہ کے لیے رکھا جائے۔ یہ امانت ہے جو صرف عوام کی مرضی سے دی جاتی ہے۔ چرچل نے اپنی فوج کی فتح کے باوجود خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھا اور باشعور عوام نے بھی اْسے تخت سے اُتار کر یہ پیغام دیا کہ قومیں اس وقت زندہ ہوتی ہیں جب وہ اپنے محبوب رہنما کو بھی قانون کے دائرے میں رکھیں۔

اب ذرا ہم اپنی سرزمین پر نظر ڈالیں جہاں ایک صاحب نے دوسری جنگ عظیم کی طرح کوئی جنگ تو نہیں جیتی مگر وہ آئین میں اپنے لیے دائمی تحفظ کے تمغے اپنے سینے پر سجانے کے خواہش مند ہیں۔ اقتدار سے چمٹے رہنے والے ہمارے رہنما یہ بھول گئے ہیں کہ جب حکمران عوام سے کٹ جاتے ہیں، تو پھر کوئی آئین اْنہیں تاحیات بچا نہیں سکتا۔ کیونکہ جو لوگ آج ان کے لیے ستائیسویں ترمیم منظور کرواتے ہیں، وہی کل اٹھائیسویں ترمیم لا کر ان تمام مراعات اور قانونی تحفظات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ قوموں کی تاریخ میں عزت اْنہیں ملتی ہے جو عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، نہ کہ اْنہیں جو آئین سے بالاتر اور قانون سے محفوظ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چرچل جنگ جیت کر بھی قانون کے سامنے سر جھکا گیا اور ہمارے یہاں یہ رہنما مقدمات میں گھر کر بھی قانون سے بھاگنا چاہتے ہیں۔

یہ وہ فرق ہے جس نے ایک قوم کو دنیا کی جمہوریت کا قائد بنا دیا،اور دوسری کو مراعات یافتہ اور اور مفاد پرستوں کا غلام۔ کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ پاتے کہ جمہوریت اْن کے نام پر نہیں، اْن کے کردار پر زندہ رہتی ہے۔ اور وہ دن کسی بھی قوم کے لیے سب سے اندوہناک ہوتا ہے جب اس کا قانون کمزور اور حکمران ناقابل ِ گرفت ہو جائے۔ چرچل کا انجام جمہوریت کی سربلندی تھا، اور زرداری کا انعام قانون کی بے بسی۔ یہی فرق ہے ایک نے قوم کو تاریخ کا فخر دیا، دوسرا تاریخ کو شرمندگی کا ایک اور باب دینے کا خواہش مند ہے۔

عبید مغل

متعلقہ مضامین

  • تربیت و حقوق اطفال کے اسلامی احکامات
  • اگر کوئی رکن اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینا چاہتا ہے تو اس کا ووٹ شمار ہونا چاہیے، اسحاق ڈار
  • دہشتگردی قبول نہیں، پہلے کی طرح آپ کو منہ توڑ جواب ملے گا، وزیراعظم کا افغانستان کو واضح پیغام
  • 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس محسن اختر کیانی کے دلچسپ ریمارکس
  • میری جلد پاکستان کی مٹی کے رنگ کی ہے:مس یونیورس پاکستان روما ریاض کا ناقدین کو دوٹوک جواب
  • عوام کی حکومت، خواب یا حقیقت
  • چرچل کا انجام، زرداری کا انعام
  • جمہوریت کی دعویدار نام نہاد سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا ہی بستر گول کر ڈالا، عدنان ڈوگر 
  • شاہد آفریدی کا سیاست میں آنے سے متعلق سوال کا مبہم جواب