data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251112-03-2
روشنیوں کا شہر کراچی، حکمرانوں کی نااہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے، چھوٹی بڑی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں، انفرا اسٹرکچر تباہی سے دوچار ہے، اسٹریٹ کرائم عروج پر ہیں، عوام پانی جیسی بنیادی ضرورت تک سے محروم ہیں۔ رہی سہی کسر ریڈ لائن منصوبے کی تکمیل میں تاخیر نے پوری کردی ہے، یونیورسٹی روڈ کو انتظامی غفلت اور منصوبوں کی سست روی نے اسے شہریوں کے لیے نا قابل استعمال بنا دیا ہے، اب اطلاع آئی ہے کہ ریڈ لائن منصوبے کے ساتھ ساتھ 2 ماہ تک پانی کی لائنیں بچھانے کے لیے نیپا سے حسن اسکوائر تک تقریباً ڈھائی کلو میٹر کے قریب 96 اور 172 انچ قطر کی پانی کی لائنیں بچھائی جائیں گی اور یہ منصوبہ واٹر اینڈ سیوریج امپروومنٹ پروجیکٹ کے تحت رواں سال 30 دسمبر تک مکمل کیے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی کام کے آغاز سے قبل حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی اور حکمت عملی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے شہری سخت ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں، یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن بس منصوبے کی تعمیر کی وجہ سے یہ سڑک پہلے ہی تباہی سے دوچار ہے اب 2 ماہ کی بندش سے صورتحال مزید گمبھیر ہوجائے گی جس کا حکومت کو قطعاً احساس نہیں، متبادل راستے بنائے بغیر اہم شاہراہ کی بندش نااہلی اور بد انتظامی ہی نہیں بلکہ کھلی حماقت ہے، کراچی کے عوام کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ سلوک عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، حکومت کو اس کا ادراک کرنا چاہیے اور شہریوں کو درپیش مسائل و مشکلات کے ازالے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حکومتِ سندھ کی جانب سے ای چالان اور مزدور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں صوبہ سندھ کا سب سے زیادہ کما کر دینے والا شہر کراچی ایک ایسا عظیم الشان شہر ہے کہ جسے طرح طرح سے لوٹا جارہا ہے اور تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اب یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے کہ دورِ جدید کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس شہر لاوارث کو لوٹنے کے نئے نئے دھندے متعارف کروائے جارہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نیا طریقہ جو کہ ای چالان کے نام سے رائج کیا گیا ہے اس کے بنیادی مقاصد بہت اچھے ہیں لیکن نمبر پلیٹس کے لولی پاپ کی طرح یہ طریقہ بھی فلاپ ہوتا نظر آرہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر عوام الناس اور خصوصاً مزدور طبقے کو اس معاملے میں بَلِی کا بکرا بنایا جارہا ہے اور خواص پر کوئی چالان نہیں۔ ٹھیک ہے آپ عوام کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کی کوشش میں یہ نئی نئی اسکیمیں لارہے ہیں مگر قبلہ اپنے گریبان میں بھی پھر جھانکیں کہ آپ خود کو پھر اس عمل سے بری الزمہ کیوں سمجھتے ہیں۔ اب تک کسی گورنمنٹ نمبر پلیٹ کی گاڑی کا چالان کیوں نہیں ہوا جو کہ زیادہ تر سڑکوں پر ریش ڈرائیونگ کرتی نظر آتی ہیں جبکہ جائز طریقے سے نمبر پلیٹ رجسٹر کروانے والوں کی درخواست پر 4 ماہ گزر جانے کے باوجود عمل درآمد نہ ہوسکا اور وہ مزدور اپنی موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ نہ حاصل کر سکے۔ پھر چلیں اگر صوبہ سندھ میں آپ کوئی قانون لگا رہے ہیں تو اس قانون پر اطلاق صرف کراچی پر ہی کیوں؟؟؟ اندرونِ سندھ سے کتنے چالان ہوئے وہاں پر نہ تو نمبر پلیٹ کے حوالے سے چالان ہورہا ہے اور نہ ہی کوئی ای چالان جیسی کوئی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ بجلی، گیس، پانی کے بلوں سے مجبور عوام اور مزدور یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان کی غلطی یہ ہے کہ وہ لٹیروں، وڈیروں، جاگیرداروں، اور عوام دشمن لوگوں کی غلامی کرنے والی حکومتوں کو کب تک اپنے کندھوں پر اُٹھائے پھریں؟ کراچی کی عوام جو کہ پورے پاکستان کو کما کر ٹیکس کی صورت میں کھلا بھی رہی ہے اور مختلف علاقوں سے کراچی میں آئے ہوئے لوگوں کے گھروں کے چولہے بھی جلا رہی ہے اس کو نہ تو بجٹ میں کوئی ریلیف دیا گیا ہے اور آئے دن بجلی گیس پانی کے بلوں میں طرح طرح سے اضافہ کر کے پوری پلینگ کے ساتھ لوٹا بھی جارہا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو غریب مزدور اگر وقت پر ای چالان جمع نہ کرواسکا تو اس کا شناختی کارڈ بلاک کرنے کی واضح دھمکی بھی دی گئی ہے۔ کمال ہے! مطلب چت بھی میری پٹ بھی میری ٹھلو میرے باپ کا۔ کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجے کہ آپ کی اپنی کیا پرفارمنس ہے کہ سڑکیں پوری کراچی میں جگہ جگہ ٹوٹی پڑی ہیں اور اس ای چالان کے باوجود ہر چوراہے پر ناکہ لگائے ہوئے آپ کے سپوت ٹھیلے والے مزدوروں سے اور عوام سے لوٹ مار کر رہے ہیں وہ آپ کے لگائے کیمروں میں کیوں نظر نہیں آتا ؟؟؟ عوام کو لوٹنے والے ڈکیت کی بائیک کی نمبر پلیٹیں آپ کو کیوں نہیں دکھتیں؟؟؟ اے ٹی ایم سے عوام کا پیسہ لوٹنے والے کیوں نہیں دکھتے ان کیمروں میں؟؟؟ جیل سے فرار ہونے والے قیدی کیوں نہیں دکھتے ان کیمروں میں؟؟؟ مطلب پاکستان سے سب کچھ کوٹ کر فرار ہو جانے والے ان کیمروں میں کیوں نہیں دکھتے ؟؟؟ انڈر دا ٹیبل رشوتیں لینے والے گورنمنٹ آفیسرز کیوں نہیں دکھتے ان میں؟؟؟ گریڈ بڑھانے کے لیے رشوت دینے اور لینے والے نہیں دکھتے؟؟؟ مطلب یہ کیمرے صرف کمزوروں کو ہی دیکھنے کے لیے لگائے گئے ہیں خدارا ظالموں کے لیے بھی کچھ نظرثانی کیجیے ان کیمروں کے حوالے سے۔ اللہ کے عذاب سے ڈریں اور قانون کی پاسداری خود بھی کریں صرف غریب مزدوروں کو نہ گھسیٹیں۔ غریب مزدور محترم چیف جسٹس صاحب سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ قانون سب کے لیے لاگو کروائیں اور عوام کی زندگی اجیرن کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیں۔ اللہ تعالیٰ حکومت سندھ کو غریبوں کی آہیں لینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین