Express News:
2025-11-11@23:53:22 GMT

عوام کی حکومت، خواب یا حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

انسانی تاریخ اقتدارکی ایک طویل داستان ہے۔ کبھی ایک شخص تخت پر بیٹھ کر خود کو خدا کا سایہ کہلاتا تھا، کبھی بادشاہت نے عوام کے خون سے اپنے محل تعمیرکیے۔ کبھی پادریوں نے مذہب کے نام پر حکومت کی تو کبھی جرنیلوں نے بندوق کے زور پر۔ کبھی جاگیرداروں کے دربار لگے تو کبھی سرمایہ داروں کے بورڈ روموں میں فیصلے ہوئے۔ مگر ان سب میں جو ایک خواب ہمیشہ زندہ رہا، وہ تھا عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔

تاریخ کے آغاز میں انسان نے جبر کے مقابلے میں انصاف کی تلاش کی۔ قبائلی نظاموں میں مشورہ ہوتا تھا مگر طاقت پھر بھی چند ہاتھوں میں مرتکز رہتی۔ بادشاہت نے ہزاروں سال تک انسان کو رعایا بنا کر رکھا۔ پھر یورپ میں بادشاہت کے خلاف بغاوتیں ہوئیں۔ انقلابِ فرانس نے نعرہ لگایا، مساوات ،آزادی، بھائی چارہ۔ روس کے انقلاب نے مزدور اور کسان کو بتایا کہ تخت الٹ بھی سکتا ہے۔ انقلابات نے زمین ہلا دی مگر سوال باقی رہا، اقتدار آخرکارکس کے ہاتھ میں ہے؟

 آج ہم کہتے ہیں، دنیا میں جمہوریت ہے، مگر یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ووٹ عوام کا ہوتا ہے اور حکومت سرمایہ داروں کی بنتی ہے، یہ کیسی آزادی ہے، جہاں اخبار چھپتا تو ہے مگر سچ بولنے والے صحافی جیل جاتے ہیں ، یہ کیسی پارلیمان ہے جہاں مزدوروں کے لیے کوئی آواز نہیں مگر ایک سرمایہ دارکی پہنچ ہر وزیر اور مشیر تک ہے اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر یہ عوام کی نہیں سرمایہ کی جمہوریت ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ دنیا نے بہت سی حکومتیں دیکھی ہیں، بادشاہت، آمریت، مذہبی حکومت، فوجی حکومت اور اب سرمایہ دارانہ جمہوریت۔ ہر نظام نے اپنے دعوے کیے، اپنے نعرے لگائے مگر اکثریت کے ہاتھ ہمیشہ خالی رہے۔ وہ اکثریت جو دن رات کام کرتی ہے، جو زمین جوتتی ہے ،جوکارخانے میں پسینہ بہاتی ہے، وہی محروم رہی۔ اقتدار کا جھوٹا تاج ہمیشہ اقلیت کے سر پر سجا رہا۔لیکن ایک تصور ایسا بھی ہے جس نے صدیوں سے انسان کے دل میں امید کی شمع جلائی ہوئی ہے، عوامی جمہوریت یعنی وہ نظام جہاں فیصلے بند دروازوں کے پیچھے نہیں، عوامی اجتماع میں ہوتے ہیں۔ جہاں اقتدار 2 فیصد کے پاس نہیں بلکہ 98 فیصد کے ہاتھ میں ہو۔ جہاں حکومت محلات میں نہیں بلکہ محلوں میں بیٹھ کر عوام کے دکھ سنتی ہو۔

جہاں تعلیم، صحت روزگار اور انصاف کسی کا عطیہ نہیں بلکہ بنیادی حق ہو۔یہی وہ جمہوریت ہے جسے ہم عوام کی جمہوریت یا پیپلز ڈیموکریسی کہتے ہیں۔ یہ وہ خواب ہے جو روس، چین ،کیوبا، ویتنام اور دیگر ممالک میں کبھی کبھی حقیقت کے قریب پہنچا۔ مگر سرمایہ داری کے عالمی جال نے ان تجربات کو بھی کمزورکرنے کی کوشش کی۔ جب عوام اپنے حق کے لیے اٹھتے ہیں تو ان پر پابندیاں لگتی ہیں۔ ان کے لیڈروں کو ’’غدار‘‘ کہا جاتا ہے اور ان کی تحریکوں کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے، مگر تاریخ کا پہیہ ہمیشہ جبر کے خلاف چلتا ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت نے ہمیں انتخاب کا حق دیا، مگر اختیار نہیں۔ ہمیں رائے دی، مگر اثر نہیں۔ ہمارے ووٹ کے بدلے ہمیں وعدے ملے، روزگار نہیں۔ ہمارے خواب بیچے گئے، امیدیں لوٹی گئیں۔ جب کوئی مزدور اپنی تنخواہ مانگتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ نظام کی مجبوری ہے، مگر جب ایک کارپوریٹ گروپ خسارے میں جاتا ہے تو حکومت اس کے لیے اربوں کا پیکیج لے آتی ہے۔ یہ کیسی مساوات ہے؟

جمہوریت کا حسن اس وقت ہے جب وہ محض انتخابات تک محدود نہ رہے بلکہ معیشت، تعلیم، صحت، زمین اور وسائل کی تقسیم تک پھیلے۔ اگر فیکٹری میں مزدورکی آواز سنی نہیں جاتی، اگر کسان کو اپنی فصل کا پورا معاوضہ نہیں ملتا، اگر عورت اپنے حق کے لیے خوف زدہ ہے اگر طالب علم کتاب کے بجائے بھوک سے لڑ رہا ہے تو پھر یہ جمہوریت نہیں دکھاوا ہے۔

عوامی جمہوریت کا مطلب ہے کہ اقتدار ان ہاتھوں میں ہو جو روز صبح مزدوری پر جاتے ہیں ان عورتوں کے ہاتھ میں جو گھر اور سماج دونوں سنبھالتی ہیں ان نوجوانوں کے ہاتھ میں جو اپنے مستقبل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ نظام صرف ووٹ سے نہیں شعور سے بنتا ہے۔ جب عوام یہ سمجھ جائیں کہ ان کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھ میں ہے تب ہی سچی جمہوریت جنم لیتی ہے۔

آج جب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر چمک کے باوجود زوال کی طرف بڑھ رہا ہے جب دولت چند افراد کے قبضے میں سمٹ رہی ہے جب جنگیں وسائل کی لالچ میں لڑی جا رہی ہیں، تو اس وقت عوامی جمہوریت کا خواب پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ یہ خواب صرف سیاست نہیں ایک انسانی ضرورت ہے۔

شاید ایک دن وہ وقت آئے جب کوئی بچہ بھوک سے نہ مرے جب کوئی مزدور بے روزگار نہ ہو جب عورت اپنی آواز بلند کرے اور کوئی اسے خاموش نہ کرا سکے۔ شاید ایک دن وہ وقت آئے جب ووٹ کا مطلب صرف بیلٹ باکس نہ ہو بلکہ عزت، روزگار اور انصاف ہو۔ تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہاں، اب عوام کی حکومت ہے اور یہی ہے اصل جمہوریت۔یہ خواب شاید آج دور ہے مگر ناممکن نہیں،کیونکہ جب 98 فیصد بیدار ہوں گے تو تاریخ کے تخت و تاج ہل جائیں گے اور زمین پر پہلی بار انسانیت کی حقیقی حکومت قائم ہو گی عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔

عوامی جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم عام ہو کیونکہ تعلیم ہی وہ بنیاد ہے جس پر شعورکی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ایک ناخواندہ معاشرہ ہمیشہ آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انصاف کا نظام بھی سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے، اگر قانون کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ ہو تو پھر ریاست عوامی نہیں رہتی بلکہ چند مفاد پرستوں کا آلہ بن جاتی ہے۔

عوامی جمہوریت دراصل ایک اخلاقی اور سماجی انقلاب کا نام ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ جب استاد علم کو بیداری کا ذریعہ بنائے جب مزدور اپنے حق کے لیے منظم ہو جب عورت اپنے وجود کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھے جب نوجوان خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے عملی قدم اٹھائے۔ تب ہی وہ دن آئے گا جب اقتدار واقعی عوام کے ہاتھوں میں ہوگا اور جمہوریت محض نعرہ نہیں بلکہ زندہ حقیقت بن جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عوامی جمہوریت عوام کی حکومت کے ہاتھ میں جمہوریت ہے نہیں بلکہ جاتا ہے یہ کیسی عوام کے میں ہو کے لیے

پڑھیں:

بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط

27ویں آئینی ترمیم پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے۔ جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے۔

اپنے خط میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابل معافی جرم تھا، بےنظیر بھٹو، نواز شریف، مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والا سلوک اسی جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو عوامی اعتماد حاصل کرنے پر نشانہ بنایا گیا، بہادر ججز کے خط اور اعتراف سپریم کورٹ کے ضمیر پر بوجھ ہیں، ‏ہم سچ جانتے ہیں مگر صرف چائے خانوں میں سرگوشیوں تک محدود ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج نے یہ بھی کہا کہ جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، جو جج نہیں جھکتا، اس کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’’وہ خدا ہو گئے دیکھتے دیکھتے‘‘
  • یونیورسٹی روڈ کی بندش
  • آج سوگ کا دن، 27ویں ترمیم کے بعد جمہوریت برائے نام رہ جائے گی، بیرسٹر گوہر
  • بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
  • کِم کارڈیشیئن کا وکیل بننے کا خواب، خواب ہی رہ گیا
  • پیپلزپارٹی عوامی حقوق کے تحفظ کیلیے اپناکردارادا کرتی رہے گی، عبدالجبار
  • حکومتِ سندھ کی جانب سے ای چالان اور مزدور
  • غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت
  • خطے کے وسائل اور اختیارات اسلام آباد منتقل ہونے نہیں دینگے، سائرہ ابراہیم