27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سامنے زیرِالتوا ہے جہاں درخواست گزار اس کی سماعت فل کورٹ کے سامنے چاہتے ہیں، لیکن اب یہ معاملہ شاید آئینی بینچ کی حدود سے نکل کر وفاقی آئینی عدالت کے سامنے چلا جائے بشرطیکہ 27 ویں آئینی ترمیم اگر دونوں ایوانوں سے منظور ہو جاتی ہے۔
وی نیوز نے اس ترمیم پر رائے کے لیے ریٹائرڈ جج صاحبان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم بنیادی طور پر ماضی قریب میں عدلیہ کے اختیارات سے تجاوز اور ان کے غلط استعمال کا ردعمل ہے لیکن یہ عوامی مفاد کی کوئی ترمیم نہیں۔
مزید پڑھیں: سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی
’ہاں ایک چیز مثبت ہے کہ کہ آئینی معاملات سے متعلق مقدمات سننے کے لیے علیحدہ عدالت کا قیام ہو رہا ہے، اِس سے پہلے سیاسی مقدمات کی وجہ سے عام لوگوں کے مقدمات نہیں سنے جاتے تھے۔‘
27 ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے اندر سے وکلا اور جج صاحبان کا ردعمل بھی سامنے آ گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط میں لکھا ہے کہ نئی وفاقی آئینی عدالت کا قیام کسی اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ یہ عدلیہ کو کمزور اور بے اختیار کرنے کا ایک سیاسی حربہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ وفاقی آئینی عدالت میں ججوں کی تعیّناتی آئینی پیرامیٹرز کے بجائے انتظامیہ کے پاس چلی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب انتظامیہ عدلیہ کو کنٹرول کر سکے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس کو تجویز دی ہے کہ موجودہ انتظامیہ کے ساتھ بات کریں اور کہیں کہ عدلیہ سے مشاورت کے بغیر کوئی ترمیم نہیں لائی جا سکتی۔
’سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ بلائی جائے یا تمام آئینی عدالتوں کے ججوں کا کنونشن منعقد کیا جائے۔ آپ کا چیف جسٹس کے عہدہ صرف انتظامی عہدہ نہیں بلکہ آئین کے محافظ کے کردار کا تقاضا کرتا ہے۔‘
اس سے قبل سابق ججز جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم اور جسٹس ریٹائرڈ ندیم اختر اور سپریم کورٹ کے وکلا فیصل صدیقی، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد نے ایک مشترکہ خط میں چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچارہے، کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، ماضی میں ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہوئی، اگر آپ متفق ہیں یہ پہلی کوشش ہے تو ردعمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔
انتظامیہ نے عدلیہ کو شکجنے میں جکڑ لیا ہے، عباد الرحمان لودھیلاہور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس (ریٹائرڈ) عباد الرحمان لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اِس وقت انتظامیہ نے عدلیہ کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے، عدلیہ کی آزادی رہی کہاں ہے جس کی حفاظت کی جائے، لیکن ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب تمام حکومتی معاملات بینچ نمبر ون سے چلائے جاتے تھے۔
’صبح تمام آئی جیز، ڈی آئی جیز، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے چیمبر میں حاضری دیتے، وہاں سے احکامات جاری ہوتے اور پھر بیورکریٹس بینچ نمبر ون میں پیش ہوتے اور ان کو بے عزت کیا جاتا۔‘
انہوں نے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار کے دور میں بھی یہی کچھ ہوا، عدلیہ کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا گیا، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ عباد الرحمان لودھی کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی نے اِس پر اپنی اپنی متعلقہ وزارتوں کو باقاعدہ نوٹس لکھے کہ ہمارے ساتھ اِس قسم کا تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کے اندر ایک غصہ اور لاوہ پک رہا تھا، اور اب تو جو نئی وفاقی آئینی عدالت بننے جا رہی ہے اس میں صدر اور وزیراعظم مِل کر چیف جسٹس کا انتخاب کریں گے اور وہ آگے مزید 6 ججز کا انتخاب کرے گا۔
’مطلب من پسند ججز لگائے جا سکیں گے، یہ عدالت آئین کی تشریحات کرے گی مطلب آئین حکومت کے تابع ہو جائے گا۔ باقی کی سپریم کورٹ کے پاس طلاق، نکاح، تجاوزات یہ والے مقدمات ہی رہ جائیں گے۔‘
ہماری عدالتیں حد سے زیادہ سیاسی ہوگئی تھیں، مدثر خالد عباسیلاہور ہائیکورٹ کے سابق جج مدثر خالد عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی محرّک ہوتا ہے۔ ہماری عدالتیں حد سے زیادہ سیاسی ہو گئی تھیں، وہ سیاست میں زیادہ دلچسپی لینے لگ گئی تھیں تو ایسا ردعمل فطری تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں عدلیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس ترمیم میں ایک بات مثبت ہے کہ آئینی یا سیاسی مقدمات کے لیے الگ عدالت بنا دی گئی ہے۔ اس سے پہلے سیاسی مقدمات آگے نکل جاتے تھے اور عام لوگوں کے جائیداد اور کریمنل کیسز سے متعلق مقدمات پیچھے رہ جاتے تھے۔
’اب کم از کم یہ ہوگا کہ عدالتیں یکسوئی کے ساتھ عام آدمی کے مقدمات سنیں گی اور سیاسی مقدمات ایک مخصوص عدالت میں چلیں گے۔‘
’قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے‘مدثر خالد عباسی نے کہاکہ اِس وقت ملک کو اس ترمیم سے زیادہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ قومی سطح پر اتفاق رائےقائم کیا جائے۔ سارے ادارے مِل کر ایک نظام بنائیں، اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ وہ قانون سازی کر سکتی ہے۔ لیکن تاثر، حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت پارلیمان اور اِن ترامیم کے بارے میں عوامی تاثر مثبت اور حوصلہ افزا نہیں بلکہ اداروں پر سے عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے، عوام اِس طرح کی قانون سازی کی تعریف نہیں کرے گی بلکہ پہلے سے موجود تقسیم اور گہری ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وجہ سے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا: پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو مستعفی
مدثر خالد عباسی نے کہاکہ اس وقت پاکستان کے اصل چیلنجز دہشتگردی، لاقانونیت، مہنگائی، تعلیم صحت کی سہولیات ہیں۔ ریاستیں عام آدمی سے بنتی ہیں اور عام آدمی اِس وقت تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام ملکی قیادت بیٹھ کر فیصلہ کرے، اس ترمیم کو لوگ زیادہ سے زیادہ چیلنج ہی کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی بینچ آئینی ترمیم اپوزیشن حکومت ریاست ریٹائرڈ ججز سپریم کورٹ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن حکومت ریاست ریٹائرڈ ججز سپریم کورٹ وی نیوز وفاقی ا ئینی عدالت مدثر خالد عباسی انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے سیاسی مقدمات ریٹائرڈ جج نے کہاکہ ا جاتے تھے چیف جسٹس عدلیہ کو سے زیادہ کے لیے
پڑھیں:
27ویں ترمیم سے سپریم کورٹ کو شید ید خطرہ ، کنو نشن بلایا جائے
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ستائیسویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ دیا ہے جس میں فوری اقدام کا مطالبہ کیا گیا کہ جب تک چھبیسویں آئینی ترمیم پر سوالات ہیں نئی آئینی ترمیم مناسب نہیں۔ بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کریں اور واضح کریں کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی۔ آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو لکھا کہ آپ اس ادارے کے صرف ایڈمنسٹریٹر نہیں بلکہ گارڈین بھی ہیں، اور یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل کے طور پر زیر التوا مقدمات کا جواز دیا جا رہا ہے، حالانکہ اسی فیصد زیر التوا مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ کی سطح پر نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں بھی ایک ہی سپریم کورٹ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا ذکر محدود مدت، صرف چھ سال کے لیے کیا گیا تھا اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر کے تحت ذکر تھا۔ اس وقت پرویز مشرف کا آمرانہ دور ختم ہوا تھا۔ اس وقت ملک میں کون سا آئینی خلا ہے، اس وقت آئینی عدالت کے قیام کی کیا ضرورت ہے۔ سینئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ستائیسویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ متن میں کہا گیا ہے کہ ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں، کیونکہ سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ ماضی میں کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور اگر چیف جسٹس متفق ہیں تو ردعمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔ یہ خط سینئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے تحریر کیا گیا، جس پر جسٹس (ر) مشیر عالم، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد کے بھی دستخط ہیں۔