مقبوضہ جموں و کشمیر میں ڈاکٹروں کو من گھڑت مقدمات میں پھنسانے کی مہم، ماہرین پر انتہا پسندی کے جھوٹے الزامات
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
بھارتی غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں قابض پولیس نے ایک بار پھر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے متعدد پیشہ ور ڈاکٹروں کو ’انتہا پسندی‘ کے بے بنیاد الزامات میں ملوث قرار دیا ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مختلف علاقوں میں سرگرم طبی ماہرین کے ایک ’شدت پسند نیٹ ورک‘ کو بے نقاب کیا ہے، تاہم تفصیلات اور شواہد کے تضادات نے اس کہانی کو مشکوک بنا دیا ہے۔
واقعہ اس وقت منظرِ عام پر آیا جب سرینگر کے نوگام علاقے میں ایک نامعلوم پوسٹر نظر آیا جس میں مقامی دکانداروں کو مرکزی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی وارننگ دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ جموں و کشمیر، میر واعظ عمر فاروق ایک بار پھر نظربند
پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر الزام لگایا کہ پوسٹر لگانے والا شخص سہارنپور (اتر پردیش) کا رہائشی اور کشمیری نژاد ڈاکٹر عدیل ہے۔
پولیس نے ڈاکٹر عدیل کو گرفتار کیا اور ان کے ’اعترافات‘ کی بنیاد پر دیگر ڈاکٹروں کو بھی ملوث کرنے کی کوشش کی، جن میں فریدآباد میں تعینات ڈاکٹر مزمل شامل ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر مزمل کی کلینک سے دو AK-47 رائفلیں، 350 کلو امونیم نائٹریٹ، پستول، میگزین، کارتوس، واکی ٹاکی سیٹ اور بیٹریاں برآمد کی گئیں۔
پولیس کے دعوے متعدد سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ ایک مصروف ڈاکٹر صرف ایک پوسٹر لگانے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرے، وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جہاں قریباً ہر گلی میں نگرانی کے کیمرے نصب ہیں۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ جموں و کشمیر میں بادل پھٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے 11 افراد جاں بحق، درجنوں مکانات تباہ
مزید برآں، ڈاکٹر عدیل گزشتہ برس اکتوبر 2024 تک گورنمنٹ میڈیکل کمپلیکس، اننت ناگ میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ وہاں ’اسلحہ‘ کس طرح ایک سال تک رکھ سکتے تھے جب وہ ادارہ وہ چھوڑ چکے تھے؟
پولیس کے مطابق برآمد ہونے والی رائفلیں AK-47 تھیں، مگر فریدآباد پولیس کمشنر ستندر کمار گپتا نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ برآمد شدہ ہتھیار AK-47 نہیں تھے۔ اس تضاد نے پولیس کی ساکھ پر مزید سوالات اٹھا دیے۔
بھارتی میڈیا اداروں کی رپورٹنگ میں بھی واضح تضادات پائے گئے۔ NDTV نے لکھا کہ اسلحہ ’مزمل شکیل‘ سے برآمد ہوا جبکہ دیگر ذرائع نے ’مفازل شکیل‘ کا نام لیا۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ برآمد شدہ مواد کی مقدار 350 کلو نہیں بلکہ 2900 کلوگرام تھی جو ایک ٹرک کے وزن کے برابر ہے۔ تجزیہ کاروں نے اسے ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ جموں و کشمیر: تباہ کن بارش اور سیلاب سے 13 ہلاک، مواصلاتی نظام ٹھپ
سیاسی مبصرین کے مطابق، یہ واقعہ بھارتی ریاستی اداروں کے اس رجحان کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت کشمیری مسلم پیشہ وروں کو دانستہ طور پر مجرم بنا کر ان کے سماجی و پیشہ ورانہ کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
یہ مہم ایک منظم منصوبے کے تحت چلائی جا رہی ہے تاکہ اعلیٰ سرکاری اور طبی عہدوں پر مسلمانوں کی جگہ ہندو اہلکاروں کو ترجیح دی جا سکے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے ڈاکٹروں، صحافیوں اور علمی شخصیات کو ’دہشتگردی‘ کے مقدمات میں ملوث کر رہا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ 2022 سے بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر میں تمام دکانداروں کے لیے CCTV کیمرے نصب کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت ہر دکان دار کو اپنے خرچ پر ایسا نظام نصب کرنا لازم ہے جو 30 دن تک فوٹیج محفوظ رکھے اور پولیس کے مطالبے پر بغیر عدالتی حکم کے فراہم کرے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں ’جموں کشمیر اتحاد المسلمین‘ اور ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ پر پابندی کی مذمت
اس پالیسی کو ماہرین نے ’فاشٹ نگرانی کے نظام‘ کی علامت قرار دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق، یہ تمام تر کارروائی بھارت کے اندرونی سیکیورٹی بحران کو چھپانے اور کشمیر میں ریاستی جبر کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
یہ جھوٹے مقدمات اور تضادات بھارت کی کمزور حکمتِ عملی کو ظاہر کرتے ہیں، جس کے ذریعے وہ کشمیری عوام کی آواز دبانے، بین الاقوامی تنقید سے بچنے، اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی غیر قانونی زیرِ قبضہ ڈاکٹر مقبوضہ جموں و کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ ڈاکٹر قرار دیا ہے مزید پڑھیں پولیس نے کرنے کی کے لیے
پڑھیں:
خواجہ آصف کا پی آئی اے کے خلاف ’منفی مہم‘ پر ردعمل، تمام الزامات مسترد
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی اور دفاع خواجہ آصف نے پی آئی اے سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والے اطلاعات کو ’بنیاد سے محروم اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا۔
وفاقی وزیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت قومی ایئر لائن کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے عمل میں مصروف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، خواجہ آصف
رواں سال اپریل میں حکومت نے پی آئی اے کی فروخت کے لیے نئی ایکسپریشن آف انٹرسٹ کی دعوت دی تھی۔
Propaganda targeting PIA, its flights safety and its operations is totally baseless.
-Safety is non-negotiable but unqualified people cannot dictate it in the presence of Pakistani and International Regulators. #PIA flight ops are strictly adhered to PCAA/international safety…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) November 10, 2025
پہلے اس کے لیے 3 جون کی آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی جسے بعد میں 19 جون تک بڑھا دیا گیا، تاہم تمام شرائط وہی برقرار رکھی گئیں۔
حکومت پی آئی اے کے 51 سے 100 فیصد حصص فروخت کرنے کی خواہش رکھتی ہے تاکہ قرضوں میں ڈوبی ہوئی ایئر لائن سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
اور دیگر خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی جا سکیں۔ یہ اقدامات 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
مزید پڑھیں: ’عمران خان اور غلام سرور نے پی آئی اے کو قبرستان بنایا‘ وزیر دفاع خواجہ آصف کا ممکنہ حکومتی کارروائی کا عندیہ
گزشتہ سال حکومت کی نجکاری کی پہلی کوشش ناکام ہو گئی تھی کیونکہ صرف ایک ہی پیشکش موصول ہوئی تھی جو 300 ملین ڈالر کے مقررہ قیمت سے کہیں کم تھی۔
خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ پروازوں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، اور ’غیر مستند افراد‘ کسی صورت اس معاملے پر رائے نہیں دے سکتے جب کہ پاکستانی اور بین الاقوامی ریگولیٹرز موجود ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ پی آئی اے کی تمام پروازیں پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور بین الاقوامی حفاظتی معیاروں پر مکمل عمل درآمد کے تحت جاری ہیں۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کے لیے پی آئی اے پروازوں کا دوبارہ آغاز اہم سنگِ میل ہے، وزیراعظم کا پابندی کے خاتمے کا خیرمقدم
وزیر نے کہا کہ حکومت پی آئی اے کی منافع بخشی کی بحالی اور اس کے نیٹ ورک کے توسیعی منصوبوں کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
ان کے مطابق، پچھلے 3 دنوں کے دوران پی آئی اے کی یومیہ اوسط آمدنی 60 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے، جو کہ باقاعدہ ملکی و غیر ملکی پروازوں کے شیڈول کے تحت حاصل کی گئی۔
انہوں نے بعض عناصر پر ملک دشمن افواہیں پھیلانے اور قومی ایئر لائن کی بحالی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کی تباہی کا الزام، غلام سرور خان اپنے دفاع کے لیے تیار
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے گزشتہ 5 برسوں میں پی آئی اے کو دوبارہ فعال اور مستحکم بنانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔
خواجہ آصف نے مزید بتایا کہ پی آئی اے اس وقت ٹورنٹو، مانچسٹر، پیرس، سعودی عرب، چین اور مشرق بعید کے لیے باقاعدہ پروازیں چلا رہی ہے.
وزیر دفاع کے مطابق جلد ہی یورپ اور شمالی امریکا کے مزید روٹس پر بھی پروازیں شروع کی جائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایکس ایوی ایشن پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی پی آئی اے خواجہ آصف وزیر دفاع